تحقیقات کے دوران افسران کو ہراساں کرنے پر سپریم کورٹ کا نیب کو انتباہ
لاہور: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو انکوائریز کے درمیان سرکاری افسران کو ہراساں کرنے پر تنبیہ کرتے ہوئے نیب پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل سلیم شہزاد سے کہا ہے کہ ہم کسی بھی افسر کی ذلت برداشت نہیں کریں گے اور اگر اب کوئی بھی ایسی شکایت آئی تو آپ یہاں نہیں کھڑے ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے سامنے نیب کے ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ استغاثہ جنرل سید اصغر حیدر صوبے میں عوامی کمپنیوں سمیت مختلف کیسز کی ابتدائی تحقیقات لے کر پیش ہوئے تھے۔
ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) عدالت کو عوامی کمپنیوں کی تحقیقات کے حوالے سے ادارے کی پیش رفت پر پُرجوش انداز میں بتارہے تھے کہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے انہیں یاد دلایا کہ ان کے اختیارات قانون کے اندر ہیں اور وہ قانون کے مطابق کارروائی کرنے کے پابند ہیں۔
مزید پڑھیں: نیب میں 'قابل افسران' ضروری ہیں:سپریم کورٹ
انہوں نے کہا کہ ’آپ کو صرف الزامات کی حد تک تحقیقات کرنی چاہیے‘۔
ڈی جی نے یقین دہانی کرائی کہ تمام کارروائیاں قانون کے مطابق ہورہی ہیں اور نیب کے دفتر آنے والے افسران کو ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں رکھا جاتا ہے اور انہیں چائے، کافی، منرل واٹر بھی پیش کی جاتی ہے۔
اس بات پر پنجاب کے چیف سیکریٹری زاہد سعید کا کہنا تھا کہ وہ نیب کی جانب سے ان کے دفتر جانے والے افسران کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھا جاتا ہے یہ راز افشاں نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس حوالے سے کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسرز خود عدالت میں بتائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کو پورا دن استقبالیہ پر انتظار کرایا جاتا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈائریکٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر انکوائری کے دوران تحقیق کاروں کی جانب سے کسی بھی سرکاری افسر کو ہراساں یا اس کی تذلیل کی گئی تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے‘۔
یہ بھی پڑھیں: نیب ہوا ناکام، افسران کو سیکیورٹی کی پریشانی
قبل ازیں ڈائریکٹر جنرل نے عدالت سے شکایت کی تھی کہ کمپنیوں کی جانب سے نیب کو درکار ریکارڈ فراہم نہیں کیا جارہا تاہم چیف سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر نیب کو درکار تمام ریکارڈ انہیں دیا جاچکا ہے۔
چیف جسٹس نے نیب کے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت کی کہ وہ نیب کو درکار تمام ریکارڈ کے حوالے سے عدالت کو بتائیں، بصورت دیگر عدالت چیف سیکریٹری کے ذریعے خود اسے حاصل کرے گی۔
علاوہ ازیں ڈی جی نے عدالت کو بتایا کہ انکوائریز کو 30 جون تک مکمل کرلیا جائے گا۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 29 اپریل 2018 کو شائع ہوئی