بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) دراصل بلوچ قوم پرست پارٹی ہے، جس کا قیام 1996 میں عمل میں آیا، جو صوبوں اور خصوصی طور پر بلوچستان کی خود مختاری کی زبردست حامی ہے۔
اہم رہنما
- عطاء اللہ مینگل
- اختر مینگل
- جہانزیب جمال دینی
- ثناء اللہ بلوچ
- ساجد ترین
سیاست کے اہم نکات
بلوچستان کی خود مختاری
لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچ افراد کو قتل کرنے کی روایات کا خاتمہ
بلوچستان کے اختیارات صوبائی سیاسی پارٹیوں کے سپرد کرنا
ماضی کے انتخابات
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور معروف سیاستدان کی جانب سے پارٹی کو بنائے جانے کے محض ایک سال بعد بی بی این پی مینگل 1997 کے عام انتخابات میں 9 صوبائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، اختر مینگل جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) کے سربراہ نواب اکبر بگٹی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن تھوڑے ہی عرصے میں پارٹی میں اختلافات پیدا ہوگئے اور اختر مینگل کو بلوچستان میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات کرنے سے متعلق پارٹی سے مشاورت نہ کرنے کے الزامات کے باعث استعفیٰ دینا پڑا، جس کے بعد نواب اسراراللہ زہری کی سربراہی میں بی این پی عوامی تشکیل دی گئی۔
بی این پی مینگل نے 2002 اور 2008 کے عام انتخابات فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی سربراہی میں کرانے کی وجہ سے ان میں حصہ نہیں لیا، لیکن اس کے باوجود پارٹی کے تین امیدوار قومی و صوبائی نشتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور پارٹی کا ایک سینیٹر بھی منتخب ہوا، جنہوں نے 2006 میں اپنی نشستوں سے اس وقت استعفیٰ دے دیا، جب بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا۔
عام انتخابات 2013
عام انتخابات 2013 سے قبل اگرچہ اختر مینگل طویل جلاوطنی ختم کرکے وطن لوٹے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کی پارٹی قومی و صوبائی اسمبلی کی صرف 2 نشستیں ہی جیت سکی تھی، اختر مینگل خود اپنی صوبائی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے اور ایک نشست انہوں نے قومی اسمبلی کی حاصل کی تھی۔
ابتداء میں اگرچہ اختر مینگل نے 2013 کے انتخابی نتائج میں دھاندلی کے الزامات عائد کرکے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا، تاہم بعد ازاں انہوں نے نتائج کو قبول کرکے حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔
اہم واقعات اور تنازعات
2012 میں اختر مینگل نے سپریم کورٹ میں 6 نکات پیش کیے تھے، جن کا شیخ مجیب الرحمٰن کے ان چھ نکات سے موازنہ کیا جا رہا تھا، جو بعد ازاں بنگلہ دیش بنانے کا سبب بنے۔
ان 6 نکات میں لاپتہ افراد کی واپسی، مبینہ طور پر فوجی اور حساس اداروں میں قائم ڈیتھ اسکواڈز کے خاتمے جیسے متنازع مطالبے شامل تھے۔
بی این پی مینگل نے 2002 کے انتخابات میں حصہ لیا تھا، جس میں انہیں ایک صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کی نشست حاصل ہوئی، جس کی بدولت سینیٹ کی ایک سیٹ بھی اس کے حصے میں آئی، تاہم 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد پارٹی نے اسمبلیاں چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نشستوں سے استعفیٰ دے دیا۔
پارٹی نے 2008 کے انتخابات میں بھی بائیکاٹ جاری رکھا اور کراچی جیل سے رہائی کے بعد اختر مینگل نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔
2013 کے عام انتخابات میں بلوچ قوم پرست جماعتوں اور رہنماؤں کے شدید دباؤ کے باوجود بی این پی نے انتخابات میں حصہ لیا، جس کے بعد پارٹی میں تنازعات اور جھگڑے شروع ہوگئے۔
پارٹی کی تاریخ میں سب سے زیادہ تنازع 2006 میں اس وقت ہوا، جب اختر مینگل کے ذاتی سیکیورٹی گارڈ نے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر خفیہ ادارے کے اہلکار کو تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے بعد اختر مینگل کو گرفتار کرلیا گیا۔
اختر مینگل نے دعویٰ کیا کہ اہلکار کو اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کیوں کہ وہ ان کے بچوں کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اختر مینگل کو کئی سالوں تک جیل بھیج دیا گیا، اور رہائی کے بعد انہوں نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی، جو 4 سال تک جاری رہی۔
2017 میں بلوچستان کے شہر خضدار کے علاقے وڈھ میں قائم ان کے گھر پر نامعلوم افراد نے راکٹ سے حملہ کیا، جس کی وجہ سے ان کے گھر کا مرکزی دروازہ بری طرح متاثر ہوا، تاہم اس میں کوئی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
اسی طرح ملک کی 19 ویں مردم شماری کے حوالے سے بھی دیگر بلوچ قوم پرست جماعتوں کی طرح بی این پی (مینگل) نے بھی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ صوبے کی سیکیورٹی کی صورتحال مناسب نہیں اور وہاں لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں۔
بی این پی مینگل کے متعدد رہنما بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے دوران مارے جاچکے ہیں۔
بی این پی مینگل کو جہاں بلوچ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہیں محب وطن پاکستانی سوچ رکھنے والے افراد کی جانب سے بھی ان پر دوہرا معیار رکھنے کی بنیاد پر تنقید کی جاتی ہے۔
پارٹی پر الزام ہے کہ وہ جہاں بلوچ قوم پرست سیاست کرتی ہے، وہیں وہ محب وطن پاکستانی ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہے۔