• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

غیر حقیقی بحران سے حقیقی بحران تک

شائع April 15, 2018 اپ ڈیٹ April 17, 2018
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

نواز شریف کی سیاست سے بے دخلی کے اس پورے معاملے کو دیکھا جائے تو اس بات پر بہت ہی زور دیا گیا کہ ایک بحران پیدا ہوگیا ہے اور یہ کہ نواز شریف سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا گیا تو یہ بحران سرطان کی طرح پھیلتا چلا جائے گا اور ہم سب کو نگل جائے گا۔

کوئی بحران تھا ہی نہیں۔

ہاں، کیا پاکستان بہتری جانب گامزن ہوسکتا تھا؟ جی ہاں۔ کیا معیشت کو بہتر انداز میں سنبھالا جا رہا تھا؟ جی نہیں۔ کیا سول حکومت سیکیورٹی معاملے پر اپنے حصے کا کردار ادا کر رہے تھے؟ نہیں تو۔ کیا گورننس بہتر تھی؟ نہیں۔ کیا کوئی وژن یا کوئی پلان تھا؟ موٹرویز اور میگاواٹ کے سوائے تو کچھ نہیں تھا۔

مگر ان تمام کو بھی بحران میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن اب ہمارے پاس واقعتاً بحران کی صورتحال ہے۔ نواز شریف کو بے دخل کرنے اور ملک کو غیر حقیقی بحران سے بچانے کی کوشش میں ایک حقیقی بحران جنم لے چکا ہے، اور اس کے پیچھے 2 وجوہات ہیں۔

پہلی، نواز شریف کے مقدمے اور بے دخل کرنے کی کوشش میں نظام کے اندر جو بگاڑ پیدا کیے گئے وہ پورےنظام پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلوں کی بوچھاڑ نے نظام کو غیر مستحکم کردیا ہے۔ اس لیے نہیں کہ فیصلوں کا ہدف نواز شریف ہیں بلکہ اس لیے کہ جس انداز میں انہیں ہدف بنایا گیا ہے۔

پڑھیے: نواز شریف کی نااہلی: سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہتے ہیں، اپوزیشن رہنما

نیب کے راستے، نواز پر مقدمہ چلایا جانا، پھر سزا سنانا اور پھر سزا کو سیاست سے بے دخل کرنے کے لیے استعمال کیے جانے سے اہم سیاسی نتائج برآمد تو ہوں گے لیکن اس کے مجموعی نظام پر تھوڑے اثرات مرتب ہوں گے۔

آپ ان حقائق اور اثاثوں کو اس طرح بہتر انداز استعمال نہیں کرسکتے جنہیں استعمال کرکے نواز شریف اور چند دیگر سیاستدانوں کو سزا سنائی گئی اور سیاست سے بے دخل کردیا گیا۔ دیگر لوگوں کو بے دخل کرنے کے لیے آپ کو اس فرد تک محدود حقائق اور اثاثوں کو ضرورت پڑے گی۔

مگر جس طریقے کے ساتھ نواز شریف کو پھنسایا گیا ہے اس طرح خود نظام نے اپنے اندر ایک راستہ کھول دیا ہے۔

اور یہاں سے سب کچھ ممکن ہے اور کسی کو بھی ہدف بنایا جاسکتا ہے، اور یہ واضح نہیں کہ عدلیہ کو حاصل اپنی مرضی کا ہتھیار کس طرح چھینا جاسکتا ہے۔

کچھ لوگ مشورہ دیں گے کہ آئین میں ترمیم لائی جائے اور شق 62 (1)(f) سے چھٹکارا حاصل کیا جائے یا پھر اسے غیر مؤثر بنادیا جائے۔ مگر کچھ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا، کیا پتہ عدالت ترمیم کو ہی غیر آئینی قرار دے دے؟

سیاست کی عدلیہ کاری سے پہلے آئین کی عدلیہ کاری آئی، عدلیہ پہلے یہ واضح کرچکی ہے کہ وہ آئینی ترامیم پر نظرثانی کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

چونکہ عدالت نے 62 (1)(f) کی تلوار میان سے کھینچ لی ہے، تو عدالت کیوں سیاستدانوں کو تلوار چھیننے دے گی؟ جوابات کافی مشکل ہیں۔

لیکن ایک سنجیدہ مسئلہ نمایاں طور پر نظر آرہا ہے۔

ہم جس حقیقی بحران کے بیچ میں ہیں اس کی ایک اور وجہ وہ طریقہ ہے جو نواز شریف نے اپنی بے دخلی کے ردِ عمل کے طور پر اختیار کیا۔ انہوں نے عدالتوں میں کوئی ہنگامہ کھڑا نہیں کیا۔ انہوں نے عدلیہ کے خلاف پارلیمنٹ کو متحرک نہیں کیا۔ انہوں نے ’بوائز‘ کے خلاف غصے کا اظہار نہیں کیا۔

پڑھیے: کیا عدالتی فیصلے نے نواز شریف کو نئی زندگی دے دی؟

انہوں نے عام لوگوں کا رخ کیا۔

اور عام لوگ ان کے پاس آئے۔ ہاں وہ بے بہا جوش و ولولہ کے ساتھ بھلے نہ آئے ہوں، نواز شریف نہ تو انقلابی ہیں اور نہ ہی کوئی قلعہ باستیل کے محاصرے کی تیاری کر رہا ہے، مگر جو نواز شریف نے کیا وہ معنی خیز ضرور ہے۔

دو منظرنامے ہیں۔ نواز شریف جن لوگوں کو اپنی ریلیوں میں باہر لے کر آئے ہیں انہیں ’بوائز‘ اور عدالت کی سخت گیری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور وہ اپنی ناخوشی ظاہر بھی کر رہے ہیں۔

یا وہ دراصل وہی بات کہہ رہے ہیں جو کہ روز اول سے ہی واضح تھی: کوئی بحران نہیں تھا۔ یہ کہ نواز شریف جو کام کر رہے تھے وہ اس سے خوش تھے اور وہ انہیں دوبارہ اقتدار میں دیکھنا چاہیں گے۔

یا پھر دونوں باتوں کا ایک امتزاج بھی ہوسکتا ہے۔ وجہ جو بھی ہو، یقیناً وہ غیر متوقع رہی، اور اسی نے ہی مسئلے کو جنم دیا۔ کیونکہ اب اس صورتحال کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن کیسے؟

انتخابات کی سازبازی تو ایک طریقہ ہوگا۔ مگر نواز لیگ کی نشستوں کی تعداد کم کرنا مشکل ہوگا اور نواز شریف باخوشی اپنی ریلی کا شیڈول بڑھا سکتے ہیں، اور ان ریلیوں کو انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج میں بدل سکتے ہیں۔

دھرنوں کا ایک دور چلا تھا جن پر ’بوائز‘ کی انگلیوں کے نشان بھی تھے، دھرنوں کے اس دور نے ’بوائز‘ کی اجازت اور ہدایت کے بغیر کسی سیاسی احتجاج منعقد کرنے کے کسی امکان کو دھندھلا دیا ہے۔

ایک چھوٹا معاملہ پنجاب حکومت کا بھی ہے۔ پارٹی کو صوبائی سطح پر مٹانے سے نسبتاً آسان قومی اسمبلی میں نواز لیگ کا راستہ روکنا ہے۔

اس وقت جتنی بھی نواز لیگ ہوگی اس کے پاس اپنی احتجاج کی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے تحرک پیدا کرنے والی ایک سنجیدہ وجہ بھی ہوگی۔ صورتحال پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا۔

پڑھیے: 'نظریہءِ باجوہ' ایک شخص کی نہیں ادارے کی سوچ ہے

دوسرا آپشن یہ ہے کہ نواز شریف کو جیل بھیج دیا جائے۔ اس طرح کم از کم بڑی بڑی ریلیاں تو ختم ہوجائیں گی لیکن اس طرح آپ کو جیل میں بیٹھے ملک کے ایک سب سے بڑے سیاسی کھلاڑی کا سامنا ہوگا۔

استحکام لانے کی یہ کوئی اچھی ترکیب تو نہیں ہے۔

یہاں پر معاملہ جڑواں ہے، حقیقی بحران یہاں نظر آتا ہے: یکسر طور پر سیاسی گیم کے اصولوں کو بدلا جائے اور برائے نام عوامی مخالفت کو پیدا کیا جائے۔

یہاں سے سول ملٹری اور سیاسی عدالتی فریم ورکس پر دوبارہ کام کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ کیسے اور کب یہ واضح نہیں، لیکن عدم توازن کو تھوڑا سا ٹھیک ہونا ہوگا۔

ایک نظام جو کہ اپنے سب سے بڑے سیاسی کھلاڑی کو ختم کردیتا ہے اور وہ بھی اس طریقے کے ساتھ کہ جو دیگر کو ایسی ہی سیاسی پھندے میں پھانس سکتا ہے اور کچھ عوامی مخالفت کو جنم دیتا ہے وہ نظام پائیدار نہیں ہوتا ہے۔

جب 58 (2)(b) کو تخلیق کیا گیا تھا، اس وقت ہی واضح ہوگیا تھا کہ 58 (2)(b) کو ختم کردیا جائے گا۔ اب جس طرح 62 (1)(f) کو ہتھیار بنایا گیا ہے تو ظاہر ہے کہ 62 (1)(f) کو بھی آخرکار نکال دیا جائے گا یا پھر غیر مؤثر بنا دیا جائے گا۔

یہاں پر ہی ایک حقیقتاً متجسس بات پتہ چلتی ہے۔

نواز شریف کے خروج کو درست قرار دینے کے لیے ایک غیر حقیقی بحران کو پیدا کیا گیا اور کچھ نہیں کیونکہ نظام کام ہی اسی طرح کرتا ہے۔

لیکن غیر حقیقی بحران آہستہ آہستہ ایک حقیقی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے جس میں بالآخر سول ملٹری میں سے ملٹری سائیڈ اور سیاسی عدلیہ میں سے عدالتی سائیڈ کو کچھ باتوں پر سمجھوتہ کرنا پڑسکتا ہے۔

کیا نواز شریف کو نکالنے کا مطلب یہ تھا کہ آہستگی اور خاموشی کے ساتھ سول ملٹری اور سیاسی عدالتی توازن بحال کیا جائے؟

یا پھر ’بوائز‘ اور عدالت سے غلطی ہوئی؟

یا شاید انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کر کیا رہے تھے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون 15 اپریل 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

سیرل المیڈا

لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ان کی ٹوئٹر آئی ڈی cyalm@ ہے

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024