’امامت سے پہلے جامعہ حفصہ کی غیرقانونی تعمیر پر بات ہونی چاہیے‘
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ نے لال مسجد کے سابق امام عبدالعزیز کی جانب سے لال مسجد کا منبر و محراب سنبھالنے کی کوشش ایک مرتبہ پھر ناکام بنا دی۔
واضح رہے کہ انتظامیہ اور مولانا عبدالعزیز کے مابین 5 مذاکراتی دور ہوئے جس کے بعد فیصلہ سامنے آیا کہ وہ گزشتہ روز جمعہ کی امامت اور خطاب نہیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: خطیب لال مسجد کی گرفتاری، پولیس ہچکچاہٹ کا شکار
آخری مذاکراتی دور گزشتہ روز صبح شروع ہوا جو جمعہ کی نماز سے محض آدھے گھنٹے پہلے تک جاری رہا۔
اس دوران برقعے میں ملوث متعدد خواتین ہاتھوں میں لاٹھیاں تھامے نظر آئیں جن میں سے بعض نیو جامعہ حفصہ کی نئی بلڈنگ کی چھت اور کھڑیوں پر دیکھی جا سکتی تھیں۔
دوسری جانب انتظامیہ کی رِٹ کو برقرار رکھنے کے لیے کالے لباس میں ملبوس خواتین کمانڈوز پر مشتمل دستے بھی اس موقع پر موجود تھے۔
جی سیون میں مدرسے اور لال مسجد کے اطراف متعدد طالب علم موجود تھے جبکہ پولیس کے علاوہ رینجرز بھی تعینات کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ لال مسجد کی شہداء فاؤنڈیشن نے 8 مئی کو اعلان کیا تھا کہ مولانا عبدالعزیز 11 مئی کو نماز جمعہ میں امامت کے فرائض انجام دیں گے اور خطاب بھی کریں۔
مزید پڑھیں: خطیب لال مسجد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
جس کے بعد اسلام آباد کی انتظامیہ نے نیو جامعہ حفصہ میں علماء سے مذاکرات شروع کردیئے۔
حکام نے میڈیا کو بتایا کہ مولانا عبدالعزیز نے مسجد نہ جانے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
دوسری جانب آئی سی ٹی کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ مولانا عبدالعزیز کا اصرار تھا کہ لال مسجد میں خطاب کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ‘مولانا عبدالعزیز کا پلان تھا کہ وہ جلوس کی صورت میں مسجد میں آئیں گے اور ان کے ہمراہ طلبہ سے بھری گاڑیاں بھی ساتھ ہوں گی، جس پر ہم نے ان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا’۔
ذرائع نے مزید انکشاف کیا کہ ‘ہم نے صرف مولانا سے اتنا کہا کہ نیو جامعہ حفصہ غیرقانونی طور پر تعمیر ہوا ہے تو پہلے اچھے شہری کی طرح اس مسئلے پر بات کر لی جائے’۔
یہ پڑھیں: مولانا عبدالعزیز کو لال مسجد میں اجتماع کرنے سے روک دیا گیا
حکام نے ڈان کو بتایا کہ 'لال مسجد میں کانفرنس کی اجازت اس لیے نہیں دی جاسکتی کیونکہ مولانا عبدالعزیز پر پابندی عائد کی جاچکی ہے جبکہ لال مسجد حکومت کی ملکیت ہے جہاں پر کسی بھی قسم کی سرگرمی کے انعقاد کا اختیار صرف حکومت ہی کو حاصل ہے'۔
یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان کی دہشت گردی اور معصوم جانوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے مولانا عبدالعزیز نے اپنے ایک متنازع بیان میں کہا تھا کہ وہ نہ تو اس واقعے کی مذمت کریں گے اور نہ انہیں 'شہید' کہیں گے۔
مولانا کے اس بیان کے بعد سول سوسائٹی کے اراکین نے ان کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا اور دو دن تک مظاہرین لال مسجد کے باہر جمع رہے جس کے دوران مولانا عبدالعزیز کی جانب سے انہیں مبینہ طور پر دھمکیاں بھی دی گئیں۔
اس حوالے سے مزید پڑھیں: لال مسجد آپریشن کی مکمل تحقیقات کیوں ضروری؟
خیال رہے کہ اس سے قبل 24 مارچ 2017 کو وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ نے اپنی رِٹ قائم کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز کو لال مسجد میں اجتماع منعقد کرنے سے روک دیا تھا۔
مولانا عبدالعزیز نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی اشاعت کے خلاف لال مسجد میں اس روز ایک کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔
یہ خبر 12 مئی 2018 کو ڈان اخبارمیں شائع ہوئی