پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا قیام 25 اپریل 1996 میں لاہور میں ہوا تھا،جس کی بنیاد سیاست دان اور پارٹی کے چیئرمین، کرکٹ لیجنڈ عمران خان نیازی نے رکھی تھی۔
اہم رہنما
- عمران خان (بانی و چیئرمین)
- شاہ محمود قریشی (نائب چیئرمین)
- اسد عمر
- پرویز خٹک (سابق وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا)
- شیریں مزاری
- جہانگیر ترین
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد قومی سیاسی میں آنے کا فیصلہ کیا اور 1996 میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔
2008 تک تحریک انصاف بنیادی طور پر ایک شخص کی جماعت سمجھی جاتی تھی، جس میں پارٹی کے ترجمان بھی عمران خان ہی تھے۔
پاکستان کے اب تک واحد ورلڈ کپ فاتح ٹیم کے کپتان اور معروف شخصیت ہونے کی حقیقت کے باوجود ان کی جماعت ابتداء میں سیاسی پیروکار جمع نہ کرسکی۔
پی ٹی آئی کے حامیوں کی زیادہ تر تعداد شہری علاقوں کے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے، جو اس جماعت کو ملک میں تبدیلی کا نشان سمجھتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے نعرے ’نیا پاکستان‘ اور ’تبدیلی‘ پارٹی کے بنیادی مقصد کی عکاسی کرتے ہیں، کیونکہ ان کو یقین ہے کہ پاکستان کو ترقی کرنے کے لیے ملکی نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
انتخابات 1997
تحریک انصاف نے 1997 میں پہلی مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لیا، جس میں وہ اسمبلی کی ایک بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
انتخابات 2002
2002 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست مل سکی تھی، جس پر پارٹی چیئرمین عمران خان خود کامیاب ہوئے تھے۔
انتخابات 2008
2008 میں پی ٹی آئی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، اس وقت تحریک انصاف آل پارٹیز ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ تھی، جس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، نیشنل پارٹی (این پی) جیسی چھوٹی سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔
انتخابات 2013
پی ٹی آئی 2011 میں ایک سیاسی قوت بن کر ابھری، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے شاہ محمود قریشی، پاکستان مسلم لیگ (ف) سے جہانگیر خان ترین اور دیگر اہم رہنماؤں نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کیی، اس کے علاوہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں ان کی بھی ایک بڑی تعداد تھی جنہیں سیاسی حلقوں میں کوئی نہیں جانتا تھا، ان میں سرِ فہرست نام اینگرو کے سابق سی ای او اسد عمر کا ہے۔
ایک مضبوط الیکشن مہم کے باوجود پی ٹی آئی 2013 کے انتخابات میں مرکز میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی، تاہم قومی اسمبلی میں 32 سیٹس حاصل کے اپوزیشن کی نشستیں سنبھال لی۔
تحریک انصاف نے صوبہ خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل کی اور جماعت اسلامی کے سے اتحاد کرکے صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
انتخابات 2018
اہم معاملات پر مؤقف
امریکا میں 11 ستمبر 2001 میں حملے ہوئے، جس کے بعد امریکا نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ شروع کی، جس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے پاکستان کی شمولیت کا فیصلہ کیا، تاہم تحریک انصاف ہمیشہ اس کی مخالفت کرتی رہی ہے۔
بائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے مخالفت کے باوجود پی ٹی آئی نے فوجی آپریشن کے بجائے طالبان سے مذاکرات پر زور دیا۔
تحریک انصاف، امریکا کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں کی بھی مخالف رہی ہے، انہیں قبائلی علاقوں میں انتہاپسندی بڑھنے کی بڑی وجہ قرار دیا۔
جب حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے الیکشن 2013 سے متعلق پی ٹی آئی کے الزامات کی تحقیقات کرانے سے انکار کیا, تو تحریک انصاف نے 2014 میں اسلام آباد کے ریڈ زون میں بڑا دھرنا دے دیا, اس دھرنے میں پی ٹی آئی کی جانب سے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا, یہ دھرنا تقریباً 5ماہ تک جاری رہا، تاہم اسے 16دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے دہشت گرد حملے، جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا، کے بعد دھرنا ختم کردیا تھا۔
2016 میں پاناما پیپرز اسیکنڈل منظر عام پر آیا، جس کے بعد جب وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا، تو اس میں بھی پی ٹی آئی پیش پیش تھی، اس مرتبہ پی ٹی آئی اپنی خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہوئی اور سپریم کورٹ نے نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا، جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ سے بھی نااہل ہوگئے تھے۔
پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا میں ’ایک ارب درختوں کے سونامی‘ کا اقدام اٹھایا اور صوبے میں ماحول کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک ارب درخت لگائے۔
تنازعات
پی ٹی آئی نے عسکریت پسندوں سے مذاکرات پر ہمیشہ زور دیا، تاہم جب پاک افغان سرحد پر قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی کا آغاز ہوا، تو تحریک انصاف خاموش رہی۔
پی ٹی آئی کی کرپشن کے خلاف جدوجہد کے باوجود پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ تحریک انصاف نے بیرونِ ملک سے غیر قانونی طور پر فنڈز حاصل کیے، یہ کیس 2014 سے الیکشن کمیشن (ای سی پی) میں زیرِ سماعت ہے۔
خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک پر اپنے ذاتی کاموں کے لیے حکومتی مشینری استعمال کرنے کا الزام ہے، تاہم پارٹی قیادت نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی بات نہیں کی۔
2018 کے آغاز میں پارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر خان ترین کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 (ون)(ایف) کے تحت آف شور کمپنی رکھنے اور اسے انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا تھا، یہی الزام عمران خان پر بھی تھا، تاہم وہ نااہل ہونے سے بچ گئے۔
متعدد مرتبہ پی ٹی آئی کی خواتین رہنما پارٹی قیادت پر معتصبانہ رویہ رکھنے کا الزام عائد کر چکی ہیں، 2012 میں پی ٹی آئی کی خواتین ونگ کی سربراہ ڈاکٹر شیریں مزاری نے پارٹی چھوڑ دی تھی اور کہا تھا کہ تحریک انصاف دیگر سیاست دانوں کو اپنی جماعت میں شامل کرکے اپنے مقصد سے ہٹ چکی ہے، بعد ازاں وہ دوبارہ پارٹی میں متحرک ہو گئیں۔
اس کے ساتھ ساتھ 2013 میں فوزیہ قصوری نے پارٹی قیادت پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر ٹکٹوں کے معاملے میں ناانصافی کی ہے، بعدِ ازاں وہ بھی دوبارہ تحریک انصاف کی سرگرمیوں میں بھر پور انداز سے حصہ بننے لگیں۔
2017 میں رکنِ قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کی سابقہ رکن عائشہ گلالئی کی جانب سے انتہائی سنگین الزامات عائد کیے گئے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پارٹی چیئرمین عمران خان نے انہیں ہراساں کیا، رات دیر فون کالز کیں اور نازیبا ٹیکسٹ میسجز بھیجے۔
اسی طرح خیبرپختونخوا میں وزیرِ ریونیو اور پارٹی کے رہنما علی امین گنڈا پور پر 2017 میں پی ٹی آئی ہی کے ایک اور رہنما داور خان کنڈی نے الزام عائد کیا کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں لڑکی کو مبینہ طور پر برہنہ کرکے علاقے میں گھمانے اور اس کی فلمسازی وہ ملوث تھے، بعدِ ازاں عمران خان نے الزامات کو جھوٹا قرار دیا اور داور خان کنڈی کو ہی پارٹی سے نکال دیا تھا۔
صاف اور شفاف الیکشن پر زور دینے کے باوجود پی ٹی آئی پر اس کی اتحادی جماعت اسلامی کی جانب سے الزام ہے کہ اس نے سینیٹ الیکشن میں ’اوپر سے ہدایت‘ لی ہیں۔
تحریک انصاف نے 2018 میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں پارٹی کا ووٹ بیچنے والے 20 سینیٹرز کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا بھی اعلان کیا۔