• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا فیصلہ ملتوی

شائع April 30, 2018

واشنگٹن: پاکستان اور امریکا کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی کے خاتمے کی کوششوں کے پیش نظر امریکا نے پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا اپنا فیصلہ ملتوی کردیا۔

گزشتہ ہفتے دفترخارجہ کے ایک اہلکار نے تصدیق کی تھی کہ امریکا نے پاکستانی سفارتکاروں پر نئی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے، پاکستانی ذرائع ابلاغ کی حالیہ رپورٹس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت نے پاکستانی حکام کو اپنے ارادوں سے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔

واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفارتخانے کو موصول ہونے والے حکم نامے کے مطابق امریکی دارالحکومت میں موجود پاکستانی سفارتکار اور دیگر شہروں میں موجود قونصل خانوں کے اہلکار بغیر پیشگی اجازت کے 40 کلومیٹر کے دائرے سے باہر سفر نہیں کرسکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: یکم مئی سے امریکا میں پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا اعلان

رپورٹس کے مطابق معاملات میں بہتری نہ آنے کی صورت میں مذکورہ حکم نامے پر یکم مئی سے عملدرآمد ہونا تھا، تاہم ڈان سے بات کرتے ہوئے حکام کا کہنا تھا کہ دونوں جانب سے تعلقات میں بہتری کے لیے کی جانے والی کوششوں کے سبب اس فیصلے کو مئی کے وسط تک ملتوی کردیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے غیر ملکی شہریوں اور سفارتکاروں پر فاٹا، کراچی اور بلوچستان کے کچھ علاقوں کا سفر اختیار کرنے پر دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر پابندی عائد کی گئی تھی۔

اس ضمن میں پاکستان میں موجود امریکی مشن تک رسائی حاصل کرنے والے افراد کو بھی کڑی حفاظتی نگرانی اور شناخت کے عمل سے گزرنا پڑ رہا تھا، پاکستان کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد صرف غیر ملکی مشن اور ان کے ملازمین کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا اور پاکستان کا اپنے سفیروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا امکان

دوسری جانب امریکا کی جانب سے پاکستان میں موجود سفارتکاروں اور امریکی مشن کے گھر اور دفاتر میں بلائے گئے مہمانوں پر بھی اسی قسم کی حفاظتی پابندیوں کا اطلاق کرنے کے سبب تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل مہمانوں کو صرف ہتھیار نہ لے جانے کی تصدیق کے لیے میٹل ڈیٹیکٹر سے گزرنا پڑتا تھا جبکہ موجودہ صورتحال کے برعکس نہ تو ان سے کوئی شناختی دستاویز طلب کی جاتی تھیں نہ ہی آمد کا مقصد پوچھا جاتا تھا۔

اس ضمن میں امریکا کی جانب سے شکایات بھی سامنے آئیں کہ سفارت خانے میں آنے والے مہمانوں کے ساتھ کبھی کبھار سفارت خانے میں کام کرنے والے پاکستانی عملے کو بھی اسی قسم کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’امریکا اور پاکستان کے درمیان شراکت داری قائم رہے گی‘

ڈان کے ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق امریکا میں موجود پاکستانی سفارتخانے نے، امریکی خدشات سے اسلام آباد میں موجود حکام کا آگاہ کیا تھا جس میں انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دو طرفہ تعلقات میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

ڈان کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے حکام کو مذکورہ معاملے کے دور رس نتائج کے پیش نظر، اس کے حل کے لیے امریکی سفارتی اہلکاروں کے ساتھ مذاکرات کی بھی سفارش کی گئی تھی۔

ادھر پاکستانی سفارت خانے نے خبردار کیا تھا کہ امریکا کی جانب سے سفارتکاروں کی نقل و حرکت محدود کیے جانے کے فیصلے سے دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف کیے جانے والے منفی پروپیگنڈے میں اضافہ ہوگا اور امریکا میں رہنے والی پاکستانی کمیونٹی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے ساتھ تعلقات میں خرابی نہیں چاہتے، امریکا

اسی ضمن میں سفارت خانے کی جانب سے ان خدشات کا بھی اظہار کیا گیا تھا کہ اس قسم کی پابندیاں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کریں گی جنہیں واشنگٹن میں دشمن ملک سے تشبیہہ دی جاتی ہے، مثلاً ایران اور کیوبا وغیرہ۔

ایک پاکستانی سفارت کار نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات اس نہج پر نہیں پہنچیں گے جو پابندیوں کے سبب متوقع ہیں۔

ایک امریکی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والے حالیہ تناؤ کے باوجود دونوں ممالک دفاعی معاملات سمیت دیگر اہم معاملات پر ایک دوسرے سے تعاون جاری رکھیں گے، دونوں ممالک کے تعلقات پابندیوں کے اطلاق سے پیدا ہونے والی صورتحال سے کئی درجے بہتر ہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 30 اپریل 2018 کو شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024