• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

شادی سے پہلے نکاح نامہ غور سے پڑھنا کیوں ضروری ہے

جب تک خواتین کے حقوق سے متعلق قانون سازی نہیں ہوتی تب تک ہمیں اپنے موجودہ قانونی حقوق سے مزید آگاہی کی ضرورت ہے۔
شائع April 6, 2018 اپ ڈیٹ April 7, 2018

زندگی میں نہ جانے کتنی بار نہ جانے کتنی دستاویزات پر اپنے دستخط ثبت کیے ہیں۔

لیز، چیکس، کریڈٹ کارڈز رسیدیں، مختلف دستاویزات وغیرہ۔ البتہ اس فہرست میں اسکول سلپ کو شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان پر میں نے اپنی والدہ کے دستخط اپنے ہاتھوں سے ثبت کیے تھے۔ (امی میں معذرت خواہ ہوں۔)

تمام اقسام کی دستاویزات پر آپ کو اپنے مخصوص طرز کے دستخط ثبت کرنے ہوتے ہیں، اس طرح آپ دیگر لوگوں پر ظاہر کرتے ہیں کہ آپ ان سے اتفاق رکھتے ہیں۔ جوان ہونے تک، کثرت کے ساتھ اتنی دستاویزات پر دستخظ کرچکے ہوتے ہیں کہ اس کی اہمیت کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑدیتے ہیں۔ آپ نے نہیں سوچا تو اب سوچیے۔

کیا یہ عقلمندی ہے کہ ایک قانونی معاہدے پر غور سے شرائط پڑھے بغیر ہی دستخط ثبت کردیے جائیں حالانکہ آپ کو بخوبی اندازہ بھی ہو کہ ان شرائط سے کس طرح کے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟ اگر آپ کو ایسی کسی صورتحال کا سامنا ہو تو آپ دستخط کرنے سے انکار کردیں گے۔

آمنہ نے ہمیں بتایا کہ، ’جب میں میرا نکاح ہوا اس وقت میری عمر (24) کافی کم تھی لیکن اس وقت بھی میں جانتی تھی کہ طلاق کا حق مجھے تفویض کیا جا سکتا ہے۔ مجھے ایک بار تو اس بات کا خیال آیا اور میں نے یہ بات اٹھائی بھی، مگر میری بات مسترد کر دی گئی۔ میں بھی محبت میں اس قدر گرفتار تھی کہ شادی ٹوٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی لہٰذا میں نے اس عمل کو نظر انداز کردیا۔ بظاہر تو اپنے حقوق مانگنے کو بھی 'بے شرمی‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔‘

’یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ جب تعلقات میں ناچاقی پیدا ہوئی تو مجھے خلع لینا پڑا جس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے اپنا برائے نام مہر لوٹانا تھا اور میں اب کسی قسم کا نفقہ (خرچ) یا معاوضہ نہیں مانگ سکتی تھی۔ اس قسم کی صورتحال سے دوچار خواتین کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ عقلمندی کا مظاہرہ کریں اور اپنے حقوق کا دفاع کریں۔‘

پڑھیے: پاکستان میں کم عمری کی شادیاں، وجوہات اور اُن کے نقصانات

جبکہ کچھ ایسی بھی خواتین ہیں جنہیں اپنے حقوق کے بارے میں ابتدا سے ہی معلوم نہیں تھا اور بعد میں انہیں پچھتانا پڑا۔ ثنا بھی ان میں سے ایک ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ، ’اپنے پہلے نکاح کے موقعے پر، نکاح نامے پر دستخط ثبت کرنے سے قبل ایک سرسری نگاہ ڈالی تھی۔ مجھے بالکل بھی پتہ نہیں تھا کہ میرے سسرال نے اس میں موجود چند حصوں کو کاٹ دیا ہے۔ مجھے یہ حال ہی میں اس وقت پتہ چلا جب میں نے سوشل میڈیا پر نکاح نامے کے بارے میں پڑھنا شروع کیا اور جب اس حوالے سے اپنے منگیتر سے بات چیت کی۔ ماضی میں اپنی بدحال ازدواجی رشتے سے نکلنے کی کوئی راہ ہی نظر نہیں آ رہی تھی لیکن شکر ہے کہ میرے سابق شوہر نے اپنی دوسری بیوی کے اصرار پر مجھے خود ہی طلاق دے دی، انہوں نے میری اجازت کے بغیر ہی دوسرا نکاح کرلیا تھا۔‘

ان کہانیوں کو سن کر میں سوچتی ہوں کہ، کس طرح اکثر خواتین بغیر سوچے سمجھے اپنی زندگی کے اس نہایت اہم سماجی معاہدے پر اپنے دستخط ثبت کردیتی ہیں، اور اسے پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتیں؟

اور یہ کہ آپ کے نکاح نامے میں کیا کچھ شامل ہے؟ ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے میں نے چند وکلا سے بات کی۔

نکاح نامہ آخر ہے کیا اور یہ کیا ظاہر کرتا ہے؟

نکاح نامہ ایک تحریری معاہدہ ہے جس پر ازدواجی رشتے میں بندھنے والے دو مسلمان اپنی دستخط ثبت کرتے ہیں تا کہ وہ اپنی شادی کو قانونی حیثیت دلواسکیں۔ مسلم عائلی قوانین آرڈینینس 1961 کے تحت، یہ نکاح کا ایک قانونی ثبوت ہے جس میں وہ تمام حقوق اور فرائض لکھے ہوئے ہیں جن پر دلہن اور دلہا دونوں راضی ہوتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ میں خواتین پر نکاح نامے کے بارے میں لاعلمی کا الزام نہیں دے سکتی، کیونکہ ایک عام نکاح نامہ کچھ اس طرح نظر آتا ہے۔

ابھرتی ہوئی خاتون وکیل آمنہ محسن کا کہنا ہے کہ ’ہم جب بھی کوئی سول یا سماجی معاہدے کرتے ہیں تو ہم اسے پڑھتے ہیں۔ نکاح نامے کے حوالے سے بھی ہمیں اسی تصور کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بھی تو ایک معاہدہ ہی ہے، اسی لیے اس پر دستخط ثبت کرنے سے قبل آپ کو اسے پڑھنا ضروری ہے۔‘

’بطور وکلاء، جب بھی ہمیں کوئی معاہدہ ترتیب دیتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہمیں ترتیب دیتے ہوئے اس بات کو ذہن رکھنا چاہیے کہ عدالت میں اس کاغذ کے ٹکڑے کی تشریح کس طرح ہوگی۔ اگر یا جب معاملات میں کوئی ایسا موڑ آجائے اور خراب ہوجائیں کہ دونوں فریقین آپس میں بات کرنے کو تیار نہ ہوں تو ایسے میں ان کا مقدمہ ثالثی کی عدالت میں چلا جاتا ہے اور عدالت ہر ایک لفظ، اور ہر کومے کا جائزہ لیتے ہیں اور وہی آپ کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔‘

پڑھیے: ایماندارانہ بے وفائی

لیکن اس کے برعکس، لفظ نکاح کو قانون سے ثقافتی تناظر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ آپ کا نکاح نامہ ایک ایسا سول معاہدہ ہے جو آپ کرتے ہیں، لہٰذا نکاح کے وقت مذہبی علماء کی موجودگی بھی لازمی نہیں ہے۔

نکاح نامے کی ایک تا 12 تک کی شقیں بالکل کسی عام فارم کی طرح کافی سادہ اور واضح ہیں۔ ان میں آپ کو بنیادی تفصیلات درج کرنی ہوتی ہیں جیسے فریقین اور وکیلوں کے نام، عمر، پتہ وغیرہ۔ جبکہ عام طور پر نکاح نامے کی بقیہ دیگر شقوں کے حوالے سے غلط فہمیاں عام پائی جاتی ہیں۔

حق مہر کے بارے میں آپ کو کیا معلوم ہونا چاہیے

13 سے 16 تک کی تمام شقیں مہر کے حوالے سے سوالات پر مشتمل ہیں، مہر ایک تحفہ ہے جو کہ نکاح کے وقت شوہر اپنی بیوی کو احترام کی ایک نشانی کے طور پر دیتا ہے اور خاتون کی جانب سے طلاق مانگنے پر جب طلاق ہوجائے تو یہ مالی تحفظ کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔

یہ بیوی کا قانونی حق ہے اور شوہر پر فرض، اس لیے حق مہر کو لازمی ادا کیا جانا چاہیے، بھلے ہی بیوی حق مہر کو معاف کیوں نہ کردے۔ حق مہر نقد یا کسی دوسری صورت میں ہوسکتا ہے، کوئی بھی ایسی چیز جو مالی حیثیت رکھتی ہو جیسے زیورات یا زمین۔

مہر کی دو اقسام ہوتی ہیں: فوری (معجل)، جسے ہم بستری سے پہلے یا نکاح کے وقت دینا ہوتا ہے، یا پھر غیر معجل، جسے معاہدے میں دی گئی ایک مخصوص مدت کے بعد، موت یا طلاق کے وقت، یا پھر کسی بھی وقت جب بیوی مطالبہ کرے، تو ادا کرنا ہوتا ہے۔

وکالت کی تعلیم حاصل کر رہی نیل شاہ نواز، جو سماجی کارکن بھی ہیں، کہتی ہیں کہ "ایک بالائی متوسط طبقے یا زیریں متوسط طبقے کی عورت اس بات پر زیادہ بحث نہیں کرتی کہ اسے کتنا مہر چاہیے، اور اگر چاہے بھی تو، تو بھی نہیں، کیوں کہ 'لوگ کیا کہیں گے'۔ اور خواتین جو اس تحفظ کو واقعی استعمال کر سکتی ہیں، جیسے کہ دیہی یا ورکنگ کلاس کی خواتین، انہیں اپنے حقوق کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اختیار تعلیم سے آتا ہے اور اس لیے خواتین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس دستاویز میں کیا ہے۔"

"[مہر کی] رقم مختلف ہوسکتی ہے؛ مثالی طور پر یہ اتنی ہونی چاہیے جتنی کہ عورت معقول انداز میں مطالبہ کرتی ہے مگر خاندانی روایات یا خاتون کی خصوصیات، مثلاً سماجی حیثیت، شکل و صورت اور تعلیم وغیرہ کی بناء پر دونوں فریق اس پر باہمی فیصلہ کر سکتے ہیں۔"

مہر آپ کا حق ہے اور اسے دلہن سے کوئی بھی نہیں لے سکتا۔ آپ کا خاندان یا آپ کے کوئی بھی مرد رشتے دار یہ نہیں حاصل کر سکتے۔ یہ مکمل طور پر بیوی کا حق ہے۔ محبت میں بہتے ہوئے آپ مستقبل میں حالات کے بگڑنے کا نہیں سوچتے، مگر اس کا تعلق ہوشیاری سے ہے۔

اور جہاں کچھ لوگ مانتے ہیں کہ اگر مہر نکاح نامے میں درج نہ بھی ہو تب بھی یہ ایک ذمہ داری ہے اور قانون یہ بیوی کے مطالبے پر دلوا ہی دے گا، مگر میں یہی کہنا چاہوں گی کہ افسوس سے احتیاط بہتر ہے۔

جن شقوں پر آپ کو ضرور نظر رکھنی چاہیے

شق 17 فریقین سے کہتی ہے کہ وہ خصوصی شرائط تحریر کریں مگر یہ شرائط شرعی قوانین یا ملکی قوانین سے متصادم نہیں ہونی چاہیئں۔ ان شرائط میں ماہانہ جیب خرچ سے لے کر شادی کے بعد کام کرنے کی اجازت، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گھر میں کون کتنا کام کرے گا۔

یہ کامیاب شادی کے لیے شوہر اور بیوی کو شرائط طے کرنے کی اجازت دیتی ہے، چنانچہ مجھے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے کہ اکثر اوقات اس حصے کو خالی چھوڑ دیا جاتا ہے۔

طلاق کا حق کیا ہے اور یہ خلع سے کیسے مختلف ہے؟

شق 18 اور 19 طلاق کے حق سے متعلق ہیں۔ پہلی شق اس بارے میں ہے کہ آیا شوہر طلاق کا حق بیوی کو دے رہا ہے یا نہیں، اور دوسری شق اس بارے میں ہے کہ آیا شوہر کا طلاق کا حق کسی انداز سے محدود کیا گیا ہے۔

واضح طور پر قانون طلاق کا حق خواتین کو دیتا ہے مگر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ اکثر اوقات ان حصوں کو مکمل طور پر قاضی کی جانب سے خاندان کے افراد کی جانب سے کاٹ دیا جاتا ہے کیوں کہ وہ شادی کی شروعات کے مبارک موقع پر اس کے اختتام کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتے، یا پھر سمجھتے ہیں کہ تعلقات خراب ہونے کی صورت میں خاتون کے پاس خلع کا حق تو ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

مگر یاد رہے کہ خلع مشروط ہوتا ہے اور اپنے شوہر کو طلاق دینے کے برابر نہیں ہے

خلع تب ہوتا ہے جب ایک عورت عدالت میں اپنی شادی کی تحلیل کا مرحلہ شروع کرتی ہے، اور یہ شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے بشرط یہ کہ عورت اپنے مہر اور نان نفقے سے دستبردار ہوجائے۔ آپ کو ایک وکیل کرنا ہوتا ہے، کیس تیار کرنا ہوتا ہے، اور پھر جج فیصلہ کرتا ہے کہ آپ کو خلع دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

پڑھیے: نکاح نامہ کی شقوں سے اکثر خواتین ناواقف

مگر جب آپ کو طلاق کا حق دیا جائے تو آپ انہیں قانونی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے باآسانی شادی ختم کر سکتی ہیں جنہیں عام طور پر مرد استعمال کرتے ہیں۔

آپ طلاق نامہ تحریر کریں، یونین کونسل میں پیش کریں اور اگر مفاہمت کی کوشش ناکام ہوجائے تو آپ کو تین ماہ کے اندر اندر طلاق کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔

ہائی کورٹ کی وکیل سارہ ملکانی کہتی ہیں "طلاق کا حق انتہائی اہم ہے، کیوں کہ اگر آپ اپنی شادی تحلیل کروانا چاہتی ہیں تو اس حق کے ذریعے پورا مرحلہ آسان ہوجاتا ہے۔ علیحدگی میں کم وقت لگتا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ آپ کو اپنے مہر سے دستبردار نہیں ہونا پڑتا۔"

ہائی کورٹ کی وکیل اور سماجی کارکن صباحت رضوی کہتی ہیں کہ "کچھ مولویوں نے اس صورت میں نکاح پڑھانے سے ہی انکار کر دیا ہے اگر یہ حصے کاٹ دیے جائیں۔ خلع حاصل کرنا ایک تکلیف دہ مرحلہ ہے اور ان میں اتنا استحصال کیا جاتا ہے کہ آپ یقین نہیں کر سکتیں۔ اگر خواتین کو صرف طلاق کا حق دے دیا جائے تو اس تمام خرابی سے بچا جا سکتا ہے۔"

شق 20 اور 21 پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے مرد کے مزید شادیاں کرنے سے متعلق ہیں۔

شق مزید کہتی ہے کہ اگر ایک مرد پہلے ہی شادی شدہ ہے تو مسلم عائلی قوانین آرڈینننس 1961 کے تحت اسے یہ دکھانا ہوگا کہ وہ یونین کونسل سے ایک اور شادی کرنے کی اجازت حاصل کر چکا ہے۔ اس کے بدلے میں یونین کونسل چاہتی ہے کہ اسے موجودہ بیوی یا بیویوں کی اجازت کا ثبوت فراہم کیا جائے۔ مگر یہ مدِنظر رکھنا چاہیے کہ اگر یہ سامنے آ جائے کہ پہلی بیوی نے اجازت نہیں دی تھی، تب بھی دوسری شادی کو منسوخ نہیں کیا جائے گا۔

ہاں مگر وہ اس چیز کو خلع حاصل کرنے یا اگر اسے حق دیا گیا ہے تو طلاق حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ اور اگر شوہر نے دوسری شادی رسمی کارروائیوں کے بغیر کی ہے تو یہ جرم ہے اور اس کی سزا جیل اور جرمانہ دونوں ہو سکتی ہے۔

کیا نکاح نامہ میں لکھی گئی تحریر عدالت میں پیش کی جا سکتی ہے؟

ہاں بھی اور نہیں بھی۔ نکاح نامہ بہت زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ ہمیں درحقیقت ملکی قوانین کے تحت بہتر تحفظ کی ضرورت ہے۔

سارہ ملکانی کہتی ہیں: "نکاح نامہ بذاتِ خود ایک بہت ہی بنیادی معاہدہ ہے اور آپ اس میں اضافے کر سکتے ہیں، مگر میرے خیال میں کچھ شقوں، مثلاً خصوصی شرائط اور حقِ طلاق سے متعلق زیادہ آگاہی ہونی چاہیے۔ ہمارے تمام حقوق اور ذمہ داریاں نکاح نامے میں نہ لکھی جا سکتی ہیں اور نہ لکھی جانی چاہیئں۔ ہمیں ضرورت مضبوط قوانین کی ہے تاکہ ایسی صورتحال میں خواتین کو بہتر تحفظ حاصل ہو۔ نان نفقے اور جائیداد کے متعلق ہمارے اپنے قوانین یہ تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں، اور یہ مسائل اور تفریق سے بھرپور ہیں، اس لیے انہیں نکاح نامے میں شامل کرنے سے فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ انہیں عدالت میں ثابت کرنا ایک مکمل طور پر الگ کہانی ہے۔"

"ہاں مگر آپ خصوصی شرائط لکھیں اور انہیں پورا نہ کیا جائے، تو یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور آپ کو عدالتوں سے کم از کم کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔"

جب تک ہمارے ملک میں خواتین کے حقوق سے متعلق قانون سازی نہیں ہوتی تب تک ہمیں اپنے موجودہ قانونی حقوق سے مزید آگاہی کی ضرورت ہے۔


کچھ نام اور تفصیلات شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کر دی گئی ہیں۔

— خاکہ بشکریہ فہد نوید

انگلش میں پڑھیں

انعم رحمان

انعم رحمان ڈان ڈاٹ کام کی اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔