• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
شائع July 14, 2018 اپ ڈیٹ February 12, 2021

جماعت کا قیام 1992 میں عمل میں آیا۔

1990 میں اسلامی جمہوری اتحاد نے نواز شریف کی قیادت میں الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی تاہم اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں سے اختلافات کے بعد 1993 کے انتخابات سے قبل نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بنیاد رکھی۔

اہم رہنما

  • نواز شریف (تاحیات قائد)
  • شہباز شریف (صدر)
  • مریم نواز (نواز شریف کی صاحبزادی)
  • حمزہ شہباز (شہباز شریف کے صاحبزادے)
  • شاہد خاقان عباسی
  • خواجہ سعد رفیق
  • خواجہ محمد آصف
  • احسن اقبال
  • چوہدری نثار علی خان (ناراض رہنما)
  • راجا ظفر الحق
  • پرویز رشید
  • مشاہد اللہ خان
  • اسحٰق ڈار (خود ساختہ جلا وطن رہنما)

کلیدی امور

  • مسلم لیگ (ن) کا بیشتر زور بنیادی ڈھانچے، ترقیاتی کاموں پر ہوتا ہے، جس میں سڑکیں، ریل کا نظام، پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر شامل ہیں جبکہ ان کے منشور میں اسے ڈیموکریٹک گورنس کا نام دیا گیا ہے۔

  • حال ہی میں پارٹی نے ریاست کے 3 اہم ستونوں کے درمیان طاقت کے توازن کے حوالے سے بھی آواز بلند کی ہے جبکہ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں پارٹی قیادت کی جانب سے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔

  • خیال رہے کہ نواز شریف نے خود ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کی مدد سے سیاست کا آغاز کیا تھا تاہم وہ ہر گزرتے سال کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے دور ہوتے گئے اور اب جمہوریت کے لیے سب سے متحرک نظر آتے ہیں۔

  • ماضی میں ملک کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی مذہبی جماعتوں کے قریب ہونے اور مرکزی ترقی کے ماڈل کے حوالے سے متحرک رہنے کے سبب مسلم لیگ (ن) نے خود کو دیگر سیاسی جماعتوں سے دور کرلیا ہے اور مزید دور ہوتے جارہے ہیں۔

  • مسلم لیگ (ن) کی دلی خواہش ہے کہ روایتی حریف اور ہمسائے، بھارت کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں بڑھائی جائیں، تاہم اس حوالے سے حالیہ کوششوں کو نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے سرحد پر شروع کی جانے والی کشیدگی اور انتہائی سخت رویے کے باعث نقصان پہنچا۔

1992 میں قیام

مسلم لیگ (ن) 1992 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی ملک کے سیاسی میدان میں

انتہائی اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آتی رہی ہے، اس کے باوجود کہ نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ رہتے ہوئے ملک کے اعلیٰ سیاسی عہدوں پر براجمان رہ چکے تھے۔

انتخابات 1993، 1997 اور 2002

مسلم لیگ (ن) 1993 کے انتخابات کے بعد ملک کی اہم اپوزیشن جماعت کے طور پر سامنے آئی جبکہ 1997 کے انتخابات میں پارٹی نے واضح اکثریت کے ساتھ حکومت قائم کی تاہم 2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) قابل ذکر نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہی، کہ اس موقع پر ان کے بیشتر رہنما جیلوں میں قید تھے یا ملک سے باہر جلا وطنی کاٹ رہے تھے۔

انتخابات 2008

  • 2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن)، پی پی پی کے بعد ملک کی دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر روایتی سیاسی حریف ہونے کے باوجود حکومتی نشستوں پر براجمان ہوئی اور کابینہ کا حصہ بن گئی تاہم یہ غیر معمولی اتحاد زیادہ عرصے نہیں چل سکا اور مسلم لیگ (ن) اپوزیشن کی نشستوں پر آکر بیٹھ گئی اور 2013 کے انتخابات کا تحمل سے انتظار کرنے لگی۔

انتخابات 2013

  • مسلم لیگ (ن) 2013 کے انتخابات میں مرکز میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی اور اس نے پنجاب اسمبلی میں ایک تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کی تھی، نواز شریف نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے ساتھ اتحاد کرکے وفاق میں حکومت تشکیل دی۔ یوں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم کا حلف لینے والے ملک کے واحد فرد ٹھہرے۔

  • مسلم لیگ (ن) نے وفاق کے علاوہ صوبہ پنجاب میں بھی حکومت قائم کی اور شہباز شریف کو صوبے کا وزیراعلیٰ مقرر کیا جبکہ صوبہ بلوچستان میں نیشنل پارٹی سے معاہدہ کرکے عبدالمالک بلوچ کو ڈھائی سال کے لیے صوبے کا وزیراعلیٰ مقرر کیا جبکہ اسی معاہدے کے تحت بقیہ ڈھائی سال مسلم لیگ (ن) کے نامزد نمائندے نے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنا تھا۔

  • سندھ اور پختونخوا میں نمائندگی ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے سندھ اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں میں بالترتیب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو حکومت تشکیل دینے دی۔

اہم سیاسی معاملات

  • مسلم لیگ (ن) نے 1996 میں بینظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، جس کے بعد نواز شریف غیر معمولی اکثریت حاصل کرکے حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

  • نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں آٹھویں آئینی ترمیم کو فوری طور پر منسوخ کرنے کے لیے اقدامات کیے جو اس وقت تک دو مرتبہ استعمال کی گئی تھی ایک مرتبہ نواز شریف کو ہٹانے کے لیے اور ایک مرتبہ بینظیر کے خلاف استعمال ہوئی تھی۔

  • نواز شریف کے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد 2 اہم واقعات سامنے آئے، جن میں ایک جوہری دھماکے اور دوسرا کارگل جنگ تھی۔ نواز شریف کے مذکورہ اقدامات پر انہیں شدید بین الاقوامی دباؤ کا سامنا تھا جس پر انہوں نے اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی جو کامیاب ثابت ہوئی۔

  • اس کے علاوہ شدید تنقید کا شکار رہنے والا لاہور سے اسلام آباد موٹر وے بعد میں بڑی کامیابی ثابت ہوا جس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے 2013 کے انتخابات کے لیے مزید سڑکیں اور بہتر انفرااسٹرکچر کو اپنے منشور کا حصہ بنایا۔

  • پرویز مشرف کی جانب سے نواز شریف کی حکومت ختم کرنے اور انہیں ملک بدر کیے جانے کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اس میں شرکت کی اور تقریبا آدھی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

  • 2006 میں مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔

  • پی پی پی کی جانب سے ججز، جن میں جسٹس افتخار چوہدری بھی شامل تھے، کو بحال کرنے میں تاخیر کے باعث شروع ہونے والی وکلا تحریک نے شدت اختیار کی تو نواز شریف نے مذکورہ تحریک میں قائدانہ کردار ادا کیا، یہاں تک کے نواز شریف کی قیادت میں ابھی قافلہ گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ اس وقت کے آرمی چیف نے مداخلت کی، جس کے نتیجے میں جسٹس افتخار چوہدری عہدے پر بحال ہوگئے۔

  • نوازشریف نے میمو گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے بھی مرکزی کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو مستعفی ہونا پڑا۔ نواز شریف مذکورہ کیس میں درخواست گزار تھے جو پی پی پی کے لیے مشکلات کا باعث بنا، اور انہوں نے کچھ سالوں بعد اس کردار کو عوامی سطح پر تسلیم بھی کیا تھا۔

تنازعات

  • 1999 میں نواز شریف نے مبینہ طور پر آئین میں متعدد ترامیم کے ذریعے ریاست کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے اور امیر المومنین (ماننے والوں کے رہنما) بننے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم انہیں اسی سال معزول کردیا گیا۔

  • مسلم لیگ (ن) کو حال ہی میں ایک اور تنازع کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب شریف خاندان کی اربوں روپے مالیت کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے پاناما پیپرز لیکس میں انکشافات سامنے آئے۔ پارلیمنٹ میں اس معاملے کے حل میں ناکامی کے بعد اپوزیشن نے اس معاملے کو عدالت میں اٹھایا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی قائم کی گئی جبکہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا۔

  • اس سے قبل 12 اکتوبر 1999 کو مسلم لیگ (ن) کو ملک کے سب سے بڑے تنازع کا سامنا کرنا پڑا تھا جب نواز شریف پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا سری لنکا سے واپس آنے والے طیارے کو کراچی میں مبینہ طور پر لینڈ کرنے کی اجازت نہ دینے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا اور نواز شریف کی حکومت کو معزول کردیا گیا۔ اس واقعے کے بعد نواز شریف کو جیل بھیج دیا گیا تاہم ایک معاہدے کے بعد انہیں، ان کے بھائی اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو سعودی عرب میں 10 سال کی جلا وطنی کاٹنے کے لیے ملک بدر کردیا گیا۔ شریف خاندان کے ملک سے جانے کے بعد شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز نے خاندان کا کاروبار اور پارٹی کے معاملات سنبھالے۔

  • 2013 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسلم لیگ (ن) پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے جبکہ عمران خان کی سربراہی میں پی ٹی آئی نے 126 روز تک اسلام آباد میں دھرنا دیا اور معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر رضا مندی ظاہر کی جبکہ دسمبر 2014 میں پشاور میں ہونے والے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تاہم جوڈیشل کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ دھاندلی کے شواہد نہیں ملے۔

  • 1997 میں سپریم کورٹ پر حملہ: سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ارکان اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے نواز شریف کے پولیٹیکل سیکریٹری کرنل (ر) مشتاق طاہرخیلی کی سربراہی میں عدالت پر حملہ کردیا، اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو اس حوالے سے ہجوم کے عدالت میں پہنچے سے کچھ دیگر قبل بتایا گیا جس پر انہوں نے کیس کی سماعت ملتوی کردی تاہم مشتعل ہجوم نے کمرہ عدالت پہنچ کر فرنیچر کو نقصان پہنچایا۔

  • قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم: مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے دور میں ملک میں خود کفالت، عالمی بینک سے قرض حاصل نہ کرنے اور عالمی برادری سے قرض کے حصول کے حوالے سے قائم کشکول توڑنے کے لیے ایک اسکیم متعارف کرائی تھی، جس میں عوام کی جانب سے 2 ارب روپے جمع کرائے گئے اور اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا کہ تمام رقم قومی خزانے میں مذکورہ حوالے سے جمع کرادی گئی ہے تاہم اپوزیشن نے اس منصوبے کو غیر شفاف قرار دیا تھا جبکہ گزشتہ سال اسٹیٹ بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ وہ تمام رقم ان افراد کو واپس کردی گئی ہے، جنہوں نے مذکورہ اسکیم کے لیے یہ جمع کرائی تھی۔

  • حدیبیہ پیپرز ملز کیس: نواز شریف کی حکومت ختم کیے جانے کے بعد 25 اپریل 2000 میں اسحٰق ڈار نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے مجسٹریٹ کے سامنے ایک بیان قلمبند کرایا تھا، جس میں اسحٰق ڈار نے ایک کروڑ 48 لاکھ 60 ہزار روپے کی منی لانڈرنگ اور نواز شریف کے بھائی کے لیے سکندر مسعود اور طلعت مسعود قاضی کے ناموں پر 2 بینک اکاؤنٹس کھلوانے کے الزامات کو تسلیم کیا تھا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ کی جانب سے مذکورہ معاملے پر ریمارکس سامنے آئے کہ یہ کیس شریف خاندان کے خلاف سیاسی طور پر استعمال کیا گیا تھا۔