فیصل آباد: ساتھیوں پر دہشتگردی کا مقدمہ درج ہونے پر وکلاء کا احتجاج
فیصل آباد میں ساتھیوں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے پر وکلاء نے احتجاج کرتے ہوئے سی پی او آفس پر دھاوا بول دیا۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق احتجاج کے دوران وکلاء نے ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کیا، جس کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوگئے۔
احتجاج کے دوران کچہری چوک پر وکلاء نے راہگیروں اور شہریوں سے بھی تلخ کلامی کی اور تجارتی مراکز بند کرا دیئے۔
وکلاء کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ ان کے ساتھیوں پر درج کی گئی ایف آئی آر ختم کی جائے اور اس میں دہشت گردی کی دفعات بھی ختم کی جائیں۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس کی تقریر کے 'الفاظ' پر خواتین وکلا کا احتجاج
وکلاء نے ایس ایچ او کی معطلی کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر ان کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تو وہ کسی پولیس اہلکار کو عدالت میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔
اس حوالے سے ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ضلعی عدالتوں کی حدود میں ڈجکوٹ تھانے کے انچارج اور ان کے عملے سے مبینہ طور پر بدتمیزی کرنے پر 30 سے زائد وکلاء کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سول لائن پولیس کے سامنے اپنی درخواست میں ڈجکوٹ تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ملک وارث کا کہنا تھا کہ وہ وکیل ملک ارشد کے بھائی ملزم ملک شاہد کو 25 اپریل کو عدالت میں لے کر گئے تھے، جہاں طارق مان، میاں لیاقت، زاہد، ملک ارشد، ملک فرحان، فہد، بلال، وسیم، ملک افتخار، افتخار احمد اور ان کے 25 نامعلون ساتھیوں نے پولیس پر حملہ کردیا۔
خیال رہے کہ ملک شاہد پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 406 کے تحت مقدمہ درج تھا۔
ایس ایچ او نے بتایا کہ وکلاء نے نہ صرف انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی بلکہ ان کے اور دیگر اہلکاروں کی وردیاں تک پھاڑ دیں اور نقد رقم، آئی ڈی کارڈ، سروسز کارڈ اور ان کی گھڑی تک چھین لی۔
انہوں نے کہا کہ وکلاء نے احاطہ عدالت میں دہشتگرانہ طرز عمل اپنایا جبکہ دیگر کچھ افراد نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو وہاں سے باہر نکالا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ میں وکلاء کی ہنگامہ آرائی، پولیس کی شیلنگ
واضح رہے کہ ایس ایچ او کی جانب سے ملزمان کے خلاف جمع کرائے گئے مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 جبکہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 114،148،149،186،353 اور 382 شامل کی گئیں۔
تاہم اس طرح کے معاملات میں پولیس حکام اور وکلاء میں مصالحت سے بات نمٹائی جاتی ہے کیونکہ اعلیٰ سطح پر دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔
دوسری جانب ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری سہیل ظفر کی جانب سے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے پولیس پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے وکلاء کے گھروں پر چھاپے مارے اور اہل خانہ سے بدتمیزی کی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ وکلاء اور ایس ایچ او کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا لیکن کسی نے ان پر تشدد نہیں کیا۔