انتخابات میں عدلیہ سے ریٹرننگ افسران تعینات کرنے کی حمایت
اسلام آباد: حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے فیصلے کی حمایت کی کہ انتخابات میں ریٹرنگ افسران (آر اوز) ماتحت عدالتوں سے منتخب کیے جائیں جبکہ ماضی میں اپوزیشن جماعتوں نے 2013 کے انتخابات میں مذکورہ تجویز کی شدید مخالفت کی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے موقف سامنے آیا کہ ای سی پی کو چاہیے کہ وہ اپنے اسٹاف کو بھی اہمیت دے ناکہ مکمل طور پر ماتحت عدالتوں کے ججز پر انحصار کرے۔
یہ پڑھیں: الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اعداد و شمار کی غلطیاں
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے موقف اختیار کیا کہ انتخابات میں آر اوز یا ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی تعیناتی سے پارٹی کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ آزاد اور خود مختار ای سی پی کی موجودگی میں آر اوز دھاندلی نہیں کر سکتے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا کہنا تھا کہ ای سی پی کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی براہ راست مخالفت نہیں کرے گا کیونکہ پارلیمٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 خود پاس کیا لیکن پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن کو کلی طور پر ماتحت عدالتوں پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے اپنے ملازمین اور سرکاری اداروں کے افسران کی ذمے داریاں حاصل کرنی چاہیے جیسا کہ ایکٹ میں موجود ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ روز عوامی جلسے میں واضح کیا تھا کہ ‘ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کی مکمل حمایت کرتے ہیں کہ انتخابات میں ماتحت عدالتوں کے افسر آر او کے فرائض انجام دیں’۔
اپنے موقف کی حمایت میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہے اور ‘29 اپریل کو پی ٹی آئی کے عوامی جلسے میں شریک ہو کر ثابت کردیں گے کہ وہ عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں’۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے گزشتہ انتخابات میں اپنے بیانات کی بنیاد پر توہین عدالت کا سامنا رہا لیکن میں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تنقید کا مرکز ججز نہیں بلکہ آر اوز تھے’۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کا ایک کروڑ 20 لاکھ ووٹرز کا فرق ختم کرنے کیلئے مہم کا آغاز
واضح رہے کہ ای سی پی نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 50 اور 51 کے تحت رجسٹرارز کو مراسلہ ارسال کیا، جس میں ڈسٹرکٹ اور سیشن ججز، ایڈیشنل سیشن ججز، سینئر سول ججز اور سول ججز کو بطور آر او اور ڈی آر او کی تعیناتی کے حوالے سے فہرست مرتب کرکے ارسال کرنے کو کہا گیا ہے۔
خیال رہے کہ جوڈیشل پالیسی 2009 میں نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی (این جے پی ایم سی) نے انتخابات میں جوڈیشل افسران کو ذمے داری ادا کرنے کی مخالفت کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر حامد علی مرزا نے 2013 کے انتخابات میں بھی ماتحت عدالتوں کے ججز کی تعیناتی کی درخواست پیش کی تھی لیکن کمیٹی نے مسترد کردی تھی، بعد ازاں جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے بطور چیف الیکشن کمشنر دوبارہ التجا کی تو این جے پی ایم سی نے صرف ایک مرتبہ اجازت کی بنیاد پر انتخابات میں عدلیہ کی شمولیت کو قبول کیا۔
دوسری جانب پی پی پی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ پارٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ الیکشن کمیشن آر او کی تعیناتی کے لیے بیوروکریسی اور اپنے افسران پر انحصار کرے لیکن ہمارا مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ اتنے مختصر وقت میں یہ ممکن نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: ایم کیوایم سمیت284 جماعتیں الیکشن کمیشن کی فہرست سے خارج
مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان نے ای سی پی سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات سے قبل اس دھاندلی کا نوٹس لے لیا جس کے تحت لوگوں کو مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ کی حمایتی یافتہ پارٹی میں شمولیت کے لیے مجبور کیا جارہا ہے’۔
انتخابات کی نگرانی کرنے والے ’آزاد اور منصفانہ انتخابی نیٹ ورک‘ (فافین) کے سینئر رکن مدثر رضوی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو ججز پر مکمل انحصار کے بجائے بڑی تعداد میں اپنے آر اوز تعینات کرنے ہوں گے تاکہ انتخابی عمل میں اس کا براہ راست کنٹرول رہے۔
یہ خبر 8 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی