’مجھے اڈیالہ جیل بھیجنے کی تیاریاں عروج پر ہیں‘
اسلام آباد: سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے الزام عائد کیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) ان کی ’بدترین سیاسی حریف‘ کے طور پر سامنے آئی ہے اور ساتھ ہی اندیشہ ظاہر کیا کہ انہیں اڈیالہ جیل بھیجنے کی تیاریاں جاری ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک صحافی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘شاید اڈیالہ جیل کی صفائی میرے لیے کرائی جارہی ہے اور ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ احتساب عدالت کا فیصلہ سامنے آئے بغیر ہی اڈیالہ جیل میں تیاریاں کی جارہی ہیں؟
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے خدشہ ظاہر کیا کہ ‘اس کا مطلب ہے کہ انہوں (عدالت) نے ہمیں مجرم قرار دینے کی تیاری شروع کردی ہے، احتساب عدالت کو ہمارے خلاف صرف فیصلہ سنانے کے لیے نہیں بلکہ مجرم کی فہرست میں ڈالنے کے لیے کہا گیا ہے’۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ان کے اہل خانہ کے خلاف ریفرنسز میں تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیاء کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے قوم کے پیسے اپنے رشتہ دار کو دیئے اور انہیں ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوگا۔
مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: واجد ضیاء کو جلد 10 کے حصول کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دینے کی ہدایت
سابق وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ جے آئی ٹی کے 6 میں سے 3 ارکان ان کے سیاسی طور پر بد ترین مخالف ہیں اور وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سرگرم رکن ہیں۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے لندن میں جس قانونی فرم کی خدمات حاصل کی تھیں وہ واجد ضیاء کے رشتہ دار کی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا کیس دہشت گردی کا نہیں تھا تو اس میں انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے ارکان کو شامل کرنے کا کوئی جواز سمجھ نہیں آتا۔
انہوں نے جے آئی ٹی پر الزام لگایا کہ جے آئی ٹی نے ان کے حق میں جانے والے حقائق کو چھپایا ہے۔
واضح رہے کہ نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز پر اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سماعت جاری ہے۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی ایون فیلڈ ریفرنس میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ پر جرح مکمل کی۔
سماعت کے دوران مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی جانب سے جرح کے دوران واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے روزانہ کی بنیاد پر ڈائری نہیں لکھی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو ہرپندرہ روز بعد پیشرفت رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا اور جے آئی ٹی نے دو ماہ میں سپریم کورٹ کے سوالات کا جواب دینا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جے آئی ٹی کے پاس (کرمنل پروسیجر کوڈ) سی آر پی سی، نیب آرڈیننس اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی تحقیقات سے متعلق اختیارات موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے ساتھ 30 سے 40 ماہرین کام کر رہے تھے اور ان کا نام جے آئی ٹی رپورٹ میں ظاہر نہیں کیا گیا کیونکہ جے آئی ٹی نے ان کا نام خفیہ رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کو درخواست دی تھی۔
خواجہ حارث کی جانب سے واجد ضیاء سے جے آئی ٹی ممبران سے متعلق سوالات پر جے آئی ٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ جے آئی ٹی کے رکن بلال رسول کی اہلیہ کو مسلم لیگ (ق) کی جانب سے خصوصی نشستوں پر ممبر اسمبلی نامزد کیا گیا تھا‘۔
مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: قطری خط سمیت اضافی دستاویزات ریکارڈ کا حصہ بنانے کی درخواست منظور
ان کا کہنا تھا کہ دوران تحقیقات یہ بات علم میں نہیں آئی کہ میاں حماد اظہر 29 اپریل 2017 کو عمران خان کی رہائشگاہ پر موجود تھے۔
عرفان منگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ بات میرے علم میں تھی کہ عرفان نعیم منگی کے خلاف ضابطے کی کارروائی چل رہی ہے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر عرفان نعیم منگی کی تعیناتی سے متعلق انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔
تاہم انہوں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ جے آئی ٹی نے مخصوصی ایجنڈے اور متعصب ممبران کے ساتھ شریف فیملی کے افراد کے خلاف تحقیقات کیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی نے ایسی کوئی دستاویز حاصل نہیں کی جس سے ظاہر ہو کہ نواز شریف ایون فیلڈ جائیداد کے بیئرر شیئرز ہولڈ کرتے تھے۔
احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی
یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کیا تھا تاہم اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔
دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔
نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔
بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔
کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔
عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔
ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔
نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔
عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔
بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔
نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔
22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔
6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔
7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔
11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔
19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔
3 جنوری کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔
9 جنوری کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔
16 جنوری کو احتساب عدالت میں سماعت کے دوران 2 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے، تاہم ایک گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔
22 جنوری کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن میں ایون فیلڈز اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔
نیب کی جانب سے دائر اس ضمنی ریفرنس کی مدد سے مرکزی ریفرنس میں مزید 7 نئے گواہان شامل کئے گئے تھے جن میں سے 2 کا تعلق برطانیہ سے تھا۔
23 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ مزید دو گواہان کو طلبی کے سمن جاری کردیئے تھے۔
30 جنوری کو نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر 3 مختلف ریفرنسز میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر نیب کے ضمنی ریفرنس سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔
نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے وکلا کی عدم موجودگی کی وجہ سے 6 فروری کو نیب ریفرنسز کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔
بعد ازاں 13 فروری کو ہونے والی سماعت معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر سوگ کے باعث ملتوی کردی گئی تھی۔
نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت کی کارروائی سے 2 ہفتوں کے لیے استثنیٰ حاصل کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر 15 فروری کو عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔
بعد ازاں 19 فروری کو ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو ریکارڈ سمیت عدالت طلب کیا تھا، جس کے بعد وہ 22 فروری کو عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم بیان ریکارڈ نہیں کراسکے تھے۔
8 مارچ کو احتساب عدالت نے جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے واجد ضیاء کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام دستاویزات کو ایک ایک کرکے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔
20 مارچ کو احتساب عدالت میں واجد ضیاء کی جانب سے بیان ریکارڈ کرانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا تھا جو آج ختم ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں