انٹار کٹیکا میں پہلی مرتبہ سبزیاں اگانے میں کامیابی
انٹارکٹیکا وہ براعظم ہے جہاں کا موسم یا ہر وقت کی سردی، فصلوں کی پیداوار کو ناممکن بنا دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں بسنے والے چند افراد کے لیے سبزیاں اور پھل وغیرہ ہر سال دیگر علاقوں سے بھجوائے جاتے ہیں۔
مگر اب وہاں پہلی مرتبہ پھلوں اور سبزیوں کو اگانے میں کامیابی حاصل کرلی گئی ہے۔
یہ کارنامہ جرمن ایرو اسپیس سینٹر (جی اے سی) کے انجنیئرز نے انجام دیا جس کے لیے انہوں نے جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس گرین ہاﺅس تعمیر کیا جس کی بدولت سرد ترین براعظم میں فصلیں کاشت کرنا ممکن ہوگیا۔
اس فارم میں غذاﺅں کو اگانا سال کے ہر مہینے میں ممکن ہے اور تحقیقی ٹیم نے حال ہی میں پہلی فصل اگانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
ایڈن۔آئی ایس ایس نامی گرین ہاﺅس کے اندر موسم کو کنٹرول کرنے کی ٹیکنالوی ہے اور اس کے لیے ورٹیکل فارمنگ کی تیکنیک پر انحصار کیا گیا۔
جس کی تصاویر نیچے دیکھی جاسکتی ہیں۔
اس گرین ہاﺅس کو اکتوبر 2017 میں انٹار کٹیکا منتقل کرنے سے قبل جی اے سی کی جانب سے اس کا تجربہ جرمنی میں اپنے ہیڈکوارٹرز میں کیا تھا۔
135 اسکوائر فٹ کے گرین ہاؤس کے اندر ہر قسم کی فصل اگائی جاسکتی ہے، واضح رہے کہ سرد ترین موسم کے باعث انٹارکٹیکا کی زمین پر فصلوں کو اگانا ناممکن ہے۔
جی اے سی کے سائنسدان پال زیبل نے اس فارم کو انٹارکٹیکا منتقل کیا، جہاں وہ 42 ایل ای ڈی لیمپس کے نیچے پھلوں اور سبزیوں کو اگاتے ہیں۔
کیونکہ اس فارم میں موسم کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، تو پورا سال فصلوں کو اگانا ممکن ہے، حالانکہ اس سے باہر کا درجہ حرارت منفی 100 ڈگری فارن ہائیٹ تک گرجاتا ہے۔
پودوں کو اگنے میں مدد دینے کے لیے محققین اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ان میں پمپ کرتے ہیں جبکہ درجہ حرارت 75 ڈگری فارن ہائیٹ تک رکھتے ہیں۔
یہاں نصب ایل ای ڈی لائٹس سرخ اور نیلی ویو لینتھ پر کام کرتی ہیں، تاکہ فصلوں کو اگانے کے عمل کو تیز کیا جاسکے۔
محققین کا 30 سے 50 مختلف فصلیں اگانے کا منصوبہ ہے جن میں سبز پتوں والی سبزیاں، اسٹرابیری، ٹماٹر اور دیگر شامل ہیں۔
رواں سال اپریل میں سبزیوں کی پہلی مکمل کاشت میں کامیابی حاصل کی گئی۔
سائنسدانوں نے 4 کلو کے قریب سلاد پتہ، 18 کھیرے اور 70 سرخ مولیوں کو اگانے میں کامیابی حاصل کی۔
اگلے ماہ سائنسدان 5 کلو تک پھل اور سبزیاں ہر ہفتے کاشت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اگر انٹارکٹیکا کے سخت موسم میں فصلوں کو اگانے میں مکمل کامیابی حاصل ہوگئی تو یہ طریقہ کار مریخ یا چاند پر بھی غذا کے حصول کے لیے اپنائے جانے کا امکان ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں