عمر خالد خراسانی پر پابندی کا معاملہ امریکی مداخلت پر رک گیا
اسلام آباد: پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں کالعدم تنظیم جماعت الاحرار کے رہنما عمر خالد خراسانی پر پابندی کی درخواست پر عمل درآمد کا معاملہ امریکی اعتراض کے بعد رک گیا۔
دفتر خارجہ کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ‘سیکیورٹی کونسل کی جانب سے پاکستانی حکام کو باقاعدہ آگاہ نہیں کیا گیا، تاہم دفتر خارجہ کو معلوم ہواہے کہ جماعت الاحرار (جے یو اے) کے رہنما عبدالولی المعروف عمر خالد خراسانی پر پابندی کا معاملہ امریکی مداخلت کے بعد تعطل کا شکار ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: جماعت الحرار نے پشاور حملے کی مذمت کردی
اس حوالے سے بتایا گیا کہ امریکا نے اعتراض اٹھایا تھا کہ پاکستان نے پابندی کی درخواست میں جماعت الاحرار کے رہنما کی موجودگی افغانستان میں ظاہر کی ہے۔
واضح ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں تنزلی اس وقت شروع ہوئی جب گزشتہ برس اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں نئی جنوبی ایشیائی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔
اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ ‘امریکا دوہرا معیار رکھتا ہے، پاکستان کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد کے خلاف پابندی لگانے کا معاملہ امریکا کو منظور نہیں ہے، امریکا نے اعتراض اس لیے اٹھایا کہ دہشت گرد تنظیم کا رہنما افغانستان میں موجود ہے’۔
دفتر خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ ‘امریکا نے دہشت گرد تنظیم کے خلاف پاکستانی درخواست کی توثیق کرنے کے بجائے اعتراضات اٹھائے ہیں، امریکا کو دہشت گردی جڑ سے ختم کرنے کے لیے سمجھ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، واشنگٹن کی جانب سے ایسے اقدامات اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے وقار پر شک وشبہات پیدا کرتا ہے’۔
مزید پڑھیں: ’دہشت گردی کے خاتمے کیلئے فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جماعت الاحرار پر پابندی کی درخواست 6 جولائی 2017 کو اس وقت دی گئی تھی جب عمر خالد خراسانی تنظیم کا سربراہ تھا اور افغانستان کے صوبے ننگرہار میں لعل پورہ نامی بیس کیمپ میں موجود تھا۔
خیال رہے کہ جماعت الاحرار ٹی ٹی پی سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروہوں میں سے ایک ہے جو پاک افغان سرحدی علاقوں میں سرگرم ایک شدت پسند تنظیم ہے، جس کی تشکیل اگست 2014 میں ٹی ٹی پی کے ایک سابق امیر کے ہاتھوں ہوئی۔
جماعت الاحرار نے پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں عام شہریوں، مذہبی اقلیتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوجیوں کو نشانہ بنایا۔
جماعت الاحرارنے مارچ 2016 میں پشاور میں امریکی قونصل خانے کے 2 پاکستانی ملازموں کو ہلاک کرنے کی ذمہ دار ہے، بعدِ ازاں اسی گروپ نے 27 مارچ 2016 کو ایسٹر کے موقع پر لاہور کے گلشنِ اقبال پارک میں خودکش دھماکا بھی کیا۔
مذکورہ دھماکے میں 70 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔
یہ پڑھیں: کابل حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی، افغانستان کا دعویٰ
16 دسمبر 2104 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد گلشنِ اقبال پارک میں ہونے والا مذکورہ دھماکا پاکستان کی تاریخ کے بدترین حملوں میں سے ایک تھا۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ جماعت الاحرار نے اپنی تنظیم سازی کے بعد سے اب تک 150 حملے کیے۔
یہ خبر 10 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی