سیوریج کا پانی سمندر میں پھینکنے پر ڈی ایچ اے حکام کی سرزنش
کراچی: سپریم کورٹ کے بنائے گئے پانی اور نکاسی آب کے عدالتی کمیشن نے بغیر ٹریٹمنٹ کے سیوریج کا پانی سمندر میں چھوڑے جانے پر ڈیفس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے حکام پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں ڈی ایچ اے کے اصل پلان اور موجودہ پلان سمیت سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تفصیلات طلب کرلیں۔
کمیشن کی سربراہی کرنے والے سپریم کورٹ کے سابق جج امیر مسلم ہانی کا کہنا تھا کہ ساحل سمندر کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے بذات خود 4 مقامات پر سیوریج کا گندا پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر میں گرتے ہوئے دیکھا، جس سے سمندر کی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔
اس موقع پر ڈی ایچ اے کے مشیر اور ایڈیشنل ڈائریکٹر آف انجینیئرنگ پروجیکٹ، کمیشن کے سامنے پیش ہوئے جن سے ٹاؤن پلاننگ اور ٹریٹمنٹ پلانٹ کے بارے میں دریافت کیا گیا، جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں 4 پلانٹ کا منصوبہ زیر غور جبکہ ایک پلانٹ کام کررہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایک گھنٹے میں پانی کا نظام ٹھیک کریں، سربراہ واٹر کمیشن
تاہم جب جسٹس امیر مسلم ہانی نے ان سے کام کرنے والے پلانٹ کی تفصیلات پوچھی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ پلانٹ پہلے کام کررہا تھا لیکن کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) کے حوالے کیے جانے کے بعد سے ناکارہ پڑا ہے، جس پر جسٹس امیر مسلم ہانی نے ان سے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت گندا پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر میں چھوڑا جارہا ہے؟
کمیشن کی کارروائی کے دوران ڈی ایچ اے حکام نے زور دیا کہ سمندر میں چھوڑا جانے والا پانی سیوریج کا نہیں بلکہ ندی کا ہے، جس پر جج نے پاکستان کونسل فار ریسرچ آن واٹر ریسورسز کے ایک عہدیدار کو ان چاروں مقامات سے پانی کے نمونے اکھٹے کر کے ان کا تجزیہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری دفاع کو سمندر میں آلودگی پر سمن جاری کیا جاسکتا ہے۔
کمیشن نے ڈی ایچ اے حکام کو 15 مئی تک آبادی کا اصل پلان اور واٹر ٹریٹمنٹ کے منصوبوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ ڈی ایچ اے اور سی بی سی کے پاس ایک ہفتہ ہے جس دوران وہ مسئلے کے حل کے لیے کوشش کرسکتے ہیں تاہم اگر ایسا نہ ہوا تو 15 مئی کو اس ضمن میں مزید احکامات دیئے جائیں گے۔
مزید پڑھیں: کراچی: یومیہ 20 کروڑ گیلن غیر معیاری پانی کی سپلائی
اس سلسلے میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو بھی ایک ہفتے میں احکامات پر عمل درآمد کرنے کا کہا گیا۔
جسٹس امیر مسلم ہانی نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کو ایک ہفتہ میں تمام احکامات کے نفاذ کا حکم دیا، اور اس ضمن میں قائم ٹاسک فورس کے رکن آصف علی حیدر شاہ کو ہدایت کہ وہ پچھلی سماعتوں کے دوران دیئے گئے تمام احکامات کا ریکارڈ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے چیف کو فراہم کریں، اگر پھر بھی ان پر عمل نہ کیا گیا تو آئندہ سماعت میں وہ ذمہ داروں کا تعین کرکے رپورٹ جمع کرائیں۔
سپریم کورٹ میں کراچی کے پانی اور نکاسیِ آب کے مسئلے پر مقدمہ دائر کرنے والے وکیل ایڈووکیٹ شہاب اوستو نے کمیشن کو بتایا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی جانب سے مسلسل احکامات کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آلودہ پانی سے سندھ کے لوگ کینسر اور ہیپاٹائیٹس کا شکار ہو رہے ہیں، چیف جسٹس
اس ضمن میں کمیشن نے احکامات کی تعمیل نہ ہونے کے سبب کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کو 14 مئی کو وضاحت پیش کرنے کی ہدایت کرنے کو کہا بصورت دیگر قانونی کارروائی کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی۔
ندی، نالوں کی صفائی
کمیشن کی سماعت کے دوران کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کو بھی تمام ضروری کارروائی کے بعد فوری طور پر ندی نالے صاف کرنے کی ہدایت دی گئی، اس سلسلے میں کے ایم سی حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے ندی نالوں کی موثر صفائی کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔
کمیشن نے کے ایم سی کو مزید ہدایات دیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر ایمپریس مارکیٹ اور اس کے اطراف میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر قائم پتھارے ہٹانے کا حکم دیا اور کہا کہ اگر یہ پتھارے دوبارہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر پائے گئے تو ڈپٹی کمشنر جنوبی اور ایس ایس پی پولیس ذمہ دار ہوں گے۔
کے فور منصوبہ
کے فور منصوبے میں مبینہ طور پر سامنے آنے والی خامی کے خلاف دائر درخواست پر کمیشن کی جانب سے اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو 14 مئی تک کے نوٹسز جاری کردیئے گئے۔
مزید پڑھیں: کراچی میں پانی تو ہے لیکن فراہمی کا نظام نہیں، سپریم کورٹ
گڈاپ ٹاؤن کے عثمان اللہ رکھیو گوٹھ کے رہائشی کے نمائندے بیرسٹر صلاح الدین احمد کی جانب سے بتایا گیا کہ 2016 میں شروع کیا جانے والے کے فور منصوبہ کراچی کو پانی فراہم کرنے والا ممکنہ طور پر سب سے مختصر راستے اور کم اخراجات سے بننے والا منصوبہ تھا۔
تاہم اس میں بعد میں اپنے مضموم مقاصد کے حصول، بد دیانتی کے ارادوں اور بحریہ ٹاؤن کو فائدہ پہنچانے کے لیے تبدیلیاں کردی گئیں، انہوں نے کمیشن سے درخواست کی کہ مذکورہ منصوبے کی خامی کو دور کرنے کے احکامات دیئے جائیں۔
محکمہ پولیس
کمیشن کی قائم کردہ ٹاسک فورس کے سربراہ جمال مصطفیٰ سید، جو سیکریٹری آب پاشی بھی ہیں، نے کمیشن کو بتایا کہ گاؤں میں پانی کے مسئلے کے حوالے سے کی جانے والی شکایت درست تھی اس ضمن میں منصوبے میں 7 بڑی بے قاعدگیاں دیکھی گئیں.
اس پر کمیشن نے محکمہ آب پاشی کو حکم دیا کہ وہ مقدمے کا اندراج کروائیں جبکہ پولیس کو بھی ان جرائم کی سرکوبی کی ہدایت کی گئی۔
جس کے جواب میں ٹاسک فورس کے سربراہ نے پولیس کی جانب سے تعاون نہ کیے جانے کی شکایت کرتے ہوئے بتایاکہ ’مورو‘ میں پانی چوروں کے خلاف کے گئے آپریشن میں ایک اہلکار کے زخمی ہوجانے پر پولیس کی جانب سے کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی نہ ہی اس میں ملوث افراد کو گرفتار کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: تمام پارکس، کھیل کے میدانوں سے تجاوزات اور سیاسی دفاتر مسمار کرنے کا حکم
اس سلسلے میں کمیشن نے صوبائی پولیس آفیسر کو متعلقہ ایس ایس پی کو ہدایت جاری کرنے کا حکم دیا، جسے مذکورہ واقع کی شکایت کی گئی تھی، اور اس ضمن میں محکمہ آب پاشی کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کے لیا کہا گیا۔
کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ اگر ان ہدایات پر عمل نہ کیا گیا تو متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جائے گا۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 9 مئی 2018 کو شائع ہوئی