پاکستان آنے پر بھارت میں مخالفت ہوسکتی ہے، لیکن کوئی بات نہیں، ہم فنکار محبت کے سفیر ہیں
ہندوستان کے جدید آرٹ سینما میں نندیتا داس کا نام بہت معتبر ہے، انہوں نے ستیا جیت رے کی طرزِ تخلیق پر اپنا فنی سفر بطور اداکارہ اور بعد میں ہدایت کارہ پورے اعتماد کے ساتھ شروع کیا اور بہت سارے کردار نبھائے، جن میں سے کئی ایک کو متنازعہ حیثیت بھی حاصل ہوئی، بالخصوص اردو کی معروف ادیبہ عصمت چغتائی کے ایک افسانے ’لحاف‘ پر بننے والی فلم ’فائر‘ میں شبانہ اعظمی کے ساتھ نبھائے ہوئے بے باک کردار کو کافی شہرت حاصل ہوئی، جس کا موضوع ہم جنس پرستی تھا، اس کردار کی وجہ سے انہیں کافی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے اپنے فلمی کیریئر میں تقریباً 40 فلموں میں کام کیا، جبکہ انہیں کئی مستند ہدایت کاروں کے ساتھ اداکاری کے مواقع حاصل ہوئے، جن میں مرینال سین، ادور گوپال کرشن، شیام بینگل، دیپا مہتا، مانی رتنم اور دیگر شامل ہیں۔ اُن کی چند ایک معروف فلموں میں فائر، ارتھ، کملی، بیفوردی رینز اور فراق شامل ہیں۔ نندیتا داس فیچر فلموں کے علاوہ تھیٹر کے کھیلوں میں بھی کام کرچکی ہیں، اس کے علاوہ مختصر دستاویزی فلمیں بھی بناتی ہیں اور کئی سماجی موضوعات کی تحریکوں کاحصہ بھی رہ چکی ہیں۔
2008ء میں اپنی ہدایت کاری میں بنائی ہوئی فلم ’فراق‘ سے انہوں نے مزید شہرت حاصل کی، اس فلم میں بھارتی فلمی صنعت کے معروف اداکاروں نے کام کیا، جن میں نصیر الدین شاہ، نواز الدین صدیقی، پاریش راول، سنجے سوری اور دیگر شامل تھے۔ اس فلم کو دنیا کے 50 فلمی میلوں میں دکھایا گیا، اب تک یہ فلم 20 اعزازات اپنے نام کرچکی ہے۔ اس کا موضوع 2002ء میں بھارتی ریاست گجرات میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم تھے۔
اِن دنوں نندیتا داس اپنی تازہ ترین فلم ’منٹو‘ کی تکمیل میں مصروف ہیں، جو برِصغیر کے معروف ادیب سعادت حسن منٹو کی زندگی پر مبنی ہے، اس میں معروف اداکار نواز الدین صدیقی منٹو کا کردار نبھا رہے ہیں جس کے لیے وہ ایک طویل وقت سے ریاضت بھی کررہے ہیں۔ اس فلم کے بعد یہ فیصلہ بھی ہوسکے گا کہ منٹو کی شخصیت کے ساتھ انصاف پاکستان میں ہوا یا بھارت میں؟ کس ملک کا فلم ساز منٹو کو بہتر طور سے سینما کی اسکرین پر پیش کرپایا۔
نندیتا داس کئی معروف بھارتی ایوارڈز کے علاوہ فرانس کا سب سے بڑا ثقافتی اعزاز بھی حاصل کرچکی ہیں اور کینز فلم فیسٹیول میں کئی برسوں تک جیوری ممبر کی حیثیت سے وابستہ رہیں۔ دنیا کے کئی بڑے فلمی فورمز پر مدعو کی جاتی ہیں اور بین الاقوامی سینما میں دلچسپی رکھنے والے، بشمول پاکستان ان کے مداحوں کی تعداد بے شمار ہے۔ ان دنوں نندیتا داس، کراچی میں منعقد ہونے والے پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں شرکت کی غرض سے پاکستان تشریف لائیں تو ہم نے ان سے خصوصی گفتگو کی۔
سوال: آپ نے ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کا دورہ کرکے کیسا محسوس کیا؟
جواب: ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ذریعے کوئی بڑی چیز تعمیر کرسکتے ہیں، مثلاً خوشی ایک احساس ہے، مگر یہ ضروری نہیں ہے، ایک دم سے بہت بڑی خوشی ہی ہمارا مقدر ہو، ہم اس کے انتظار میں بیٹھے رہیں، بلکہ ممکن ہے کہ ہم روزمرہ کی عام باتوں سے خوشیاں کشید کریں۔ پاکستان سے واپسی پر مجھے یہاں کے لوگوں کا خلوص، لذیذ کھانوں کی مہک اور یہاں گزارے ہوئے خوشگوار دن بہت یاد آئیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھے شاید اپنے ملک میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑے، لیکن کوئی بات نہیں، ہم فنکار محبت کے سفیر ہیں، دونوں طرف محبتوں کے فروغ کے لیے کام کرتے رہیں گے۔ یہی کوششیں دونوں طرف کے تعلقات کو نارمل کرنے میں مدد دیں گی، مجھے اس بات کا پورا یقین ہے۔
سوال: پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو کس طرح دیکھتی ہیں؟ کچھ بہتری تو آئی ہے حالات میں، یہی وجہ ہے، کہ بھارت سے 22 فنکاروں کا وفد پاکستان آسکا۔
جواب: حالات اور تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سفر کرنے کے لیے پل بھر کی مسافت ہے، لیکن ہمیں ایک تیسرے ملک سے ہوکر یہاں آنا پڑتا ہے پھر اس پر ستم یہ بھی کہ دونوں جانب مخصوص شہروں کے ویزے ہی جاری ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے آپ مکمل طور پر ایک دوسرے سے روشناس نہیں ہوپاتے، اس کی وجہ ابھی خراب حالات ہی ہیں، جس میں دونوں طرف سے سخت اقدامات کا کیا جانا ہے، اس کے اثرات تعلقات پر بھی پڑتے ہیں مگر امید یہی ہے کہ یہ حالات ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے۔
سوال: پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ہندوستان اور پاکستان کے فلمساز ایک ساتھ مل کر بیٹھے، کیا اس کوشش سے کوئی حل نکلے گا اور دونوں طرف کے سینما میں فنکار پھر سے ایک ساتھ کام کرسکیں گے؟
جواب: اس موقعے کے ذریعے دونوں طرف سرد مہری کو ختم کرنے میں مدد ملی، دونوں ممالک کے فنکار ایک ساتھ، ایک جگہ بیٹھے، دونوں طرف کے فنی اور ثقافتی مسائل پر بات کی گئی، مثبت انداز میں ایک دوسرے کے مؤقف کو سنا اور سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ ایک ایسی سرگرمی ہے، جس کی وجہ سے مجھے امید ہے کہ اب دونوں طرف کافی بہتری آئے گی، اس منظرنامے کو دیکھتے ہوئے ہندوستان میں بھی ایسے مثبت حالات کے پنپنے کی امید کی جاسکتی ہے۔
پاکستان نے اس مثبت اقدام میں پہل کی ہے جس کے لیے فلم فیسٹیول کی انتظامیہ مبارک باد کی مستحق ہے۔ میرے خیال میں اب پاکستانی فنکاروں پر بھارت میں پابندی ختم ہونی چاہیے مگر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ پابندی بھارت کی مرکزی فلمی ایسوسی ایشن نے نہیں لگائی بلکہ یہ ردِعمل ایک دوسری ثقافتی تنظیم کی طرف سے آیا۔ پاکستانی فنکاروں کو بھارت آنے جانے اور کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ فن کے درمیان کوئی رکاوٹ قبول نہیں، اس میں دونوں طرف کے فنکاروں کو بھی اپنا تعمیری کردار نبھانا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ عملی طور پر اس بات پر عمل پیرا ہونے کی غرض سے پاکستان آئی ہوں۔ فنکاروں کو مشکلات سے گھبرانے کے بجائے حوصلے سے کام لیتے ہوئے امن اور محبت کے پیغام کو پھیلانا چاہیے اور میں یہی کام کر رہی ہوں۔
سوال: آپ پہلی بار پاکستان کب آئی تھیں؟
جواب: آج سے 9 برس قبل، جب میں نے اپنی پہلی فلم بطور ہدایت کارہ ’فراق‘ بنائی تو اس کی نمائش کے لیے کراچی آئی تھی، کیونکہ وہ فلم کراچی فلم فیسٹیول میں دکھائی جانی تھی۔
اُس موقعے پر مجھے پاکستانی فنکاروں سے بات کرنے کا پہلا موقع ملا، جس میں ہم ایک دوسرے کے روبرو تھے۔ اس کے بعد ایک بار پھر مجھے پاکستان کو ایک نئے پہلو سے دیکھنے کا موقع قدرت نے دیا، جب مجھے پاکستانی فلم ساز مہرین جبار کی فلم ’رام چند پاکستانی‘ میں کاسٹ کیا گیا۔
فلم رام چند پاکستانی کے ذریعے دونوں ممالک کے مابین ثقافتی اشتراک کی صورتحال بہتر ہوئی، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے بعد کئی پاکستانی فنکار بھی ہندوستان آئے اور مختلف شعبوں میں کام کیا۔ اس کے علاوہ پاکستانی گلوکار سلمان احمد کے ایک ویڈیو سونگ میں ماڈلنگ کرنے کا موقع ملا، اس گیت کا تھیم بھی یہی تھا کہ ایک پاکستانی اپنا آبائی گھر ’انڈیا‘ دیکھنے آتا ہے۔
سوال: آپ ان دنوں اپنی نئی فلم ’منٹو‘ پر کام کر رہی ہیں، جس کا تعلق برِصغیر کے معروف ادیب سعادت حسن منٹو سے ہے، کیا آپ نے پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے بننے والی منٹو فلم دیکھی؟ اور اس پر آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب: نہیں میں نے نہیں دیکھی اور ایسا میں نے جان بوجھ کر کیا، کیونکہ اس فلم کی کہانی اچھی بُری جو بھی تھی، وہ بات اپنی جگہ، لیکن میں اس فلم سے کوئی اثر نہیں لینا چاہتی تھی، لہٰذا فلم دیکھنے سے پرہیز کیا، اس کے علاوہ کوئی بات نہیں ہے۔ ہاں ویسے میں اس فلم کے ہدایت کار سرمد کھوسٹ سے ملی ہوں، ان کے ساتھ ایک دو گفتگو کے پینل میں بھی شامل رہی ہوں، مگر اپنی فلم منٹو کے تناظر میں ان سے کوئی وابستگی نہیں ہے، نہ ہی میں نے ان سے کوئی صلاح مشورہ کیا ہے۔ (مسکراتے ہوئے)
سوال: آپ کی ہدایت کاری میں بننے والی زیرِ تکمیل فلم منٹو کے متعلق گزشتہ برس ایک مختصر وڈیو نشر ہوا، جس میں معروف بھارتی اداکار نواز الدین صدیقی، جو سعادت حسن منٹو کا کردار نبھارہے ہیں، وہ بطور منٹو اس وڈیو میں دکھائی دیے، وہ طلبا کو پڑھاتے نظر آرہے ہیں، ان کو سمجھانے کے لیے گفتگو کر رہے ہیں، مگر اس گفتگو میں اردو زبان کے اصولوں کے مطابق کچھ غلطیاں تھیں، تو کیا آپ نے وہ غلطیاں درست کرلیں؟
جواب: (قہقہہ) پاکستان میں پہلا ایسا سوال پوچھا گیا ہے جو تنقیدی ہے، آپ یقینی طور پر فلموں کے ناقد بھی ہوں گے، اسی لیے آپ نے ایسا سوال پوچھا۔ دراصل بات یہ ہے کہ وہ وڈیو ایک مختصر فلم تھی، جو میری فلم منٹو کا حصہ ہی نہیں ہے۔ ہم منٹو پر فلم بنانے کی تیاری میں مصروف تھے، انہی دنوں بھارت کے ایک بڑے اخبار نے ہمیں کہا کہ وہ اس فلم کے حوالے سے تیاری کو فلمانا چاہتے ہیں، میں نے پہلے تو منع کردیا، پھر انہوں نے بہت اصرار کیا تو ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے، آپ آئیے، اس بہانے تھوڑی بات بھی شائقین تک پہنچ جائے گی، اور ہماری فلم میں منٹو کا چہرہ اور حلیہ وغیرہ کیسا ہے، ٹھیک ہے بھی کہ نہیں، وہ بھی سب دیکھ لیں گے۔ لہٰذا منٹو صاحب کی وہ تقاریر جو انہوں نے ہندوستان میں رہتے ہوئے کی تھیں، جن میں سرِفہرست ایک تقریر جس میں وہ ایک کالج کے طلباء سے خطاب کررہے ہیں اور دیگر مواقع پر جو بیانات دیتے رہے، ان سب کو ملا کر ایک منظرنامہ تیار کیا اور اس وڈیو کو فلمبند کرلیا۔
وہ سب جو منٹو اس فلم میں بول رہے ہیں، وہ کسی ایک جگہ نہیں ہے بلکہ وہ فلم میں مختلف جگہوں پر دیکھنے اور سننے کو ملے گا، مگر اس ویڈیو میں ایک جگہ کردیا گیا۔ اس ویڈیو کے جاری ہونے اور غلطیاں ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ نواز الدین نے پہلے سے زیادہ محنت سے تیاری کی۔ اب دیکھتے ہیں کہ فلم ریلیز ہونے کے بعد شائقین کا ردِعمل کیا ہوگا۔
سوال: ایک خیال یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک کی چند اہم شخصیات کو اپنے ملکی پس منظر کے ساتھ ہی دیکھتے ہیں، مثلاً منٹو صاحب ہجرت کرکے ہندوستان سے پاکستان آگئے تو ان کے بارے میں اب خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی ادیب ہیں یا پھر قرۃ العین حیدر ہندوستان واپس چلی گئیں تو وہ ہندوستانی ادیبہ کہلاتی ہیں، تو ہندوستان میں رہتے ہوئے آپ کو ایک پاکستانی ادیب کا انتخاب مشکل فیصلہ ثابت نہیں ہوا؟
جواب: منٹو صاحب تو سب کے ہیں۔ ان پر جتنی زیادہ فلمیں بنیں اتنا اچھا ہوگا۔ اکثر مجھے لوگ کہتے ہیں کہ ارے منٹو پر تو ایک فلم بن چکی ہے، آپ کیوں بنارہی ہیں؟ لیکن میں کہتی ہوں ایسی کوئی بات نہیں، اور ویسے بھی پاکستان میں جو فلم بنی اس کا دور بالکل الگ ہے۔
پاکستان میں ان پر بنائی جانے والی فلم میں صرف ان کی زندگی کے آخری چند برسوں کو فلمایا گیا ہے، جبکہ میں نے ان کی ہجرت سے پہلے اور بعد کے کچھ برسوں کی زندگی کو عکس بند کیا ہے۔ وہ ہندوستان میں رہتے تھے تو وہاں ان کی زندگی کیسی تھی اور جب پاکستان آئے تو کیا ماحول تھا اور انہوں نے کس طرح اپنی زندگی گزاری، فلم میں ان سب پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے تو یہ پاکستانی فلم منٹو سے کافی الگ ہے۔ فیصلہ مشکل ثابت ہوا، مجھے اس بات کا طعنہ ملتا ہے کہ کیا بھارت میں کوئی ادیب نہیں تھا، جو آپ کو پاکستانی ادیب پر ہی فلم بنانا ضروری لگا۔
سوال: آپ اس دباؤ کے لیے تیار ہیں، جو آپ کے ملک میں، اس فلم کی ریلیز ہوتے وقت یا ریلیز کے بعد آپ پر آئے گا؟
جواب: وہاں تو ابھی بھی مجھے بہت کچھ کہا جا رہا ہے، وہ تو کہتے ہیں، جیسا میں نے پہلے بھی بتایا کہ کیا ہندوستان میں ادیب نہیں ہیں جو پاکستانی ادیب کا انتخاب کیا ہے۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ ان کی تین چوتھائی زندگی ہندوستان میں گزری تھی۔ وہ پاکستانی ہیں مگر ہندوستانی بھی ہیں بلکہ وہ جنوبی ایشیائی کے ادیب ہیں، ہم جب آسکر وائلڈ یا ہمنگوے کا ذکر کرتے ہیں تو ہم ان کی قومیت کی بات تو نہیں کرتے ہمارے لیے وہ تو صرف عظیم لکھاری ہیں، بالکل اسی طرح منٹو بھی ایک عظیم افسانہ نگار ہیں، وہ کہاں کے ہیں؟ یہ بات ثانوی ہے بلکہ وہ تو کہا کرتے تھے کہ میں تو چلتا پھرتا بمبئی ہوں۔ ان کی کہانیاں بھی بتاتی ہیں کہ وہ دونوں طرف کے تھے، انہیں دونوں طرف کی گزاری ہوئی زندگی عزیز تھی۔ اگر ہم ان کو کھینچاتانی کرکے اپنا اپنا ادیب بنانے کی کوشش کریں گے تو یہ ناانصافی ہوگی، وہ ہم سب کے ادیب ہیں۔
سوال: آپ کے فنی کریئر کو ذہن میں رکھ کر بات کی جائے تو کم عمری سے اس قدر ڈھیر ساری میچورٹی اور شعور آپ کی شخصیت میں کہاں سے آگیا؟
جواب: یہ شعور کی بات نہیں ہے، بس آپ کا کوئی جنون نہ ہو، جس طرح میں نے کبھی نہیں سوچا کہ مجھے کوئی بہترین اداکارہ بننا ہے یا بہترین ہدایت کارہ بننا ہے، اگر ایسا ہوتا تو میں بطورِ ہدایت کار اپنے لیے منٹو جیسا مشکل موضوع کیوں منتخب کرتی؟ 2 کرداروں پر ایک اچھی سی رومانوی کہانی لیتی اور فلم بنالیتی۔
40ء کی دہائی کی فلم کو کم بجٹ میں رہ کر تخلیق کرنا اپنے آپ میں خود ایک جان لیوا کام ہے۔ فلم کے پردے پر یہ کہانی میں اپنے طریقے سے کہنا چاہتی ہوں یہی کوشش میں نے کی ہے۔ اس میں غلطیاں بھی ہوں گی، کچھ اچھا بھی ہوگا، حاضرین اس فلم سے اپنی اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ لے کر جائیں گے، اس لیے میں دباؤ اور توقعات کے دائرے سے باہر ہوں، کبھی لوگ ڈراتے ہیں تو میں وقتی طور پر ڈر بھی جاتی ہوں کہ میں فلم کا کام احسن طریقے سے کرپاؤں گی یا نہیں، لیکن اب یہی ہے جو ہے، ویسے بھی اس فلم کے بعد کافی بہادر ہوگئی ہوں، اس کو بناتے ہوئے بہت سارے خطروں کا سامنا کیا اس لیے شاید ڈر نہیں لگتا بقول شاعر آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے۔
سوال: ہم آپ سے کوئی ایسا سوال نہیں پوچھنا چاہتے جس کی وجہ سے آپ کی فلم منٹو کا عقدہ یہاں کھل جائے، لیکن یقینی طور پر آپ اس فلم کو بنارہی ہیں تو اس وقت کی موسیقی بھی آپ کی نظر میں ہوگی، منٹو صاحب کے میڈم نور جہاں سے مراسم بھی آپ کے ذہن میں ہوں گے، تو فلم بناتے وقت ان سب باتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے؟
جواب: جی میں نے اپنی پوری کوشش کی ہے، اس وقت کی موسیقی، حتیٰ کہ شاعری کو بھی سمیٹ سکوں، میں نے فیض احمد فیض، سیماب اکبر آبادی اور میراجی کی شاعری کو بھی فلم کا حصہ بنایا ہے۔ اس بات کا بھی خیال رکھا ہے کہ صرف یہ نہ ہو کہ فلم صرف وہ زمانہ ہی دکھا رہی ہو اور آپ اسے دیکھ کر عش عش کر اٹھیں اور کہیں کیا پروڈکشن بنائی ہے، ہاں آپ اس زمانے میں ضرور چلے جائیے، لیکن اس کہانی میں جتنے مسائل کے بارے میں بات ہو رہی ہے وہ آج کے ہیں، اس لحاظ سے یہ فلم عصرِ حاضر کی فلم ہے، جس میں زمانے کی تلخیاں اور سچائی بیان کی گئی ہے۔
سوال: ہندوستانی سینما میں بھارتی اداکاروں کی فنی آزادی کی صورتحال کیا ہے، آزادی کے ساتھ کام ہوسکتا ہے؟
جواب: بھارت میں مقامی فنکاروں کے لیے کچھ اچھے حالات نہیں ہیں، میری مراد، ان فلمسازوں سے ہے جو آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں یا جن کا کام آرٹ سینما سے قریب ہے، ان کے لیے ماحول دوست فضا ہونا ضروری ہے اور وہ انہیں میسر نہیں، اس کے مقابلے میں کمرشل سینما زیادہ سہولتوں سے آراستہ ہے اس کے لیے پابندیاں اور قدغن جیسے حربے بھی استعمال نہیں ہوتے مگر اب آزاد سینما عہدِ حاضر کی ضرورت ہے، گزرتے وقت کے ساتھ یہ مزید فروغ پائے گا اور فلم بین اس نوعیت کی فلمیں دیکھنا چاہیں گے۔
سوال: پاکستان کی موجودہ فلمی صنعت کے حوالے سے آپ کیا رائے رکھتی ہیں؟
جواب: پاکستانی فنکار بہت باصلاحیت ہیں، اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ وہ پاکستان کے علاوہ بولی وڈ اور ہولی وڈ میں بھی کام کررہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کی فلمی صنعت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کار اور موسیقی کے شعبوں میں بھی نئے چہرے سامنے آئے ہیں، جنہوں نے اس فلمی صنعت کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ میں پاکستانی سینما کا مستقبل اچھا دیکھ رہی ہوں۔
عالمی سینما میں تجربات ہو رہے ہیں، بھارت تو ایک عرصے سے اپنے موضوعات کو لے کر تجرباتی فلمیں بھی بنا رہا ہے اب یہ رجحان پاکستان میں بھی نظر آنا شروع ہوگیا ہے، یہی اس بات کی علامت ہے کہ پاکستانی فلم ساز صحت مند تنقید سے سیکھتے ہیں اور اب نت نئی فلمیں بنا رہے ہیں۔
کمرشل سینما پوری دنیا میں اپنے منفی اثرات مرتب کر رہا ہے، تخلیقی فلم سازوں کو ان اثرات سے بچاکر اپنے کام کو آگے لانا ہوگا، ایک ایسے پیمانے کے ساتھ کہ جس میں وہ باکس آفس پر کامیاب ہوں اور تخلیق کا حقیقی دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے، اس بات کا خیال دونوں ممالک کو کرنا ہوگا اس صورت میں ہی اس خطے میں وہ فلمیں بن سکیں گی، جن میں سماجی مسائل اور دکھوں کی نشاندہی ہوسکے گی۔ فلم بین بھی اپنے مسائل کو فلم کے پردے پر دیکھنا چاہتا ہے، اس طرح اس کی بھی تشفی ہوتی ہے۔
تبصرے (3) بند ہیں