• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
شائع July 14, 2018

قیام: 2016

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان دراصل الطاف حسین کی جانب سے بنائی گئی ایم کیو ایم سے الگ ہونے والا ہی ایک دھڑا ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کو 23 اگست 2016 کو اس وقت بنایا گیا جب ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بانی متحدہ الطاف حسین اور ان کی لندن کی پارٹی سے تمام تر تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا۔

اس پارٹی کو اس وقت بنایا گیا، جب 22 اگست 2016 کو الطاف حسین نے پاکستان اور ریاست مخالف تقریر کی تھی، جس کے بعد ایم کیو ایم کارکنان نے ایک نجی نیوز چینل پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ شروع کردی تھی۔

انہی ہنگاموں اور کشیدگی کے بعد پیراملٹری فورس نے ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کرلیا تھا، جنہیں بعد ازاں رہا کردیا گیا، جب کہ ساتھ ہی اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو اور تمام یونٹ دفاتر کو بھی بند کردیا گیا تھا۔

اہم رہنما

  • خالد مقبول صدیقی
  • ڈاکٹر فاروق ستار
  • خواجہ اظہار الحسن

سیاست کے اہم نکات

  • کراچی
  • شہری سندھ
  • اردو بولنے والے افراد (مہاجر)
  • سماجی بہتری
  • کوٹا سسٹم کا خاتمہ

انتخابات 2013

  • اس وقت یہ سیاسی دھڑا موجود ہی نہیں تھا۔

ماضی کے انتخابات

  • ماضی میں یہ سیاسی دھڑا موجود ہی نہیں تھا، یہ گروپ پہلی بار انتخابات میں شامل ہوا ہے۔

اہم سیاسی معاملات

  • اگرچہ اس سیاسی دھڑے کے رہنماؤں کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے پارٹی کی کمزوریاں کھل کر سامنے آئیں، تاہم پھر بھی پارٹی رہنماؤں نے شہری سندھ کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کرکے اپنی پارٹی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد جاری رکھی۔
  • اختلافات اور مسائل کے باعث اس دھڑے کے کم سے کم ڈیڑھ درجن قانون ساز پارٹی سے علیحدہ ہوکر ایم کیو ایم سے ہی جنم لینے والی نئی سیاسی جماعت ’پاک سر زمین پارٹی‘ (پی ایس پی) سمیت دیگر جماعتوں میں چلے گئے۔
  • اس دھڑے کی قیادت نے کسی کا نام لیے بغیر متعدد مواقع پر دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پارٹی رہنماؤں کو جماعت چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، ساتھ ہی اس دھڑے کی قیادت نے مختلف سیاسی جماعتوں پر بھی الزام عائد کیا کہ وہ بھی ان کے رہنما توڑنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

تنازعات

  • یہ دھڑا جس دن سے وجود میں آیا ہے تب سے ہی تنازعات چلے آ رہے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دھڑے کی مرکزی قیادت نے مبینہ طور پر سندھ رینجرز کے عہدیداروں کے ساتھ مل کر اس گروپ کی تشکیل کی، ساتھ ہی مختلف سیاسی پارٹیاں اور سیاسی مبصرین بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اس گروپ کو بنانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے، لیکن دوسری طرف ایسے بیانات اور دعوے سامنے آنے کے بعد سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل محمد سعید ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کرچکے ہیں کہ ایم کیو ایم لندن کی تقسیم ان کے اندرونی اختلافات کے باعث ہوئی۔
  • بدنام زمانہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار 16 ستمبر 2016 کو ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنما خواجہ اظہار الحسن کو ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کا ساتھ دینے کے الزام میں گرفتار بھی کرچکے ہیں، دوسری جانب یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ اس گرفتاری کے پیچھے ڈاکٹر فاروق ستار کا ہاتھ تھا، کیوں کہ خواجہ اظہار نے ان سے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر شپ کے عہدے سمیت دیگر مطالبات کیے تھے۔
  • 8 نومبر 2017 کو متحدہ لندن سے الگ ہونے والے دونوں سیاسی گروپوں یعنی پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان نے اختلافات بھلا کر اتحاد قائم کرنے اور 2018 کے انتخابات ایک ہی نام اور ایک ہی منشور کے ساتھ لڑنے کا اعلان کیا، تاہم یہ اعلان حقیقت کا روپ دھار نہ سکا اور یہ اتحاد چند ہی گھنٹوں میں ٹوٹ گیا اور کئی اہم رہنماؤں جن میں علی رضا عابدی بھی شامل تھے، انہوں نے پارٹی اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔
  • اگلے ہی دن ایم کیو ایم کا مخصوص انداز ایم کیو ایم پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملا اور حیران کن طور پر پارٹی سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کی سربراہی سے استعفیٰ کا اعلان کیا، تاہم اپنی والدہ اور پارٹی کارکنان کی مداخلت اور فرمائش کے بعد چند ہی گھنٹوں میں انہوں نے یہ اعلان واپس بھی لیا۔
  • نئے سال میں بھی تنازعات نے ایم کیو ایم کے دامن کو نہیں چھوڑا اور 2018 کے ماہ فروری کے پہلے ہی ہفتے میں 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات کے لیے امیدواروں کے اعلان پر پارٹی رہنماؤں میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور کئی رہنماء پہلی بار کھل کر فاروق ستار کی مخالفت کرنے لگے۔
  • پارٹی رہنماؤں نے فاروق ستار سے مطالبہ کیا کہ وہ سینیٹ انتخابات کے لیے اپنے پسندیدہ امیدوار کامران ٹیسوری کی نامزدگی کا اعلان واپس لیں، ساتھ ہی پارٹی کی رابطہ کمیٹی نے ان کا نام مسترد کرتے ہوئے ان کی رکنیت بھی 6 ماہ کے لیے معطل کردی۔
  • بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کو بھی پارٹی سربراہی سے ہٹاتے ہوئے ان کی جگہ خالد مقبول صدیقی کو نیا سربراہ مقرر کردیا، جس کے ردِ عمل میں فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کو ہی توڑ کر انٹرا انتخابات کے ذریعے خود کو نیا سربراہ منتخب کروالیا۔
  • انہی اختلافات کے باعث ایم کیو ایم پاکستان 2 گروپوں یعنی ایم کیو ایم ’پیر الاہی بخش‘ (پی آئی بی) کالونی اور ایم کیو ایم بہادر آباد میں تقسیم ہوگئی۔ پی آئی بی دھڑے کی قیادت فاروق ستار نے سنبھال لی جبکہ بہادر آباد کی قیادت خالد مقبول صدیقی کے پاس رہی۔
  • 12 فروری کو ڈاکٹر فاروق ستار نے دعویٰ کیا کہ رابطہ کمیٹی کے کچھ ارکان نے انہیں کنوینر شپ کے عہدے سے اس لیے ہٹایا، کیوں کہ وہ ارکان ان کی جگہ سابق آرمی چیف (ریٹائرڈ) جنرل پرویز مشرف کو لے آنا چاہتے ہیں، تاہم بعد ازاں پرویز مشرف نے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پیش کش کے باوجود اس پارٹی کے کسی بھی دھڑے کی سربراہی سے انکار کردیا ہے۔

ماضی کی ایم کیو ایم

  • الطاف حسین نے زمانہ طالب علمی میں 11 جون 1978 میں چند دوستوں کے ساتھ مل کر سندھ میں مہاجر سیاسی پارٹی کی تشکیل کرتے ہوئے ’آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘ (اے پی ایم ایس او) کا بنیاد رکھی۔
  • جلد ہی اے پی ایم ایس او دائیں بازوں کی طلبہ تنظیم کے طور پر ناکام ہوگئی، جس کے بعد اسی کے پیٹ سے ’مہاجر قومی موومنٹ‘ (ایم کیو ایم) کا جنم ہوا، جو آگے چل کر سندھ کی قوم پرست پارٹیوں سے مذاکرات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے نام میں ضم ہوگئی۔
  • ماضی کی ایم کیو ایم بھی تنازعات کی اپنی تاریخ رکھتی ہے، کیونکہ جلد ہی ایم کیو ایم میں عسکری ونگ تشکیل پاگیا، جس کے بعد اسے دہشت گرد تنظیم کے طور پر پہچانا جانے لگا، جو نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی مصیبت بن گئی۔
  • بعد ازاں پارٹی میں بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور تشدد سمیت ریاست مخالف سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں، یہاں تک کہ اس کے روابط بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے بھی ہوگئے، جس وجہ سے ہی آج تک اس پارٹی کے خلاف ریاستی اداروں نے کم سے کم 3 آپریشن بھی کیے ہیں۔
  • بعد ازاں اسی پارٹی سے ایم کیو ایم (مہاجر) آفاق احمد کا دھڑا بھی الگ ہوگیا، جو آج تک ایک الگ سیاسی پارٹی کے طور پر کام کر رہا ہے۔
  • ایم کیو ایم کے بانی قائدین میں اب صرف الطاف حسین، فاروق ستار اور آفاق احمد زندہ ہیں، باقی دیگر تمام پُراسرار طور پر ہلاک ہوگئے یا مار دیے گئے۔
  • 22 اگست 2016 تک ایم کیو ایم کو الطاف حسین برطانیہ سے بیٹھ کر انتہائی مؤثر انداز سے چلاتے رہے، تاہم بعد ازاں ان کی ریاست مخالف تقریر نے ہی ان کی پارٹی میں پھوٹ ڈال دی اور ایک نئی پارٹی ایم کیو ایم پاکستان تشکیل میں آئی۔