ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ: بہت سے سوالات جواب طلب ہیں
اسلام آباد: ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے معاملے پر قائم کیے گئے کمیشن کی ضخیم رپورٹ میں ایک اہم سوال جس کا جواب نہیں دیا گیا، یہ ہے کہ کیا ملک کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ امریکیوں کی کارروائی کے بارے میں پہلے سے آگاہ تھی؟ اس لیے کہ امریکی سیلز اپنا مشن مکمل کرکے باآسانی پرواز کرگئےاور ہماری جانب سے قطعی طور پر کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔
مذکورہ کمیشن کی رپورٹ جو دوحہ میں قائم الجزیرہ ٹیلیویژن پر کل بروز منگل مورخہ 9 جولائی کو جاری کی گئی، اس میں جائز طور پر یہ سوال اُٹھایا گیا ہے، لیکن اس کا اطمینان بخش جواب دینے میں یہ رپورٹ ناکام رہی۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ "ایسے لیڈرز جو حکومتی معاملات میں رہنمائی کا کام کرتے ہیں، اور جو انتہائی قابل اعتماد اطلاعات فراہم کرنے کی پوزیشن میں تھے، وہ کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔جن کے سامنے یہ اور ان جیسے دوسرے جواب طلب سوالات براہ راست رکھے جاسکتے۔"
رپورٹ میں یہ واضح نہیں ہے کہ کمیشن نے صدر، اس وقت کے وزیراعظم یا چیف آف آرمی اسٹاف کے ساتھ میٹنگ کی خواہش کی تھی یا نہیں۔
کمیشن نے اُن لیڈروں کے نام نہیں دیے ہیں کہ جنہوں نے اس کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا تھا۔
تاہم یہ بات واضح ہے کہ کمیشن نے آپریشن کی سنگینی اور اس کے شاخ در شاخ جڑے ہوئے امکانات پر غور کیا کہ جو امریکی حکومت کے لیے خطرات کا سبب بن سکتے تھے۔ اس بات کا بہت ہی کم امکان ہے کہ امریکیوں نے اس مشن کے حوالے سے متعلقہ پاکستانی حکام کے ساتھ اشتراک نہ کیا ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اگر ایک فریق امریکی فیصلے سے متفق نہیں ہوتا تو اس کو اپنے خصوصی کارروائی کے مشن پر یکطرفہ طور پر عملدرآمد کرنا پڑتا۔ لیکن اس دلیل پر یقین کرنا انتہائی مشکل ہے کہ اس نے آپریشن سے قبل، یہاں تک کے اس کے دوران کسی بھی وقت پاکستان کے ساتھ کسی بھی طرز کی کمیونیکیشن نہیں کی ہو، اس تناظر میں کہ پاکستانی فضائیہ کی جانب سے گرفت میں آجانے کے بنیادی خطرات جن میں کمی ممکن نہ ہو، اور امریکی انتظامیہ اپنی نیوی سیلز کی گرفتاری یا زخمی ہونے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔
کمیشن نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ ایبٹ آباد پر ہیلی کاپٹروں کی آمد کے بعد نوّے منٹوں کے درمیانی عرصے میں اور ایک ہیلی کاپٹر کے ٹکرانے سے اس کی تباہی اور دھماکے کے ساتھ، یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ کسی ایک نے بھی یہ معاملہ ملٹری کمانڈ تک نہیں پہنچایا۔ خصوصاً جیسا کہ یہ سب جانتے ہیں کہ پاکستانی ہیلی کاپٹر کبھی کبھار ہی رات کے وقت پرواز کرتے ہیں۔ تو پھر چیف آف ایئر اسٹاف کو رات کے وقت ایبٹ آباد پر پرواز کرنے والے ہیلی کاپٹروں کے بارے میں براہ راست اطلاع کیوں نہیں دی گئی۔“
رپورٹ کے مطابق پاک فضائیہ کے کچھ اہلکاروں میں یہ شبہہ دیکھا گیا ہے کہ بعض وجوہات کی بنا پر پاک فضائیہ نے جان بوجھ کر امریکی مداخلت کاروں کے خلاف کارروارئی نہیں کی، شاید اس لیے کہ امریکہ نے پاکستانی قیادت کو کسی قسم کی اطلاعات فراہم کی ہوں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاک فضائیہ کے اندر امریکی سیلز کی کارروائی کے جواب میں ردعمل ظاہرکرنے میں حد سے زیادہ دیر کردینے پر بہت زیادہ الجھن پائی جاتی ہے۔ پاک فضائیہ کی قیادت نے میڈیا کی جانب سے شدید تنقید کو دیکھتے ہوئے اپنے ان اہلکاروں کے لیے ٹیکنیکل بریفنگ کا بندوبست کیا جو میڈیا کی تنقید سے متاثر ہوگئے تھے۔
کمیشن نے یہ تجزیہ کیا کہ چیف آف ایئر اسٹاف نے بجائے پاک فضائیہ کے ذریعے ایبٹ آباد میں ہونے والی پیشرفت کی معلومات حاصل کرنے کے، انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف سے یہ معلومات واقعہ کے ایک گھنٹے کے بعد حاصل کی۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی حتمی ثبوت نہیں پیش کیا جاسکا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو یہ وارننگ دی ہو کہ اس کارروائی کے دوران یا اس سے پہلے کسی قسم کے خطرات پیدا نہ کیے جائیں۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن نے امریکی حکام میں سے کسی نے پاکستان کو مذکورہ مشن کے بارے میں پیشگی اطلاع فراہم کرنے کی تردید کی۔
ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن نے امریکہ کی چھاپہ مار کارروائی کی جانچ پڑتال کے حوالے سے ٹیکنیکل تفصیلات پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی ٹیکنالوجی جو اس آپریشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں استعمال کی گئی، کہیں زیادہ اعلیٰ درجے کی تھی۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ دو مئی کے واقعہ میں مسلح افواج بشمول پاک فضائیہ کی ناکامی کو قبول کرنے کے بجائے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن اس بات پر زور دیتے رہے کہ یہ ایک ایسے ملک کی طرف سے دھوکہ دہی اور بداعتمادی جیسا اقدام ہے جو پاکستان کے ساتھ ایک مشترکہ دشمن کے خلاف اتحادی ہے۔
کمیشن نے اسے ایک سینیئر آفیسر کی طرف سے جذباتی اور ناکافی ردّعمل کے طور پر لیا۔
رپورٹ میں شروع سے آخر تک کمیشن نے اپنے کردار کے حوالے سے اور جی ایچ کیو کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی بھول اور اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے ہلاک کرنے اور ان کی لاش کو اپنے ہمراہ لے جانے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس کو کس نے سنبھالا، کے بارے میں سوالات اُٹھائے ہیں ۔
مثال کے طور پر پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈر جو اس علاقے فوجی چھاؤنی کمانڈر بھی تھے، نے مقامی سول انتظامیہ کو اس علاقے کا چارج لینے کی اجازت نہیں دی تھی۔
کمیشن کے تجزیہ کے مطابق ”ہوسکتا ہے کہ یہ کمانڈر اپنے فوجی افسرانِ بالا کے احکامات کی پیروی کررہا ہو، لیکن اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، یہاں تک کہ اس کو صورتحال کا چارج سنبھالنے اور انوسٹی گیشن آئی ایس آئی کے حوالے کرنے کے لیے جی ایچ کیو سے ہی ہدایات ملی ہوں۔"
رپورٹ کے مطابق امریکہ کی خصوصی فورسز نے تقریباً 36 سے 38 منٹ میں یہ ہلاکت خیز کارروائی مکمل کرلی تھی۔
مختلف لوگوں کا مؤقف سننے کے بعد تیار کی جانے والی کمیشن کی ٹائم لائن کے مطابق صدر آصف علی زرداری جو مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہیں، اس واقعہ کے بارے میں جاننے والے سب سے آخری فرد تھے۔