آئندہ مالی سال کے بجٹ پر ماہرین کی آراء
وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 19-2018 کا بجٹ 27 اپریل کو پیش کیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے، تاہم اس بجٹ کے پیش کیے جانے سے قبل ماہرین نے اس پر مختلف آراء اور تجزیہ پیش کی ہیں۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حافظ اے پاشا کی جانب سے کہا گیا کہ حالیہ مہینوں میں بجٹ عمل قابو سے باہر دیکھا جارہا ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک مالی خسارہ جی ڈی پی ( شرح نمو) کی 4.1 فیصد کی مقررہ حد کے مقابلے میں 6.5 فیصد تک پہنچ جائے گا۔
مالی خسارے میں ہونے والے اس اضافے سے مجموعی طلب اور درآمدی بل پر دباؤ بڑھے گا اور اس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے لیے مسائل بڑھیں گے۔
ایسی صورتحال میں یہ بات حیران کن ہے کہ حکومت اپنی مدت کے آخری وقت میں بھی چھٹا بجٹ پیش کرنا چاہتی ہے جبکہ مناسب یہ ہے کہ 19-2018 میں بجٹ اسٹریٹجی جی ڈی پی کے مالی خسارے کو 4.5 تک لانے کے لیے ضروری ہوگی۔
اس کے ساتھ ساتھ انتخابات تک غیرمعمولی ٹیکس کے اقدامات اور اخراجات کو کم کرنے کی ضرورت ہوگی اور یہ عمل حکومت کے لیے بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹرڈ پیپرز کے بانی اور مصنف ڈاکٹر مشتاق خان نے رواں ماہ پیش کیے جانے والے بجٹ پر کہا کہ ایسے وقت میں جب مارکیٹ اس بات پر غیر متفق ہے کہ حکومت کس طرح بیرونی خسارہ منظم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، ایسے میں باقاعدہ طور پر منصوبہ بندی کے ساتھ بجٹ پیش کیا جارہا ہے۔
ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف کی جانب سے اس بات کا اشارہ کیا گیا کہ پاکستان کو میکرو اکنامک استحکام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ایسے میں اس بجٹ کا کیا اعتبار ہوگا؟
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ تک نہیں معلوم کہ مالی سال 19-2018 میں ملک کس طرح سے بیرونی ادائیگیاں کرے گا اور کس طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قریب لائے گا تو ہمارے منصوبہ ساز کس طرح ایک اقتصادی منصوبہ پیش کرسکتے ہیں؟
ہمارے خیال میں مالی سال کے لیے بجٹ ایک پولٹیکل اسٹنٹ ہے، جس سے حکومت آئندہ انتخابات میں نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے۔
آئیڈیاز کے سی ای او ڈاکٹر فیصل باری کا بجٹ کے حوالے سے کہنا تھا کہ اس بجٹ کے بڑے ہونے کا امکان ہے کیونکہ انتخابات قریب ہیں اور حکومت ووٹرز کے لیے اخراجات بڑھانا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اخراجات حکومتی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے، پینشن بڑھانے اور مختلف طریقوں سے ریلیف دینے کی شکل میں کیے جائیں گے، اس کے ساتھ حکومت پہلے ہی انفرادی آمدنی ٹیکس کی شرح میں کافی کمی کا اعلان کرچکی ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے نئے بجٹ میں کوئی اضافی ٹیکس شامل کرنے کا بھی امکان نہیں ہے، تاہم ان تمام چیزوں کے نتیجے میں آئندہ سال کے لیے بجٹ مالیاتی خسارہ بڑھے گا اور حکومت کی جانب سے اس بات کی وضاحت یہ کہ کر دی جائے گی کہ انہوں نے اخراجات بڑھانے کی پالیسی کا استعمال کیا تھا تاکہ شرح نمو کی ترقی کے اہداف کو یقینی بنایا جاسکے اور بڑھتی ترقی کو دوبارہ گرنے سے بچاسکیں۔
تاہم انتخابات کے بعد آنے والی اگلی حکومت کو موجودہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ میں کچھ ایڈجسمنٹ لائی جاسکتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی مالی پابندیاں آئندہ حکومت کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ اس حکومت کی اعلان کردہ کچھ پالیسی پر نظر ثانی کی جائے لیکن یہ آسان نہیں ہوگا کہ وہ تمام چیزوں پر نظرثانی کرکے اسے تبدیل کرے۔
سابق ڈپٹی چیئرمین پی اینڈ ڈی ڈاکٹر ندیم الحق کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ حکومت نے بجٹ کے حوالے سے کوئی عزم کا اظہار نہیں کیا کیونکہ وہ اس پر عمل درآمد نہیں چاہتی اور نئی حکومت اسے دیکھے گی۔
اس کے علاوہ جو بھی تبدیلیاں کی گئیں وہ ایمنسٹی اسکیم کے اعلان کے بعد ہوئیں تھی، جو خود میں ایک منی بجٹ ہے۔
یہ سب بجٹ جاری کرنے کے لیے بہت آسان ہے لیکن نئی حکومت آنے کے بعد اسے تبدیل کرسکتی ہے اور ایسے معاملے میں ملک جلد یا بدیر آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہوجائے گا اور نئے بجٹ کے اعلان کے بعد اسے حمایت ملے گی لیکن یہ بجٹ کوئی بڑا معاملہ نہیں اور اس کا کوئی مطلب بھی نہیں۔
یہ تجزیہ 23 اپریل 2018 کو ڈان اخبار کے ہفت روزہ بزنس اور فنانس میں شائع ہوا