• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
مولانا کوثر نیازی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ۔
مولانا کوثر نیازی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ۔
شائع April 4, 2018 اپ ڈیٹ April 4, 2019

پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک اہم کتاب: 'ذوالفقار علی بھٹو'

بلال کریم مغل

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ آپ چاہے بھٹو کے حامیوں سے بات کریں یا مخالفین سے، ان دونوں میں ایک چیز یکساں پائیں گے اور وہ ہے بھٹو کے حوالے سے معلومات کی کمی۔ ہمارے 71 سالہ قومی سفر میں چند سالوں کے لیے رہنما رہنے والے بھٹو کے بارے زیادہ تر لوگ بھٹو کے بارے میں کم جانتے ہیں، مگر انہی کی شخصیت وہ ہے جس پر آج تک سب سے زیادہ بحث ہوتی ہے۔

زیرِ نظر کتاب 'دیدہ ور کی داستانِ حیات، ذوالفقار علی بھٹو' ان کے دیرینہ رفیق اور بھٹو دور میں وزیرِ مذہبی امور رہنے والے مولانا کوثر نیازی کی تحریر ہے۔ بھٹو کی 39 ویں برسی پر مولانا کوثر نیازی کی اس کتاب کا مطالعہ حامیوں اور مخالفین دونوں ہی کے لیے مفید رہے گا، اور اگر کسی بھی حوالے سے آپ کے خیالات بدلنے میں ناکام رہے تو بحث کے لیے چند نئے دلائل ضرور مل جائیں گے۔

سیاست میں آمد اور ابتدائی سال

سوانح طرز پر لکھی گئی اس کتاب کا دیباچہ نہایت دلچسپ ہے جس کا اقتباس اس مضمون کے آخر میں آئے گا۔ کتاب کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو سے ہونے کے بجائے ان کے خاندانی حالات، سر شاہنواز بھٹو کی متحدہ ہندوستان میں سیاسی اہمیت اور بھٹو خاندان کے انگریز دور میں اثر و رسوخ سے ہوتا ہے اور وہاں سے یہ رخ بھٹو کی تعلیم، وکالت کی پریکٹس اور پھر سیاسی پرورش کی جانب مڑ جاتا ہے۔

بھٹو کے مخالفین کی طرف سے ایک الزام جو ان پر عائد کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ انہیں سیاست اور حکومت میں لانے والے ایک فوجی آمر جنرل ایوب خان تھے، جن کے کندھوں پر پیر رکھ کر بھٹو نے سیاست میں اپنی جگہ بنائی مولانا کوثر نیازی واضح کرتے ہیں کہ بھٹو کسی سفارش کے نتیجے میں کابینہ میں نہیں آئے۔ بلکہ جہاں سر شاہنواز بھٹو سندھ کی سیاست اور جونا گڑھ کی وزارت میں پہلے ہی اتنے سرگرم تھے، وہاں بھٹو کو سیاست میں آنے کے لیے کسی کے کندھے کی ضرورت نہیں تھی۔

پڑھیے: بھٹو کی پھانسی: انصاف یا عدالتی قتل؟

اس کے برعکس انہیں وزیرِ اعظم چوہدری محمد علی کے دور میں اقوامِ متحدہ جانے والے ایک وفد کے ساتھ بھیجنے کی تجویز پیش کی گئی اور بعد میں وہ وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی کے دور میں 1957ء میں پہلی بار اقوامِ متحدہ گئے جہاں انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کی اور اس کے بعد 1958ء میں اقوامِ متحدہ کی کانفرنس برائے سمندری قوانین میں شرکت کے لیے گئے اور یوں انہوں نے پہلے ہی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بلند حیثیت حاصل کرلی تھی۔

کتاب کا سرورق
کتاب کا سرورق

ایوب کی وزارت سے ایوب کی مخالفت کا سفر

1958ء سے 1969ء تک کے واقعات نہایت دلچسپ رہے ہیں۔ اسی دوران پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پہلی جنگ چھڑی، روس کے ساتھ ہمارے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی، چین اور ایفروایشیائی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات مضبوط ہوئے، اور بھٹو نے اسے جسے وہ اسلامی سوشلزم کہتے تھے کے فلسفے کے خد و خال وضع کیے۔ کتاب میں ان سب امور پر اور بالخصوص اسلامی سوشلزم کے چبھتے ہوئے موضوع پر سیرِ حاصل بحث کی گئی ہے۔

1967ء میں بھٹو کی عوامی مہم کے آغاز سے 1970ء تک کے انتخابات تک بھٹو نے پورے ملک میں کئی دورے کیے اور کے دوران انہیں بھرپور عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ کچھ جگہوں پر ان پر حملے بھی ہوئے جس کا الزام ظاہر ہے کہ مصنف کے نزدیک فوجی حکومت پر اور ان گروہوں پر ہے جن کے مفادات کو بھٹو کی سیاست سے خطرہ تھا۔ مولانا کوثر نیازی اس دلچسپ دور کو بڑی خوبصورتی سے قلمبند کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:

(ملتان کے ہوٹل) "شیزان کے استقبالیے میں تشریف لے جانے کے لیے بھٹو نے جس راستے کا انتخاب کیا، اس پر غنڈے مقرر کر دیے گئے تھے کہ وہ جگہ جگہ بھٹو کی کار پر پتھراؤ کریں اور اور اگر وہ پھر بھی نہ رکھیں تو ان پر حملہ کر دیا جائے۔ مگر جب بھٹو پروگرام کے مطابق دوسرے راستے سے شیزان کے اندر پہنچ گئے تو حکام کو اس کی اطلاع ملی۔ اس وقت تک سپاسنامہ شروع کیا جا چکا تھا۔ بھگدڑ کے عالم میں غنڈوں کو شیزان کے باہر جمع کیا گیا۔ ان دنوں ہوٹل کی عمارت زیرِ تعمیر تھی۔ ابھی سپاسنامہ شروع ہی ہوا تھا کہ کھڑکیوں اور شیشوں پر اینٹ پتھروں کی بارش شروع ہوگئی۔ غنڈے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئے۔ باہر پولیس ان کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی۔ استقبالیے میں شریک مہمانوں نے آگے بڑھ کر غنڈوں سے دست بدست لڑائی شروع کر دی۔ شیزان کے بیروں نے بھٹو صاحب کے آگے میزیں کھڑی کر دی تھیں۔ ان کے نظروں سے اوجھل ہوجانے کی وجہ سے کسی نے کہا، "بھٹو صاحب بھاگ گئے۔" اور بھٹو صاحب نے میز کو ایک طرف ہٹا کر ڈانٹتے ہوئے کہا، "شٹ اپ۔"

مولانا کوثر نیازی اور ذوالفقار علی بھٹو
مولانا کوثر نیازی اور ذوالفقار علی بھٹو

سقوطِ ڈھاکہ اور شیخ مجیب الرحمٰن کے 6 نکات

بھٹو کو سب سے زیادہ جس چیز کا الزام دیا جاتا ہے، وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ہے۔ انہیں اس کا مکمل قصوروار بھی ٹھہرایا جاتا ہے اور مکمل طور پر اس سے بری بھی کیا جاتا ہے۔ حسبِ توقع اس کتاب میں انہیں قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا، مشرقی پاکستان کے ساتھ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں روا رکھے جانے والے سلوک کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، اور شیخ مجیب الرحمٰن کے 6 نکات کی کہانی بھی تفصیل سے درج کی گئی ہے مگر شیخ مجیب الرحمٰن کے مطالبات کو ایک دھوکہ قرار دیا گیا ہے۔

شیخ مجیب الرحمٰن کے 6 نکات مختصراً یہ تھے:

1: وفاقِ پاکستان کو قراردادِ لاہور کی اصل روح کے مطابق قائم کیا جائے

2: وفاق کے پاس صرف دفاع اور خارجہ امور ہوں، باقی تمام امور صوبوں کے پاس ہوں

3: ملک کے دونوں بازوؤں کے لیے الگ کرنسیاں اور الگ مرکزی بینک متعارف کروائے جائیں

4: ٹیکس کی وصولی کا مکمل اختیار صوبوں کے پاس ہو جس میں سے وہ وفاق کو اخراجات کے لیے حصہ دیں

5: دونوں بازوؤں کے لیے زرِ مبادلہ کے الگ الگ کھاتے قائم کیے جائیں اور صوبوں کو دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی روابط قائم کرنے کا اختیار ہو

6: مشرقی پاکستان کی اپنی فوج یا پیرا ملٹری فورس ہو

پڑھیے: کیا بھٹو کو سیلاب نے ڈبویا تھا؟

مولانا کوثر نیازی نے اس کتاب کے ذریعے اس پوری کہانی کو بھٹو کے نکتہءِ نظر سے پیش کیا ہے، اور یہ نکتہءِ نظر صحیح ہے یا غلط، مگر کتاب میں وہ جزئیات ضرور دی گئی ہیں جن سے واقفیت تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ تقریباً سبھی اس بات کو جانتے ہیں کہ بھٹو نے اپنی پارٹی کے اراکین کو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے ڈھاکہ جانے سے روکا، مگر باب 'مشرقی پاکستان کی علیحدگی' میں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا کوثر نیازی لکھتے ہیں:

(عوامی لیگ کے رہنما) "تاج الدین احمد نے 21 دسمبر کو ہی اپنے بیان میں یہ پرزور اعلان کیا کہ ہماری جماعت واحد اکثریتی جماعت ہے اور ہم مرکز میں حکومت بنانے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے یہاں (مغربی پاکستان) کی شکست خوردہ جماعت (جماعتِ اسلامی) کو بھی اشارہ تھا کہ اگر وہ بھٹو سے عدم تعاون کی راہ پر چلیں تو انہیں اقتدار میں حصہ دیا جا سکتا ہے۔

"معاملہ اگر صرف اقتدار تک محدود ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی، لیکن اصل مسئلہ حکومت سے پہلے دستور بنانے کا تھا اور تمام صوبوں کی رضا حاصل کیے بغیر صرف ایک صوبے کی منتخب جماعت، خواہ وہ اکثریتی صوبہ ہی کیوں نہ ہو، اپنا دستور نافذ کرنے کا حق نہیں رکھتی تھی۔ اور پھر عوامی لیگ کے 6 نکات ملک کی سالمیت پر بھی اثر انداز ہونے والے تھے لہٰذا ان کے بارے میں کسی مفاہمت پر پہنچنا لازمی تھا۔

"اب یہ بات کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ 3 مارچ کے ڈھاکہ سیشن میں عوامی لیگ کا مرتب کردہ 6 نکات پر مبنی آئین سادہ اکثریت کے بل پر فوری طور پر منظور کر لیا جائے گا۔ اس کا طریق کار یہ مرتب کیا گیا تھا کہ مغربی پاکستان کے نمائندوں کا گھیراؤ کر لیا جائے اور انہیں اس وقت تک نہ چھوڑا جائے جب تک وہ عوامی لیگ کے یکطرفہ آئین پر انگوٹھا نہ لگا دیں۔ دوسری جماعتیں، قیوم لیگ کے علاوہ، اس سازش میں شریک ہوجائیں اور یوں مشرقی پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پانچوں صوبوں کی علیحدگی کو آئینی حیثیت دے دی جائے۔ آخر 28 فروری کو مینارِ پاکستان کے سائے میں 10 لاکھ شہریوں کے عظیم الشان اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے 3 متبادل تجاویز پیش کر دیں:

1: عوامی لیگ کی طرف سے 6 نکات پر مفاہمت کی کوئی یقین دہانی

2: آئین سازی کے لیے 120 دنوں کی پابندی ختم کر دی جائے۔ یا

3: آئین ساز اسمبلی کا اجلاس چند دنوں کے لیے ملتوی کر دیا جائے

ان تینوں تجاویز میں سے کسی ایک کے تسلیم نہ ہونے کی صورت میں انہوں نے پیپلز پارٹی کی طرف سے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا اعلان کر دیا۔"

مولانا کوثر نیازی لکھتے ہیں کہ بھٹو کے مطابق 6 نکات سے صرف مشرقی پاکستان کو خود مختاری نہیں ملنی تھی بلکہ اس کی بناء پر بننے والے آئین میں تمام صوبوں کو وہی حیثیت ملتی جو مشرقی پاکستان کی ہوتی، نتیجتاً ایک پاکستان نہیں بلکہ پانچ خود مختار ریاستیں سامنے آتیں، جو بھٹو کے لیے قابلِ قبول نہ تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے 6 نکات پر بحث کرتے ہوئے ہمیں اس نکتے کو ضرور مدِ نظر رکھنا چاہیے۔

فضل الہٰی چوہدری، شیخ مجیب الرحمٰن، ذوالفقار علی بھٹو. — اے پی
فضل الہٰی چوہدری، شیخ مجیب الرحمٰن، ذوالفقار علی بھٹو. — اے پی

جو چیز اس کتاب کو مزید دلچسپ بناتی ہے وہ اس میں شامل بھٹو، عالمی رہنماؤں اور مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل کے خطوط ہیں جن میں علاقائی اور بین الاقوامی حالات پر سیرِ حاصل تجزیے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مولانا کوثر نیازی نے 'بھٹو اور برٹرینڈ رسل' کے نام سے ایک مکمل باب قائم کیا ہے جس میں برٹرینڈ رسل کے بین الاقوامی جریدوں کے نام خطوط بھی نقل کیے گئے ہیں جن میں انہوں نے بھٹو اور ان کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے ان پر تنقید کا جواب دیا ہے۔

پڑھیے: بھٹو نام کا پردہ کب تک ساتھ دے گا؟

مصنف کے تاثرات

مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب کا عنوان 'دیدہ ور' رکھا ہے۔ وہ اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو دیدہ ور کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی دور اپنے براہیم کی تلاش میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ لمحہءِ بت شکنی سے بہت پہلے اسے جنم دے لیا کرتا ہے۔

ظاہر ہے کہ اس کتاب میں بھٹو کی تعریفیں موجود ہیں، ان کے خیالات کو مزید وضاحت و صراحت اور اس وقت کے حالات کے سیاق و سباق میں پیش کیا گیا ہے مگر اپنی اگلی کتاب 'اور لائن کٹ گئی' میں مصنف نے ان عوامل کا بھی تجزیہ کیا ہے جو مارشل لاء کی وجہ بنے، اور جن میں مصنف کے بقول بھٹو کی اپنی غلطیاں بھی شامل ہیں۔ ہمیں مصنف کی انصاف پسندی کی داد اس بات پر دینی چاہیے جس کا ذکر وہ کتاب کے دیباچے میں کرتے ہیں:

"کسی قائد کو دیدہ ور اور لیڈر ماننے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ اسے منزہ عنِ الخطا اور ایک مافوق البشر شخصیت بھی تسلیم کیا جائے۔ بڑے آدمیوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں اور اگر بعد کے مراحل میں اس طرح کے بعض امور کی میں نے نشاندہی کی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے اپنے "دیدہ ور" قائد کے مقام اور منزلت میں کمی کی ہے۔ ایک سیاسی رفیق اور ایک جاگیر پر کام کرنے والے مزارع کے حقوق و فرائض میں جو فرق روا رکھا جانا چاہیے، وہ نظر میں ہو تو قارئین کو اس سلسے میں کوئی اشکال لاحق نہ ہوگا۔"

اگر ہم سب اپنی زندگیوں میں مولانا کوثر نیازی کے اس کلیے پر عمل کریں تو سیاسی، مذہبی و معاشرتی، ہر طرح کے اختلافات کو باآسانی ختم کر کے معقولیت پر مبنی بیانیہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے تمام افراد کو مولانا کوثر نیازی کی یہ کتاب اس موضوع پر حرفِ آخر سمجھے بغیر ضرور پڑھنی چاہیے۔


کتاب: دیدہ ور کی داستانِ حیات، ذوالفقار علی بھٹو

پبلشر: احمد پبلیکیشنز، لاہور

ابواب و صفحات: 20، 263

قیمت: 250 روپے


بلال کریم مغل ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: bilalkmughal@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بلال کریم مغل

بلال کریم مغل ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔