ملتان: عقیدت و گُل کی مہک اور درد
فضاؤں کو معطر کرنے والے نرم و ملائم خوشبودار پھول سب کے دلوں کو لبھاتے ہیں۔ کچھ انسانوں کی زندگیاں بھی پھولوں کی مانند خوبصورت گزرتی ہیں، ان کی خوشبو مرنے کے بعد بھی انسانوں کے لیے برکت کا وسیلہ بنی رہتی ہے۔ اس بات کا احساس مجھے ملتان آ کر ہوا۔
14 فروری 2018ء کو چولستان جیپ ریلی کے سلسلے میں دوستوں کے ہمراہ 2 دن کے مختصر دورے کے دوران اس تاریخی شہر کی خوبصورتی، یہاں کے باسیوں کی عقیدت، مہان نوازی، خلوص، اور حب الوطنی کا نظارہ کیا، مگر شہر کے ان تمام پہلوؤں کے ساتھ مزارات پر کام کر رہے مجبور اور بے بس افراد کی صورت میں اس شہر کی ایک افسردہ تصویر بھی دیکھی۔
کھیتوں سے لائے گئے تازہ پھول عقیدت کا ایک خوبصورت نذرانہ ہوتے ہیں، اس لیے مزارات پر عقیدت کی مہک ان پھولوں سے بخوبی محسوس کی جاتی ہے۔
مزاروں کے احاطے میں کھڑے گل فروش جہاں عقیدت مندوں کی عقیدت کو مہکاتے ہیں وہیں اپنے اور اپنے گھروالوں کے پیٹ کی دوزخ بجھانے کا سامان کرتے ہیں۔ انہی گل فروشوں میں سے ایک ایف اے پاس محمد یونس بھی ہیں۔
ملتان شہر میں حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزار پر گل فروشی کا کام کرنے والے 21 سالہ محمد یونس کا تعلق جنوبی پنجاب کے علاقے خان نگر ضلع مظفر گڑھ سے ہے۔ بیروزگاری اور در در ٹھوکریں کھانے کے بعد اب وہ اپنے بھائی عبدالمجید کے ہمراہ 500 روپے دیہاڑی کے عوض 6 ماہ سے مزار پر عقیدت مندوں کو پھول بیچ کر اپنے گھر کا چولہا جلائے رکھنے کی تگ و دو کر رہا ہے۔
اولیاء اکرام کا شہر ملتان، جہاں پورے پاکستان میں عقیدت مندوں کے لیے ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے وہیں تاریخ سے شغف رکھنے والے سیاحوں کے لیے بھی ایک اہم مقام گردانا جاتا ہے، اسی لیے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند اور سیاح اس تاریخی شہر میں عقیدت کا اظہار کرنے اور یہاں کا حُسن سمیٹنے چلے آتے ہیں پھر یہی عقیدت مند اور سیاح سینکڑوں افراد کی معاش کا ذریعہ بنتے ہیں۔
11 ویں اور 12 ویں صدی میں اس شہر میں آئے صوفیاء اکرام حضرت بہاالدین زکریاؒ، حضرت شاہ رکن عالمؒ، شاہ یوسف گردیزئیؒ، شاہ شمس سبزواریؒ، شاہ علی اکبرؒ، خواجہ اویس کاغاؒ، مائی مہربان، بی بی پاک دامن، حافظ جمال سمیت کئی صوفیاء اکرام کی یہاں دین کی ترویج اور ان کے مزاروں کی وجہ سے اس شہر کو مدینۃ الاولیاء بھی کہا جاتا ہے۔ ان اولیاء اکرام کی بدولت اس پورے خطے میں اسلام کا فروغ ممکن ہوا۔
شہر میں واقع مزاروں سے جہاں محکمہء اوقاف اور گدی نشینوں کو سالانہ چندے کی صورت میں کروڑوں روپے حاصل ہو رہے ہیں وہیں سینکڑوں دیہاڑی دار طبقہ بھی مزارات پر اپنا معاش تلاش کرتا ہے۔
ملتان شہر کے عین وسط میں بنائے گئے تاریخی عجائب گھر کی بلند وبالا و خوبصورت عمارت کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے بعد ہم نے علی الصبح شاہ رکن عالمؒ اور بہاؤالدین زکریاؒ کے مزاروں کی کار پارکنگ میں 30 روپے کے عوض اپنی گاڑی پارک کی۔
مین گیٹ کے قریب کبوتروں کی پرواز اور پھر زمین پر اترنے کے مناظر نے پوری طرح ہمیں اپنی طرف متوجہ کیے رکھا۔ یہی منظر آ پ کو حرمین الشرفین مکہ و مدینہ کی گلیوں میں جگہ جگہ دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ ان کبوتروں کے لیے خوراک قریب ہی بیٹھے رحیم آباد ملتان کے رہنے والے 3 بچوں اور ایک معذور بھائی کی کفالت کرنے والے صابر حسین نے 50 ، 100 اور 200 روپے میں میسر کر رکھی ہے۔
صابر حسین کو یہ جگہ انتظامیہ نے بھائی کی معذوری کی وجہ سے دی ہے۔ صابر حسین کے مطابق کبوتروں کو خوراک کی فراہمی کچھ لوگ منت مانگ کر کرتے ہیں اور کچھ لوگ اس کو خیرات و صدقہ سمجھ کر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق دن میں 1000 سے 1500 روپے تک بچت ہوجاتی ہے۔
یہاں سے چند قدم کے فاصلے پر گیٹ کے سامنے سڑک کنارے بیٹھے ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے نشئی بیٹے اور اس کے 7 بچوں کے خاندان کا بوجھ سر پر لیے 85 سالہ محمد شفیع ہر آنے اور جانے والوں کے سامنے پاپڑ بڑھاتے ہوئے ’پاپڑ 10 روپے!‘ کی آوازیں لگے رہے تھے۔ جب ان کی زندگی کا حال جاننے کی کوشش کی تو وہاں بھی ایک درد کی داستان ملی۔
عمر رسیدہ محمد شفیع اپنے نافرمان نشئی بیٹے کی وجہ سے عمر کے اس حصے میں بھی محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے مطابق وہ یومیہ 3 سے 4 سو روپے کما کر 7 افراد پر مشتمل خاندان کا پیٹ پالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزار پر دیا جلانا اور دھاگے باندھنا لوگ اپنی پریشانیوں کو دور کرنے اور منت پوری ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مزار پر حاضری دینے کے بعد 20 سالہ ملتان کے باسی اور بہاو الدین زکریا یونیورسٹی سے ڈراپ آؤٹ ہونے والے طالب علم عمر مشتاق نے گیٹ کے قریب دیا روشن کرتے اور مزار کے انتظامیہ کو 50 روپے ہدیہ دیتے ہوئے یہ اُمید ظاہر کی کہ مجھے یونیورسٹی انتظامیہ دوبارہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کا مو قع فراہم کرے گی۔
حضرت بہاوالدین زکریاؒ کے مزار پر موجود قوال کے مطابق ان کے اباؤ اجداد پاکستان بننے سے پہلے انڈیا سے ملتان شفٹ ہوگئے تھے اور تقریباً 40 سال سے اس مزار پر قوالی پڑھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق روزانہ لوگ 1000 روپے سے لیکر 5000 روپے ان کو نذرانے کے طور پر دیتے ہیں۔
صوفیاء کرام کے ان مزاروں پر جہاں عقیدت مند آتے ہیں وہیں ملکی و غیر ملکی سیاح بھی بڑی تعداد میں اپنے سفر کو یادگار بنانے کے لیے ان مزاروں کا رخ کرتے ہیں۔ ان مزاروں پر موجود برطانیہ، جورڈن اور سوئٹزرلینڈ کے سیاحوں کی موجودگی ملتان شہر کی تاریخی اہمیت کو مزید تقویت بخش رہی تھی۔
ملتان شہر کو ادیبوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے مشہور ادبا اور شاعروں کا تعلق اس شہر سے ہے۔ ادیبوں اور شعرا کی محفلیں ہر شام شہر میں چند سال پہلے قائم کیے گئے ملتان ٹی ہاؤس میں منعقد ہوتی ہیں۔ ملتان ٹی ہاؤس میں ملتان کے تمام ادیبوں اور شعراء کی تصاویر آویزاں اور تصانیف رکھی گئی وہیں، علم و ادب سے چاہ رکھنے والے اور عام لوگ بھی یہاں بیٹھ کر چائے کی پیالیوں کے دور چلا رہے ہوتے ہیں۔
ملتان شہر میں دیگر سیاحتی مقامات بھی موجود ہیں جن میں ملتان جھیل، دہلی گیٹ، یادگار شہدا پارک، یادگار الیگزینڈر، سی ایس ڈی پارک، نگار خانہ، شاہ شمس پارک، خونی بریج اور ہیڈ محمد والا کے خوبصورت و تاریخ مقامات شامل ہیں۔
دیسی گھی سے بنا حافظ سوہن حلوہ اور میٹھے آم یہاں کی مشہور سوغات ہیں جو کہ یہاں سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں سپلائی کیا جاتا ہے۔
2 دن کے اس مختصر دورے میں پھولوں سے خاص وابستگی قائم ہوئی، لوگوں کا درد محسوس کیا، جو شاید تاحیات روح میں رچا بسا رہے، درد اور خوشبو کا احساس دل میں لیے میزبان دوستوں کے خلوص و محبت اور حافظ سوہن حلوے کا پُرخلوص تحفہ لے کر ہم چولستان کے ریت چھاننے نکل پڑے۔
عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریولز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔