انگریزوں سے پہلے پرتگالیوں کے ظلم کی داستان
جس طرح دن اور رات کے پہروں کی اپنی اپنی کیفیات ہوتی ہیں اور وہ انسان پر اثرانداز بھی ہوتی ہیں، بالکل اسی طرح بیتے زمانوں کی بھی اپنی کہانیاں اور کیفیات ہوتی ہیں۔ وقت کی آنکھیں کبھی بند نہیں ہوتیں وہ سدا کھلی رہتی ہیں۔
چاہے سورج اور چاند کی روشنی ہو یا اماوس کی سیاہ رات، وہ آنکھیں سب کچھ دیکھتی ہیں۔ اب یہ دوسری بات ہوئی کہ ہم تک کئی حقیقتیں پہنچ نہیں سکیں یا شاید پہنچنے نہیں دی گئیں، کیونکہ یہ ذمہ وقت پر نہیں بلکہ وقت کے مؤرخ کا ہے کہ وہ جو کچھ دیکھے اسے آنے والے وقت کے لیے قلمبند کردے مگر یہ بھی حقیقت کے قریب کہاوت ہے کہ، عشق، خوشبو اور خون چھپائے نہیں چھُپتے۔
ماضی کے واقعات کو آپ درگزر کے کنویں میں چاہیں بھی تو نہیں پھینک سکتے بلکہ ان کو پھینکنا بھی نہیں چاہیے کہ ہم ان واقعات کا ہی مجموعہ ہیں۔
چلیے اس نشست میں کچھ زیادہ دور نہیں چلتے، بس 460 برس پیچھے جاتے ہیں، ظاہر ہے وہ زمانہ حال سے بالکل بھی ملتا جلتا نہیں مگر ایک حقیقت جو تبدیل نہیں ہوئی وہ پیسے کی دیوانگی تھی جو تب بھی تھی اور آج بھی ہے۔ اب یہ ہوس 5 صدیاں پہلے زیادہ تھی یا آج؟ یہ فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔
15 اکتوبر 1542ء میں پیدا ہونے والے مغل شہنشاہ اکبر ابھی 5 برس کے تھے اور اس وقت پرتگالی سندھ، بلوچستان و ہند کے ساحلوں پر دنداتے پھرتے تھے، وہ اچھے نہیں رہے ہوں گے شاید اسی لیے تاریخ اُن کو اچھے القاب دینے سے قاصر نظر آتی ہے۔
ہماری تاریخ کے صفحات جب یورپی اقوام کے یہاں آنے کا ذکر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پرتگالی وہ پہلے یورپی تھے جو یہاں پہنچے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے کبھی کچھ بنانا یا جوڑنا سیکھا ہی نہیں تھا، ہوسکتا ہے لاشعوری طور پر وہ اس احساس کمتری میں رہے ہوں گے یا تعداد میں کم ہونے کے سبب انہیں اپنی کامیابیوں پر کم ہی بھروسہ رہا ہوگا اسی لیے اُن کے عوامل تخریبات سے بھرے ہوئے تھے۔
وہ بیوپاری تھے اور بیوپار کرنے آئے تھے مگر میں حیران ہوں کہ وہ کیسے بیوپاری تھے جو ٹھگی اور شارٹ کٹ کی بنیادوں پر بیوپار کرتے تھے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کو وعدے کے مطابق ادائیگی میں کچھ دن ہوجائیں تو آپ ہزاروں لوگوں کو ماردیں اور شہر کو لوٹ لیں؟
یہ بڑی دُکھ بھری کہانی ہے کہ، 700 کے قریب لوگ 8 ہزار پرسکون شہریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیں۔ یہ تاریخ کی عدالت میں ایک مقدمہ تھا جس کا فیصلہ وقت نے کیا۔ اس مقدمے پر بعد میں آتے ہیں لیکن پہلے 520 برس پہلے، ہندوستان کے مغربی سمندری کنارے ’کالی کٹ‘ چلتے ہیں جہاں 29 برس کا ایک امیرالبحر ’واسکوڈے گاما‘ افریقہ کے گرد چکر لگاتا ’کیپ آف گوڈ ہوپ‘ والا تجارتی راستہ ڈھونڈ کر ہندوستان پہنچا تھا۔
وہ 20 مئی 1498ء اور جمعے کا دن تھا، گرم موسم ہونے کے باوجود ساحلی کنارے کی وجہ سے موسم معتدل محسوس ہورہا تھا۔ کالی کٹ کے راجہ ’ساموتھری‘ نے آئے ہوئے نئے مسافر اور بیوپاری کی آؤ بھگت کی لیکن درباری یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ اُس نے تحفے میں راجہ کو کوئی چیز نہیں دی اور نہ سونا چاندی دیا۔ راجہ کے اس کے ساتھ مذاکرات ناکام رہے۔
واسکوڈے گاما نے اجازت مانگنی چاہی کہ وہ یہاں تجارت کی غرض سے لائے گئے اپنے سامان کو کہیں رکھ سکتا ہے اور اس کی نگرانی کے لیے اپنا کوئی آدمی مقرر کرسکتا ہے؟
راجہ نے انکار کردیا بلکہ یہ مطالبہ کیا کہ وہ دوسرے تاجروں کی طرح ٹیکس ادا کرے جو عام طور پر سونے کی شکل میں دیا جاتا تھا۔ مگر یہ فرنگی ندارد کی لکیر پر کھڑا رہا اور یہاں سے جانے لگا تو چند ہندوستانی سپاہیوں اور 16 ماہی گیروں کو بھی اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گیا۔
اپنے دوسرے سفر میں اُس نے مسلمان زائرین کے ایک جہاز کو لوٹ لیا جو ‘کالی کٹ‘ سے ’مکہ‘ جا رہا تھا۔ اس جہاز میں 400 حجاج سوار تھے جن میں سے 50 خواتین بھی تھیں، صرف یہی نہیں بلکہ اُس نے انتہائی سفاکی کے ساتھ مسافروں کو قید کرکے جہاز کو آگ لگادی۔
دوسری بار کالی کٹ کے راجہ نے سب سے بڑے پُجاری کو بات چیت کے لیے واسکوڈے گاما کے پاس بھیجا تو اُس نے پُجاری کے ہونٹ اور کان کاٹ دیے اور کان کی جگہ کسی جانور کے کان سی دیے اور اسے واپس بھیج دیا۔ یہ ابتدائی تعارف تھا پرتگالیوں کا جو انہوں نے آتے ہی یہاں کے لوگوں سے کروایا۔
ان کی روش نہیں بدلی۔ تاریخ میں ہمیں واسکوڈے گاما کا ایک اور بھی کارنامہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ 1502ء میں اس نے کالی کٹ کے نزدیک 20 ہندوستانی تجارتی جہازوں کو لوٹ کر اُس کے عملے کو ذبح کردیا تھا، اور 800 سے زیادہ قیدیوں کے ہاتھ، ناک اور کان کاٹ کر ایک کشتی میں ڈال کر ایک رقعہ کے ساتھ کالی کٹ کے راجہ کو بھجوائے کہ: ’وہ اِن کا سالن پکالے۔‘
ہندوستان کا رخ کرنے والی یورپی قوموں میں سب سے پہلے پُرتگالی تھے، پھر ڈچ، فرانسیسی، انگریز اور دوسرے آنے والوں میں چھوٹے چھوٹے ملکوں کے تاجر تھے۔ پہلے مشرق کی قیمتی اشیاء خشکی کے راستے شام اور مصر کی بندرگاہوں سے وینس اور جنیوا بیوپاریوں کے جہازوں کی معرفت یورپ کے ممالک تک پہنچتی تھیں۔
15ویں صدی میں یورپ کے اندر ’وینس‘ ایک اہم تجارتی مرکز تھا جو ہندوستان، جنوبی مشرق، جاوا اور چین سے مصالحے منگواتا تھا۔ وینس کو یہ تجارتی سامان عرب بیوپاری پہنچاتے تھے۔ 1453ء میں عثمانی تُرکوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے کے بعد بیوپار کے راستے بند کردیے۔
یورپی قوموں نے منظرنامہ بھانپ کر نئے راستوں کی تلاش شروع کردی، ہر کوئی دوسرے سے پہلے راستے دریافت کرنا چاہتا تھا۔ مگر ہندوستان کا راستہ واسکوڈے گاما نے ڈھونڈا۔ جس کا ذکر ہم نے ابتداء میں کیا بلکہ تاریخ میں اس راستے کو ڈھونڈنے کے لیے واسکو ڈے گاما نے جو ڈرامے بازیاں اور جن حرفتوں سے کام لیا اُن کی ایک الگ داستان ہے کہ کس طرح ایک امیرالبحر کو نشہ دے کر اور یرغمال بنا کر یہ راستہ ڈھونڈا گیا۔
1508ء میں، البکرک ایرانی خلیج پر ہرمز جزیرے پر قبضہ کیا، پہلے ایرانی خلیج اور بحر ہند پر جو بیوپار ہوتا تھا اُس پر عربوں کا قبضہ تھا، مگر پرتگالیوں کے آنے کے بعد سمندر کے سارے راستوں جیسے، مؤزمبک، عدن اور ایرانی خلیج فرنگیوں کے قبضے میں آگئے۔
فرنگیوں کو روکنے کے لیے گجرات، بیجاپور اور مصر کے مملوک سلطنت (جو آخری آزاد مصر-ترک ریاست تھی۔ یہ ایوبی سلطنت کے زوال کے بعد قائم ہوئی اور عثمانی فتح مصر 1517ء تک قائم رہی) نے پرتگالیوں کے خلاف محاذ کھڑا کرکے جنگ کی لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پرتگالیوں کی سمندر پر کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس نہایت طاقتور بحری فوج اور شاندار جنگی بیڑے تھے۔ ان کے بڑے جہاز سمندر میں دُور سے آتے ہوئے ایسے لگتے تھے جیسے بہت بڑے قلعے تیرتے ہوئے آ رہے ہیں۔ جہازوں میں ہر طرف سے توپیں نصب ہوتی تھیں۔ وہاں کے لیے یہ سب کچھ نیا تھا مگر ایسا ہرگز نہیں تھا کہ ہمارے ہاں کوئی اچھے امیرالبحر نہیں تھے یا یہاں کے لوگوں کو بڑی بیوپاری کشیتاں بنانا نہیں آتی تھیں۔
جنت السندھ کے مصنف لکھتے ہیں کہ،
’میدوں کے بعد کلمتی بلوچوں نے جہاز رانی میں بڑا نام کمایا، کلمتی ایرانی خلیج کے سوا ’ملبار‘ تک جہاز رانی کے بادشاہ تھے۔ ’گوادر‘ اور ’کلمت‘ ان کے 2 بڑے بحری مرکز تھے، اس کے علاوہ راس العرب کے پاس سمندر سے سچے موتی بھی نکالتے تھے۔
کہتے ہیں کہ ’بنگی اسماعیل ناخدا‘ پہلا مشہور کلمتی امیرالبحر رہا ہے، جن کا مقبرہ گوادر کے مغرب میں واقع ہے اور کتبہ پر 873ھ یعنی 1468ء تحریر ہے، یہ بالکل وہ زمانہ ہے جب واسکو ڈے گاما ایک برس کا تھا۔ بنگی اسماعیل ناخدا کے بعد تاریخ میں ’حمل جیہاند کلمتی‘ بھی ایک مشہور و مقبول امیرالبحر اور بہادر انسان ملتا ہے، انہوں نے 2 معرکوں میں پرتگالیوں سے زبردست لڑائی کی اور اُن کو شکست دے کر بھاگنے پر مجبور کیا۔ البتہ پرتگالی گوادر اور پسنی بندر کو جلانے میں کامیاب ہوئے مگر مکران کے اندرونی شہر اس غارتگری سے بچ گئے۔‘
ہندوستان کے مغربی کنارے پر ’گووا‘ پرتگالیوں کا تخت گاہ مقرر ہوا۔ ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ، ایران کے شہنشاہ ’شاہ اسماعیل صفوی‘ کو بھی فرنگیوں کو تسلیم کرنا پڑا۔ 16ویں اور 17ویں صدی کے نصف تک، ان کا راج رہا۔ راج اس حد تک تھا کہ بحر ہند کو پرتگالی سمندر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ جہاں جہاں سمندر کے کنارے جاتے ان کی بادشاہت چلتی۔
سب ٹھیک تھا مگر بیوپار کے معاملے میں ان میں وحشت بھرجاتی۔ وہ جہاں بیوپار کی جگہ دیکھتے وہاں بندر اور اُس بندر کا قلعہ تعمیر کردیتے۔ اگر کوئی دوسرا بیوپاری اس کے قرب و جوار میں کوئی تعمیر کرتا تو وہ اُس تعمیر کو بم سے اُڑا دیتے۔ وہ سمندر میں دوسروں کی کشتیوں کو لوٹنا اپنا حق سمجھتے تھے۔
اگر وہ دیکھتے کہ کچھ کشتیوں کو لُوٹا نہیں جاسکتا تو اُن پر اتنا محصول لگا دیتے کہ وہ معاشی طور پر کنگال ہونے کی نہج پر پہنچ جاتیں۔ وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ بیوپار کے حوالے سے ان کا کوئی اور مقابل ہو، اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوتے۔
جب مقامی طور پر وہ اپنے قدم جما چُکے تو مقامی سیاست میں بھی حصہ لینے لگے اور وہ ہمیشہ اس کا ساتھ دیتے تھے جو دوسرے سے زیادہ طاقتور ہوتا یا اُن کو یہ پکا یقین ہوتا کہ ان کی مدد سے یہ بادشاہ جیت جائے گا اور اس جیت کے بدلے میں ان کو بیوپار میں اور سہولیات ملیں گی اور رعایتیں بھی دی جائیں گی۔
بہادر شاہ بن محمود (اول) 1526ء میں گجرات کے تخت پر بیٹھے، ان کے سپہ سالار ’رومی خان‘ نے سازش کرکے ’ہمایوں‘ کو گجرات پر حملہ کرنے کی دعوت دے کر بلایا۔ بہادر شاہ نے اپنی مدد کے لیے پرتگالیوں کو بُلایا۔ پرتگالیوں نے یہ مدد کی کہ، بہادر شاہ کو (1537ء) قتل کردیا اور گجرات کے ’ڈیو‘ (Diu) بندر (ڈیو بندر ’جھوناگڑھ‘ کے ’کھمبھات‘ سمندر کے مغربی کنارے پر تھا) پر قبضہ کرلیا۔ یہ کوئی عام قتل نہیں تھا، مجھے اس قتل کی واردات کی پینٹنگ ملی ہے، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تخت و تاج کے مالک بادشاہ کو کس طرح پانی میں بے یار و مددگار کرکے قتل کیا جا رہا ہے۔
1556ء میں سندھ کے علاقے ننگر ٹھٹھہ میں بھی کچھ اس سے ملتی جُلتی کہانی نے جنم لیا۔ ایک فرانسیسی ’فرانسکو پیلسے ترٹ‘ نے ہندوستان کے بیوپار کے متعلق رپورٹ تحریر کی، جس کو انگلش میں اور بعد میں ڈاکٹر مبارک علی نے ’جہانگیر کا ہندوستان‘ کے عنوان کے ساتھ اردو میں ترجمہ کرکے شایع کیا۔ جس میں وہ ننگر ٹھٹھہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ،
’یہ سندھ کا مرکزی مقام ہے (1620ء) اور سمندر سے اس کا فاصلہ 80 کوس ہے۔ بندرگاہ کا نام ’لاہری بندر‘ ہے جہاں بڑے بڑے جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں۔ بندرگاہ سے تجارتی سامان کشیتوں میں بھر کر یہاں لایا جاتا ہے مگر موجوں کے بہاؤ کی وجہ سے سامان کے آنے میں 8 سے 10 دن لگ جاتے ہیں۔
اس ملک کو اکبر کے زمانے میں ’خان خانان‘ نے فتح کیا تھا۔ یہ شہر اُس وقت ایک بڑا تجارتی مرکز تھا، یہاں کی سفید کاٹن کی بنی ہوئی اشیاء میرے خیال میں گجرات سے بہت اچھی ہیں، جبکہ دونوں کی قیمتوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ کپڑے کے علاوہ ٹھٹھہ میں منقش میزیں، قلمدان اور اِس قسم کی دیگر چیزیں مقامی طور پر بڑی تعداد میں تیار ہوتی ہیں اور ان پر ہاتھی دانت کی بڑی مہارت سے کٹائی کی جاتی ہے۔ یہ گوا اور دیگر ساحلی شہروں سے مختلف شہروں کو درآمد کی جاتی ہیں۔‘
اب اُس ٹھنڈے خون سے رنگیں اُس حادثے کی طرف آتے ہیں جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے پیش آگیا، مطلب باتوں باتوں میں، کھیل کُود میں 8 ہزار لوگوں کو بغیر کسی جرم و سزا کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
مرزا باقی بیگ جس کی آنکھیں باپ کی گرتی ہوئی صحت پر گڑی ہوئی تھیں، وہ زمانے کی ہواؤں کو بھانپنے والا انسان تھا۔ اُسے پتہ تھا کہ اُس کے والد مرزا عیسیٰ ترخان کی نقاہت سے بھری سانس کی ڈوری کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی تھی۔ طاہر محمد نسیانی لکھتے ہیں کہ،
’جب مرزا باقی بیگ اپنے باپ کی اطاعت شعاریوں اور خدمت گزاریوں پر مستحکم اور راسخ القدم ہوگیا تو اس کے دل میں خیال آیا کہ وہ اپنے باپ کی زندگی ہی میں ایک بار پھر سلطان محمود خان سے اپنی مملکت کی سرحدوں کو متعین کرائے۔ مبادا ایسا نہ ہو کہ اُس کے بعد ارغون سلطان محمود خان کو ورغلا کر امورِ سلطنت میں خلل ڈالیں چنانچہ مرزا اس ارادے سے 1556ء میں بکھر کی طرف روانہ ہوا۔
مرزا باقی کا ارادہ یہ تھا کہ، ’دربیلہ‘ پرگنہ کو بکھر سے علیحدہ کرکے سیہون میں شامل کرے۔ اس کا یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا، ابھی جنگ کی ابتداء نہ ہوئی تھی کہ، ناگہاں ٹھٹھہ سے خبر پہنچی کہ فرنگی (پرتگالی) لاہری بندر کو عبور کرکے ٹھٹھہ پہنچے ہیں اور شہر کے دروازے بند ہیں اگر آکر ملک بچا سکو تو بچاؤ ورنہ دشمن قوی ہے اپنا کام کر جائے گا۔‘
لاہری بندر کا کام 1540ء کے قریب شروع ہوا تھا۔ ’ملا جانی‘ جو اصل میں مروزی تھا، جہاں سے آگرہ میں ہمایوں کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہمایوں جب شیر شاہ سے شکست کھاکر ہندوستان سے نکلا تو بیچارہ مُلا جانی انتہائی تنگدستی کی حالت میں آگرہ سے نکل کر ٹھٹھہ آ پہنچا۔ اس کی فصاحت و بلاغت اور قدرالکلامی نے مرزا شاہ حسن ارغون کو بڑا متاثر کیا۔
اسی زمانے میں لاہری بندر پر کام چل رہا تھا، اسے وہاں بٹھا دیا گیا، یہاں انہوں نے اچھے پیسے کمائے۔ ایک دفعہ قاطعی مُلا جانی کی دعوت پر بندر پر گیا تھا۔ ملُا جانی نے اُس کی بڑی آؤ بھگت کی، قیمتی قالین بچھائے، کھانے پینے کے کئی طعام اور شربت تیار کروائے، گانے بجانے کی محفل کے لیے چرکسی، خطائی آکر حاضر ہوئے۔ برتن سونے چاندی کے تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب ’ابن بطوطہ‘ بھی لاہری بندر گھومنے آئے تھے اور یہاں کی تجارت اور خوبصورتی کا خُوب دل کھول کر ذکر کیا تھا۔ سرکار کو ٹھٹھہ اور لاہری بندر سے سالانہ 60 لاکھ روپوں کی آمدنی ہوتی تھی۔
کچھ تاریخ دان یہ تحریر کرتے ہیں کہ، مرزا عیسیٰ نے سلطان محمد کوکلتاش سے جنگ کے لیے ’گوا‘ سے فرنگیوں کو بُلایا تھا مگر جب نزدیک میں ’ڈیو‘ بندرگاہ میں پرتگالیوں کے جتھے موجود تھے تو گوا جو سندھ کو بہت دُور پڑتا ہے، وہاں سے فرنگی کیوں آئے ہوں گے؟ بہرحال اس آمد پر تاریخ کے اوراق بڑی باریک بینی سے روشنی ڈالتے ہیں۔
تحریر ہے کہ، ’پرتگالیوں کے آنے کا یہ واقعہ ٹھٹھہ اور لاہری بندر کے درمیاں خشک اور آبی راستوں کو ملاکر 2 دن کا راستہ ہے اور وہاں سے دریائے شور ایک منزل ہے، لیکن ایک نالہ جسے سندھی میں نار (خلیج) کہتے ہیں مذکورہ بندر تک پہنچتا ہے، درمیان میں ’سون میانی‘ کے علاوہ کوئی آبادی نہیں ہے۔ وہاں ایک چوکی تھی جہاں میر بندر ایک توپ کے ساتھ ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ جب جہاز دریا سے اس خلیج پر پہنچتے تو توپ چلادی جاتی کہ کشتی سمندر سے اس بندر میں داخل ہو رہی ہے۔ وہ چوکیدار بھی اپنی توپ چلاتے تھے تاکہ اس آواز سے بندرگاہ کے منتظمین واقف ہوجائیں کہ بندرگاہ میں ایک نئی کشتی آ رہی ہے۔
مُختصر یہ کہ، جب پرتگالیوں کی یہ جماعت تاجروں کے طریقے سے یہاں پہنچی تو اُنہوں نے دیکھا کہ، ملک سے بادشاہ بہت دُور گیا ہوا ہے اور کوئی بھی ان کا مدِمقابل نہیں کہ جو جم کر ان کا مقابلہ کرسکے۔ چنانچہ میر بندر نے حسبِ ضابطہ اُن سے خواہش کی کہ وہ وہیں لنگر انداز ہوں، لیکن پُرتگالیوں نے جب یہ بھی بھانپ لیا کہ اس کے پاس جماعت بہت تھوڑی ہے تو میر بندر سے کہا کہ، ہم یہاں نہیں ٹھہر سکتے، ہم جن کشتیوں پر سوار ہوکر آئے ہیں اُن پر ہی ٹھٹھہ جائیں گے اور وہاں سیاحت اور خرید و فروخت کرکے واپس لوٹ جائیں گے اور ضابطے کے مُطابق جو چُنگی ہم پر عائد ہوتی ہے، وہ ہم وہیں ادا کریں گے۔
میر بندر کے پاس کیونکہ افرادی قوت کم تھی اس لیے مجبور ہوکر اُن کو جانے کی اجازت دے دی اور وہ ٹھٹھہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب ٹھٹھہ کے قریب پہنچے تو دریا کے کنارے جو لشکر تھا اُس نے ان سے مقابلہ کیا مگر پسپائی ہوئی۔ پرتگالیوں نے شہر میں پہنچ کر حسبِ مدعا خُوب لوٹ مار مچائی۔ جب انہیں مرزا عیسیٰ کے واپس آنے کی خبر ملی تو اُنہوں نے جلدی سے لُوٹے ہوئے مال و اسباب کو کشتیوں میں ڈالا اور فرار ہوگئے۔‘
’تحفتہ الکرام‘ میں ہے تحریر ہے کہ،
’پرتگالی مرزا عیسیٰ کی آمد کی خبر سُن کر شہر ٹھٹھہ کو لُوٹ کر اور گلی کوچوں میں بارود بچھا کر اور اس میں آگ لگا کر بھاگ گئے۔‘
وہ 21 کشتیوں پر سوار 700 جنگی سپاہی تھے۔ جس کی کمان ’پیڈرو بریتو رولیم‘ (Pedro Barreto Rolim) کے ہاتھ میں تھی۔ (وہ کیپٹن میجر تھا اور بعد میں اسے موزمبیق (Mozambique) کا گورنر بھی بنایا گیا تھا۔ میں نے اس کی تصویر حاصل کرنے کی بہت کوشش کی مگر نہ مل سکی جبکہ دوسرے پرتگالی افسروں کی تصویریں دستیاب تھیں)۔
یہاں ایک شک جنم لیتا ہے کہ اگر مرزا عیسیٰ نے ان کو دعوت دے کر بُلایا تھا تو اُس نے اپنے لوگوں کو ان کے متعلق بتایا کیوں نہیں اور اس بات کو پوشیدہ کیوں رکھا؟ دوسرا یہ کہ اگر ان کو ملک کے حاکم نے اپنے سفیر کے ذریعے بُلایا تھا تو وہ بندرگاہ پر مقرر لوگوں سے یہ جھوٹ کیوں بول رہے تھے کہ، وہ بیوپاری ہیں اور خرید و فروخت کرنے آئے ہیں اور جو ٹیکس ہوگا اُس کی ادائگی وہ ٹھٹھہ میں کردیں گے؟
اب ذرا ان پرتگالیوں کا اس حوالے سے بھی مؤقف سُن لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ جو Danvers Frederick Charles نے اپنی کتاب The Portuguese In Indi کی پہلے جلد جو 1894ء میں لندن سے چھپی تھی اُس میں لکھا ہے کہ،
"1556ء میں حاکم سندھ کی جانب سے ایک سفارت پرتگالیوں کے عامل کے پاس شہر بسین میں پہنچی، جنہوں نے پرتگالیوں سے اپنے دشمن کے خلاف جو انہیں ایذا پہنچاتا رہتا تھا، مدد چاہی۔ سیاسی اعتبار سے پرتگالی چاہتے تھے کہ حاکم سندھ سے دوستانہ تعلقات بڑھائے جائیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ حاکم سندھ کو مدد دینی چاہیے۔ چنانچہ 700 افراد کا لشکر 28 کشتیوں میں ’پیڈرو بریتو رولم‘ کی سپہ سالاری میں ٹھٹھہ پہنچا، جو حاکمِ سندھ کا دارالسلطنت تھا۔
"چونکہ حاکم سندھ میں موجود نہیں تھا اس لیے بریتو نے اس کے بیٹے سے ملاقات کی۔ بیٹے نے اس کے آنے کی اطلاع باپ کو دی۔ بریتو نے کچھ دن وہاں قیام کیا۔ یہاں تک کہ اُس نے سنا کہ حاکم ٹھٹھہ نے اپنے دشمن سے صلح کرلی۔ جب اُسے یہ خبر معلوم ہوئی تو اُس نے شہزادے سے اس مہم کے اخراجات طلب کیے جیسا کہ سندھ کے حاکم کے سفیروں نے وعدہ کیا تھا مگر شہزادے نے اخراجات دینے سے انکار کردیا۔
"اس پر بریتو اپنے آدمیوں کو لے کر ٹھٹھہ میں داخل ہوا اور برہم ہوکر 8 ہزار شہریوں کو قتل کیا اور تقریباً 20 لاکھ چاندی کی قیمت کا بہترین ساز و سامان جلادیا اور بہت سا ساز و سامان کشتیوں میں بھر کر لے آئے۔ شاید ہی کسی کو اس مقدار میں مال غنیمت ملا ہو۔ اس حملے میں اس کا ایک آدمی بھی ضایع نہیں ہوا، وہ اس نواح میں ایک ہفتے تک رہا اور دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر جو آبادیاں تھیں انہیں اس نے تباہ کردیا۔ قلعہ بندر کے محافظوں نے اس کا مقابلہ کیا مگر بریتو اُن پر غالب آگیا اور اس نے قلعے کو مسمار کردیا۔"
یہ رپورٹ اپنی کی ہوئی عظیم غلطی کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ اس رپورٹ کے لب و لہجے سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ، یہ کس قسم کے بیوپاری تھے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ بُلانے پر آئے تھے تو کیا کچھ رقم نہ ملنے پر آپ، بے بس اور لاچار 8 ہزار انسانوں کو مارنا جائز سمجھتے ہیں؟ مجھے نہیں پتہ کہ ’بریتو‘ کو ایسا بدترین ظلم کرنے پر اسے دنیا میں سزا ملی یا نہیں، مگر اس کی لالچ اور انسانیت کے نام پر سیاہ دھبہ بننے والی سوچ اور عمل نے ننگر ٹھٹھ کو برباد کرکے رکھ دیا۔
مرزا عیسیٰ نے واپس آتے ہی ٹھٹھہ کی ازسرِ نو تعمیر شروع کردی اور لاہری بندر سے ٹھٹھہ بندر کی طرف آتی ہوئی آبی گزرگاہ جس کو دولہا دریاء خان نے بنوایا تھا اُس کو بھاری پتھروں سے بند کردیا گیا کہ پھر کوئی اور حملہ آور اس گزرگاہ کو استعمال کرکے اچانک حملہ نہ کرسکے۔ اس عمل سے ٹھٹھہ کی خشک گودی (Out Post) والی اہمیت ختم ہوگئی اور اس وجہ سے ٹھٹھ کو معاشی طور پر بہت بڑا نقصان ہوا۔
ایک صدی سے کچھ زیادہ پرتگالیوں نے تجارت پر اپنے ناخن گاڑھ رکھے مگر 17ویں صدی کی ابتداء میں ان کی طاقت اور جکڑ کمزور پڑنے لگی۔ اُن کا مقامی لوگوں سے رویہ بھی کبھی اچھا نہیں رہا، اس لیے دھیرے دھیرے ان کی جگہ ڈچ باشندوں نے لینی شروع کردی۔
میں یہاں انڈیا میں 4 برس تک گورنر رہنے والے ایک پرتگالی مؤرخ ’الفنسو ڈی سوزا‘ (Martim Afonso de Sousa) کا حوالہ دینا چاہوں گا، جس نے اپنی قوم کی سفاکیوں کے متعلق لکھا ہے کہ،
"پرتگالی ہندوستان کے کناروں پر ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں ظلم لے کر اُترے، مشرق کی بے تحاشا دولت دیکھ کر اُن کے ہوش و حواس خطا ہوگئے۔ انسانوں کو لُوٹنے اور شہروں کو برباد کرنے میں وہ کسی وحشیوں سے کم نہیں تھے مگر دولت اتنی زیادہ تھی کہ آخر میں تلوار کو چھوڑ کر سونا اور چاندی سمیٹنے میں مصروف ہوگئے، آخرکار ایسی ہی حرص و ہَوس والی دیگر مغربی اقوام اُن پر غالب آگئیں۔"
حوالہ جات
’تاریخ طاہری۔ طاہر محمد نسیانی ۔ سندھی ادبی بورڈ
’قدیم سندھ جی تجارتی تاریخ‘۔ چیتن لال ماڑی والا۔ روشنی پبلیکشن
’تحفتہ الکرام‘۔ میر علی شیر قانع۔ سندھی ادبی بورڈ
’جنت السندھ‘۔ رحیمداد مولائی شیدائی۔ سندھیکا اکیڈمی
Historical Geopraphy of Sind. Maneck.B.Pithawala
Baluchistan District Gazetteer Series- Valumes VII and VII-A… R.Hughes Buller
The Portuguese in India. Denvers Frederick Charles. Vol:I, 1894
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (8) بند ہیں