• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

سابق عراقی صدر صدام حسین کی لاش قبر سے غائب؟

شائع April 18, 2018
صدام حسین — اے ایف پی فائل فوٹو
صدام حسین — اے ایف پی فائل فوٹو

عراق کے سابق صدر صدام حسین کو پھانسی کے بعد ان کے آبائی گاﺅں العوجہ میں دفن کیا گیا تھا اور آج ان کا مقبرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مگر حیران کن طور پر ان کی باقیات کے مقام کا کسی کو کچھ پتا نہیں۔

عراق پر لگ بھگ 25 سال تک حکمرانی کرنے والے صدام حسین کو 30 دسمبر 2006 کو پھانسی دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں : جب صدام حسین کو پھانسی دی گئی

اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے ذاتی طور پر صدام حسین کی میت کو امریکی فوجی ہیلی کاپٹر میں بغداد سے تکریت (العوجہ کے قریب عراقی شہر) میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اب فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق صدام حسین کی آخری آرام گاہ میں میت کی موجودگی کے حوالے سے پراسراریت اور شبہات ابھر رہے ہیں۔

سوالات کیے جارہے ہیں کہ کیا ان کی میت ابھی بھی العوجہ میں ہیں یا قبر سے نکالی جاچکی ہیں، اور اگر ایسا ہوا ہے تو اب کہاں ہیں؟

البوناصر قبیلہ (جس سے صدام حسین بھی تعلق رکھتے تھے) کے سربراہ شیخ مناف علی الندا کے پاس وہ خط موجود ہے جس پر سابق صدر کے خاندان نے میت حوالے کیے جانے پر دستخط کیے تھے، جس میں انہوں نے اتفاق کیا تھا کہ صدام حسین کی تدفین بلاتاخیر ہوگی۔

69 سالہ صدام حسین کو اس مقبرے میں صبح کی پہلی کرن سے پہلے دفن کیا گیا، جو انہوں نے برسوں پہلے تعمیر کرایا تھا۔

بعد ازاں یہ جگہ صدام حسین کی سالگرہ کے دن 28 اپریل کو ان کے حامیوں اور مقامی اسکولوں کے طالبعلموں کی آمد سے بھرنے لگا۔

آج وہاں داخلے نے کے لیے خصوصی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ وہ مقام کھنڈر بن چکا ہے، اسی طرح شیخ مناف علی کو گاﺅں چھوڑنے اور عراقی کردستان میں پناہ لینے پر مجبور کردیا گیا۔

شیخ مناف کے مطابق ' 2003 میں امریکی قیادت میں اتحادی افواج کی جانب سے عراق پر حملے کے بعد سے اس قبیلے کو کچلا گیا کیونکہ وہ صدام کے قریب تھا'۔

ان کا کہنا تھا 'کیا یہ نارمل ہے کہ ہم نسل در نسل بھاری قیمت محض اس لیے ادا کرتے رہے کہ ہم ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں؟'

مقبرے کو کیوں تباہ کیا؟

ایک مقامی مسلح گروپ الحشد الشعبی (جس کے ذمے آج کل علاقے کی سیکیورٹی ہے)، کے مطابق سابق صدر کے مقبرے کو اس وقت ایک عراقی فضائی حملے میں تباہ کیا گیا جب داعش کی جانب سے اس کی چھت پر نشانہ بازوں کو تعینات کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں : صدام حسین کے قتل کی حمایت حاصل کرنے کے معاملے پرفلم

شیخ مناف علی مقبرے کے تباہ ہونے کے وقت تو وہاں موجود نہیں تو وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ سابق صدر کی آخرام آرام گاہ ' کھلی اور اڑا دی گئی ہے'۔

الحشد کے سیکیورٹی چیف جعفر الغراوی کا اصرار ہے ' صدام حسین کی میت اب بھی یہاں موجود ہے'۔

تاہم ان کے ہی جنگجوﺅں میں سے ایک کا خیال ہے کہ صدام حسین کی جلاوطن بیٹی ہالہ ایک پرائیویٹ طیارے میں یہاں آئی اور اپنے والد کی میت کو اردن لے گئی۔

یونیورسٹی کے ایک پروفیسر جو کہ صدام دور میں طالبعلم تھے، نے نام چھپانے کی شرط پر کہا 'ناممکن، ہالہ کبھی بھی عراق واپس نہیں آئی، میت کو ممکنہ طور پر کسی خفیہ مقام پر منتقل کیا گیا، کوئی نہیں جانتا کہ کس نے لاش کو منتقل کیا اور کہاں کیا'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسا واقعی ہوا ہے تو صدام حسین کا خاندان اس مقام کو خفیہ رکھنے کی ہرممکن کوشش کرے گا۔

صدام حسین کے مقبرے کا بھی وہی حال ہوا جو ان کے والد کی آخری آرام گاہ کا ہوا تھا جو کہ اس گاﺅں کے داخلی دروازے پر ہے، جسے تباہ کیا گیا۔

مگر کچھ افراد بشمول بغداد کے رہائشی ابوثمر کا ماننا ہے کہ عراق کے سابق صدر اب بھی زندہ ہیں۔

ان کا ماننا ہے ' صدام حسین مرے نہیں، درحقیقت ان کے ایک ڈبل کو پھانسی پر لٹکایا گیا'۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024