’یہ صرف فوج کے کرنے کے کام نہیں‘
بنوں اور پشاور میں تمام تر دروازے کھٹکھٹانے کے باوجود جب کامیابی نہیں ملی تو وزیرستان کے تاجر اسلام آباد میں جمع ہوئے تاکہ آپریشن ضربِ عضب کے دوران پہنچنے والے نقصانات کا معاوضہ حاصل کیا جاسکے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر سے ملاقات کے بعد اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب پر ان کا دھرنا پُرامن طریقے سے ختم ہوگیا۔ اس کے بعد میران شاہ میں ڈی جی آئی ایس پی آر اور جی او سی 7 انفینٹری ڈویژن کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی۔ تاجر مطمئن نظر آئے۔
پشتو محاورہ ہے کہ ’جب خدا زمین اور آسمان بنا چکا تو جو پتھر اور ملبہ باقی بچ گیا، اسے وزیرستان میں ڈال دیا گیا۔‘
وزیرستان کا ماحول نہایت سخت اور معاندانہ ہے۔ وہاں زندگی ہر اعتبار سے مشکل ہے اور ترقی دشمن فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) نے اس کی معیشت کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ فاٹا کی 70 فیصد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے، سماجی اشاریے اس علاقے کے ساتھ برتی جانے والی مجرمانہ غفلت کے عکاس ہیں۔
مزید پڑھیے: شمالی وزیرستان کا میدانِ جنگ
شمالی وزیرستان کا انتظامی مرکز میران شاہ کبھی زندگی سے بھرپور معاشی سرگرمیوں کا شہر تھا جو ایک بڑا شہر بننے کے قریب تھا، لیکن عسکریت پسندی نے ہر چیز برباد کردی اور میران شاہ نے اسے سب سے زیادہ جھیلا۔ جون 2014ء میں جب عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع ہوئے تو 10 لاکھ کے قریب افراد نے اپنے گھر چھوڑے اور ملک کی خاطر آئی ڈی پی بن گئے۔
جلاوطنی کے 2 ناقابلِ بیان حد تک مشکل سال گزارنے کے بعد جب وہ اپنے گھر پہنچے تو وہاں کچھ بھی باقی نہیں تھا۔ ملبہ تک صاف کردیا گیا تھا۔ لوگ اپنی دکانیں صحیح سلامت چھوڑ کر گئے تھے مگر سامان کا ریکارڈ رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی۔ اس وقت نقصانات کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ ان کی دکانوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی کمائی بھی گنوا دی اور اب وہ شدید قرضے تلے دبے ہوئے ہیں۔ دوبارہ زندگی کا آغاز ناممکن ہے۔ تاجر صرف تب مطمئن ہوں گے جب ان سے معاوضے کا وعدہ کرنے والی رحم دل حکومت ان کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرے۔
کئی ترقیاتی پارٹنرز نے آئی ڈی پیز کی مدد کرنے کا عزم کیا مگر مقامی انتظامیہ تعاون نہیں کر رہی اور فنڈز استعمال نہیں ہوئے۔ سالانہ ڈیولپمنٹ پروگرام کے اخراجات مایوس کن ہیں۔ ورلڈ بینک کے زیرِ انتظام ملٹی ڈونر ٹرسٹ فنڈ کے تحت روزگار کے پراجیکٹس اب تک شروع نہیں ہوئے کیوں کہ دوسرے مالی سال میں بھی فنڈز استعمال کے منتظر ہیں۔ اگر سالانہ ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے مختص 26.5 ارب روپے بھی استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں تو وفاقی حکومت سے اضافی 100 ارب روپے کیسے مانگیں گے؟
اس دوران تباہ شدہ جائیدادوں کے سروے جلد بازی میں کیے گئے اور فاٹا ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی ایم اے) کے غیر مؤثر رویے کے خلاف شکایتیں درج کروائی گئیں۔
تاجر اس رویے سے عاجز آتے جارہے تھے۔ وہ پولیٹیکل ایجنٹ سے ملے، کمشنر بنوں سے ملے، میڈیا سے اپنی مشکلات کا تذکرہ کیا، مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ پھر وہ پشاور پریس کلب پر دھرنا دینے گئے، مگر فاٹا سیکریٹریٹ، ایف ڈی ایم اے یا خیبر پختونخوا کے گورنر سیکریٹریٹ سے بھی کسی نے ان سے آکر نہ ملاقات کی اور نہ امید دلائی۔ چوں کہ تباہی کچھ حد تک فوجی آپریشن کی وجہ سے ہوئی ہے، اس لیے لگتا ہے کہ وہ تمام ذمہ داری فوجی آپریشن پر ڈال رہے ہیں۔ فوج نے اپنا کام کردیا ہے۔ آپریشن کے طریقہ کار پر کئی اختلاف ہوسکتے ہیں مگر عوام کی بحالی سول حکومت کا کام ہے۔
فاٹا کو اب مزید عرصے تک نو گو ایریا نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے تمام لوگوں کے دورے اور زمینی حقائق خود دیکھنے کے لیے کھلا ہونا چاہیے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی مولانا فضل الرحمان کے حالیہ جلسے کی طرح آگے آنا چاہیے۔ کے پی گورنر کی جانب سے اشیائے خورونوش کو پرمٹس کی پابندی سے آزاد کرنے کی سب نے تعریف کی ہے مگر صرف اشیائے خورونوش ہی کیوں؟ یہ فنڈز اکھٹے کرنا غیر قانونی ہے اور تمام اشیاء کو ٹیکسوں اور پرمٹس سے مستثنیٰ قرار دینا چاہیے۔
مزید پڑھیے: فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟
گورنر کو چاہیے کہ متاثرین سے ہمدردی سے پیش آئیں اور مقامی انتظامیہ کو سخت ڈیڈ لائنز دیں۔ چیف سیکریٹری کو اپنی سب سے اچھی ٹیم فاٹا بھیجنی چاہیے کیوں کہ فوری آپریشنل فیصلوں کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اہداف دیں اور ان کی کڑی نگرانی کریں۔ فاٹا سیکریٹریٹ کو دستیاب فنڈز کے ذریعے پراجیکٹس کی فوری تکمیل کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ گورنر مزید فنڈز طلب کرسکیں۔ ایف ڈی ایم اے کے پاس گراؤنڈ پر ٹیمیں موجود ہونی چاہیئں جو لوگوں سے ملاقات کریں اور ان کے نقصانات کا اندازہ لگائیں۔ مگر ہم نے دیکھا کہ فاٹا انتظامیہ میران شاہ میں صرف تب نظر آئی جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے وہاں کا دورہ کیا۔
دلوں اور ذہنوں کو جیتنا ایک مشکل کام ہے، خاص طور پر تب جب عوام اتنی مشکلات سے گزرے ہوں۔ یہ صرف فوج کے کرنے کا کام نہیں بلکہ پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، پولیٹیکل ایجنٹ سے گورنر تک اور مخیر حضرات سے بین الاقوامی ترقیاتی اداروں اور پاکستان کے خیرخواہ ممالک تک۔
آخر عوام کیوں ہر دفعہ اپنے حقوق مانگنے کے لیے اسلام آباد تک جانے کے لیے مجبور ہوں؟ دشمن اتنا قریب ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو اس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔
چیزیں درست سمت میں جا رہی ہیں، اب ہماری رفتار بھی درست ہونی چاہیے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 2 مئی 2018 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں