2008 کے انتخابات میں جاوید ہاشمی سے شکست کے بعد سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے عوامی مسلم لیگ کے نام سے اپنی جماعت قائم کی۔
اہم مطالبات:
بدعنوانی اور سماج سے طبقاتی نظام کا خاتمہ
عام انتخابات2013:
عوامی مسلم لیگ 2013 کے انتخابات میں صرف قومی اسمبلی کی ایک نشست این اے-55 پر کامیابی حاصل کرسکی اور یہ جیت بھی پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کے بعد ممکن ہوئی، جس کے بعد اس جماعت نے پورے ملک میں تمام نشستوں پر تحریک انصاف کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا.
پول:
کیا شیخ رشید کو باقاعدہ طور پر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلینی چاہیے؟
سیاسی سفر:
دہائیوں سے سیاسی طاقت سے لطف اندوز ہونے والے شیخ رشید احمد پرویز مشرف اور نواز شریف کے علاوہ جنرل ضیاالحق سے بھی وابستہ رہے۔ شیخ رشید 2008 کے انتخابات میں صرف 15 ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے، اس عبرت ناک شکست کے بعد اپنے سیاسی سفر کو جاری رکھنے کے لیے انہوں نے اپنی سیاسی جماعت قائم کی۔
شیخ رشید کے ایک سیاسی مقام رکھنے کے باوجود اپنی جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دینے میں ناکام رہے،البتہ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی ہر معاملے میں غیرمشروط اتحادی کے طور پر سامنے آئی ہے، تاہم تمام تر حمایت کے باوجود شیخ رشید نے اپنی جماعت کو تحریک انصاف میں ضم کرنے سے گریز کیا۔
پانامہ گیٹ مقدمے میں ایک فریق شیخ رشید بھی تھے، لیکن اس سلسلے میں انہوں نے کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے اپنا مقدمہ خود لڑا۔
نواز شریف کے نااہل ہوجانے کے بعد وزیراعظم کو منتخب کرنے کے عمل میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نامزد کردہ شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنی جماعت کے رہنماؤں کے بجائے شیخ رشید کو نامزد کیا، حالانکہ انہیں اس انتخاب میں شکست ہوئی لیکن اس سے تحریک انصاف میں ان کی اہمیت واضح طور پر سامنے آگئی۔
بعدازاں نو منتخب شدہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے عہدہ سنبھالتے ہی شیخ رشید نے ایل این جی اسکینڈل کے تحت ان کی نااہلی کے لیے بھی عدالت سے رجوع کیا۔
2016 میں شیخ رشید اس وقت سب کی توجہ کو مرکز بن گئے جب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کے اعلان کے بعد پنجاب پولیس نے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے تمام رہنماؤں کو نظر بند کردیا، اس صورتحال میں شیخ رشید موٹر سائیکل پر ڈرامائی طور پر راولپنڈی کی کمیٹی چوک پر نمودار ہوئے اورعوام سے مختصر خطاب کیا۔