پانی کی ہنگامی صورت حال، سندھ اور اداروں میں تلخ جملوں کا تبادلہ
اسلام آباد: دریائے سندھ سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے سندھ پارلیمنٹیرینز کے صوبے میں خریف کی فصلوں کے لیے دو نہروں کو فوری طور پر بند کرنے اور منگلہ ڈیم کو بھرنے سے روکنے کے مطالبے کو پورا کرنے سے معذرت کرلی۔
ملک میں پانی کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے ارسا نے سینیٹ کی پانی کے بحران سے متعلق بنائی گئی خصوصی کمیٹی کو بتایا کہ معاملے کو پنجاب لے جانا ہوگا جہاں پانی کا بحران سندھ سے بھی زیادہ ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو کی صدارت میں کمیٹی نے سینیٹر سسی پلیجو کو ایمرجنسی جیسی متوقع صورت حال کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔
مزید پڑھیں: سندھ میں پانی وبجلی کے بحران کاذمہ دار وفاق ہے:مرادعلی شاہ
واضح رہے کہ سسی پلیجو اس وقت دار الخلافہ میں ہیں جس کی وجہ سے وہ اس اجلاس میں شرکت نہیں کرسکی تھیں۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ سید مظفر حسین شاہ اور مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ صوبے میں پانی کا بحران ہے اور اس کے فوری حل نہ ہونے کی صورت میں گنے، کاٹن اور مرچوں کی فصل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے انڈس زون کے پانی، جو جہلم-چناب زون میں چشمہ-جہلم اور تونسہ-پنج ناد نہروں کے ذریعے منتقل کرنے، اس ہی دوران منگلہ ڈیم کے بھرنے پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔
مظفر حسین شاہ اور مولا بخش چانڈیو نے 2 سے 3 ہفتوں تک دونوں نہروں کی بندش اور منگلہ ڈیم کو بھرنے سے روکنے کا مطالبہ کیا اور بتایا کہ اس سے سندھ کے کسانوں کو اپنی فصل مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ارسا کا پانی کے شدید بحران کا انتباہ
ان کا کہنا تھا کہ دونوں نہریں سیلاب کی نہریں ہیں اور انہیں صرف اضافی پانی ہونے کی صورت میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پانی کے معاہدوں پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے کالا باغ ڈیم پر سیاسی محاذ آرائی کا آغاز ہوا تھا کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں جس کی وجہ سے سندھ اور دیگر صوبے ڈیم کی مخالفت کریں۔
مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ جب تک معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کی جاتی، کسی صوبے کو پانی کے منصوبوں یا توانائی کے شعبے میں کیے جانے والے معاہدوں پر اعتراض نہیں۔
سید مظفر حسین شاہ نے کالا باغ ڈیم کے متنازع ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کے نقشے میں دو نہروں کو اس کا حصہ بنایا گیا تھا جبکہ دیامر بھاشا ڈیم پر اتفاق رائے اس لیے ہوا تھا کیونکہ اس میں کوئی نہریں نہیں بنائی گئی تھیں۔
وفاقی سیلاب کمیشن کے چیئرمین احمد کمال، جنہیں یہ چارج ایک روز قبل ہی دیا گیا تھا، کا کہنا تھا کہ انڈس نظام میں پانی کا اخراج فی الوقت 64 ہزار کیوسک ہے جس میں تربیلا ڈیم سے 40 ہزار کیوسک اور چشمہ بیراج سے 24 ہزار کیوسک شامل ہے۔
مزید پڑھیں: 'وسائل لوگوں پر خرچ ہوں تو سندھ کے تمام مسائل حل ہوجائیں'
انہوں نے بتایا کہ ان 64 ہزار کیوسک میں سے 45 ہزار کیوسک سندھ کو دیا جاتا ہے اور پنجاب کو صرف 15 کیوسک ملتا ہے جبکہ باقی کا بہاؤ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی جانب جاتا ہے۔
احمد کمال کا کہنا تھا کہ سینیٹرز کو سندھ کی فصل کے حوالے سے معاملہ پنجاب حکومت کے سامنے اٹھانا چاہیے کیونکہ ارسا تمام صوبوں کو ان کی ضروریات کے مطابق پانی دینے کا پابند ہے اور بڑے صوبے کے حصے کو کم نہیں کیا جاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ارسا کو جون کے آخر تک 70 سے 75 فیصد تک منگلہ ڈیم کو بھرنے کی ضرورت ہے تاکہ خریف کے بعد پانی کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے جس کے لیے اب تک پنجاب میں 38 فیصد اور سندھ میں 37 فیصد پانی کی فراہمی کی کمی کی گئی۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 4 مئی 2018 کو شائع ہوئی