مرزا باقی بیگ، جن کے مخالفین نے بھی ان کی تعریف کی
دور حاضر میں تاریخ پر تحقیق کرنے والے تاریخ کی دستیاب کُتب کی مدد سے اپنا تحقیقی کام انجام دیتے ہیں۔ جب تاریخ کے کسی پہلو، واقعے یا شخصیت پر صرف ایک ہی تحریری حوالہ دستیاب ہو تو ہمیں مجبوراً اس پر ہی منحصر رہنا پڑتا ہے۔
اگر خوش قسمتی سے ایک سے زائد تحریری حوالے یا کُتب مل جائیں تو محقق واقعی نصیبوں والا ہے، یوں اسے تاریخ کا قریب سے تجزیہ کرنے اور اصل حقائق تک پہنچنا اور دیگر لوگوں تک پہنچانا کافی آسان ہوجاتا ہے۔
کچھ اسی طرح سندھ میں ارغُونوں، ترخانوں اور مُغلوں کے ادوار کی تاریخ پر کام کرنے والے بھی کافی خوش نصیب ہیں کہ جن کے پاس ان ادوار کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک سے زائد کتابیں موجود ہیں۔
مرزا عیسیٰ ترخان ایک بُردبار اور صبر و تحمل کے پیکر تھے۔ وہ شاہ بیگ ارغون کی چھاؤں میں بڑے ہوئے تھے۔ وہ یقیناً ایک بہادر سپاہی تھے اور اُنہیں ’ترخان‘ کا اعزاز اپنے آبا ؤ اجداد سے ورثے میں ملا تھا۔ مرزا شاہ حسن ارغون ابھی حیات تھے مگر حکیموں کے مشورے پر وہ پانی کے اُوپر رہتے تھے کہ زمین پر رہنا اُن کے لیے موت کا پیغام تھا ، چنانچہ اُن کی کشتی ہر وقت دریائے سندھ پر ہچکولے کھاتی کبھی سہون چلی جاتی تو کبھی ٹھٹھہ پہنچ جاتی۔
بادشاہ سلامت تخت و تاج سے دور ہو تو ریاست میں بغاوت کے بیجوں کو نفرت کی گرم ہوا مل جاتی ہے اور وہ جڑ پکڑ لیتے ہیں، یہاں بھی کچھ ایسا ہوا۔ 1554ء میں ارغونوں اور ترخانوں نے مل کر مرزا عیسیٰ کو اپنا سردار چُن لیا۔ ویسے تو مرزا عیسیٰ (اول) کے 8 بیٹے اور 5 بیٹیاں تھیں مگر ننگر ٹھٹھہ کے سیاسی منظرنامے میں ہمیں اُن کے تین بیٹوں، مرزا صالح بیگ، مرزا باقی بیگ اور مرزا جان بابا کا کردار کافی متحرک نظر آتا ہے۔
یہ پہلی مغل نسل تھی جن کی والدہ مقامی سندھی خاندان سے تھیں۔ ’مرزا جان بابا‘ جو اپنے بھائی کے کہنے پر قتل ہوا، اُس کا ذکر پھر کبھی ضرور کریں گے، مرزا محمد صالح اور مرزا باقی بیگ جو آپس میں بھائی تو تھے مگر ان کی آپس میں کبھی نہیں بنی۔ جبکہ مرزا عیسیٰ نے ان دونوں بھائیوں کی تَربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اُن کی تربیت کے لیے مُلاں بہبود، شیرنگ خان اور فتح خان کو مقرر کیا گیا تھا۔
یہ شاید مرزا عیسیٰ کی بدنصیبی تھی کہ ان کی شخصیت میں شامل صبر و تحمل اور برداشت کی خاصیت اُن کے بیٹوں میں مُنتقل نہ ہو سکی۔ مرزا صالح بے وقوف اور شیخی مارنے کا فن رکھتے تھے۔ وہ خیالوں خیالوں میں اکبر بادشاہ کے دربار میں جا پہنچتے۔
مرزا باقی جذباتی ضرور تھے مگر وہ ایک ذَہین انسان تھے، اُنہیں حکومت کرنے کا جنُون کی حد تک شوق تھا مگر جب تک نَصیبوں کے آسمان پر قِسمت کی فاختہ پَر نہ پھڑپھڑائے تب تک جنون و جذبات کو حقیقت کو روپ دینے کا موقع نہیں ملتا۔ دو بھائیوں کی اس مخالف طبیعوں نے انہیں ایک ہونے نہیں دیا البتہ ایک دوسرے کا دُشمن بنادیا۔ مرزا عیسیٰ ترخان، مرزا باقی کے مقابلے میں مرزا صالح کو زیادہ چاہتے تھے۔ باپ کی اس چاہت کی وجہ سے مرزا صالح کو کھُلی چھوٹ حاصل ہوئی اور وہ حکومت کے تمام معاملات چلانے لگے۔
اس کا نزلہ مرزا باقی بیگ پر جا گرا۔ مرزا صالح نے اپنی حکومت میں اُن کے رہنے کے لیے زمین تنگ کردی۔ مرزا عیسیٰ اپنے چھوٹے بیٹے مرزا جان بابا کو سب سے زیادہ چاہتے تھے۔ مرزا صالح کو جب یہ لگا کہ والد کی اپنے چھوٹے بیٹے کی چاہت اس کے لیے کوئی مصیبت کھڑی کرسکتی ہے تو اُنہوں نے جان بابا سے تُرش رویہ رکھا، وہ اس رویے کی تلخی نہ سہہ کر ’ونگو‘ کی طرف اپنے ماماؤں کے پاس چلے گئے، جہاں اُنہوں نے سمیجوں میں سے شادی کی جس سے مرزا عیسیٰ ثانی پیدا ہوئے جو اپنے زمانے کے ایک نامور حاکم اور ایک اچھے انسان ثابت ہوئے۔
مرزا صالح کے لیے اب کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اُنہوں نے اپنے باپ مرزا عیسیٰ کو اتنا مجبور کردیا کہ وہ انہیں زیادہ کچھ کہہ نہ سکے اور خود سُفید و سِیاہ کا مالک بن بیٹھے۔ مرزا باقی کی ٹولی میں 4 سے 5 لوگ تھے، جن میں خمیسو قاضی، چھتو جولی، خلیل خدمتگار اور مل ھندو اہم نام ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو انتہائی مُشکل تَرین حالات میں مرزا باقی کے ساتھ رہے، یہ ان کا کمال تھا۔
مرزا باقی کا کمال یہ تھا کہ اچھے دنوں میں انہوں نے اَپنے ساتھیوں کو خود سے کبھی جدا نہیں کیا۔ جب مرزا باقی کو ان کے بھائی نے سندھ سے بھگا دیا تو وہ کَچھ کی طرف نکل پڑے۔ راستے میں انہیں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کی بدحالی، بُھوک اور پریشانی کا اندازہ اس واقعے سے لگائیں کہ، مُسافرت کے دوران مرزا باقی بیگ سخت بُھوک کی وجہ سے ایک درخت کے نیچے کپڑا منہ پر ڈالے لیٹے ہوئے تھے، اتفاق سے ان کے ایک ساتھی کو باجرے کے خوشے کہیں سے ملے، ان کا ساتھی بھوک میں انہیں کچا چبانے لگا۔
مرزا نے اپنا کپڑا منہ سے ہٹاکر اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ ’کیا کھا رہے ہو؟‘ اُنہوں نے جواب دیا کہ، ’ہم جو کھا رہے ہیں وہ آپ کے شایان شان نہیں۔ یہ سُن کر مرزا نے کہا، ’تم یہ کیا کہتے ہو، کیا تم مجھے فرشتہ سمجھتے ہو کہ میں بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتا ہوں جو کچھ بھی تم کھا رہے ہو میرے لیے بھی لاؤ۔‘ پھر انہوں نے بھی باجرے کے ان چند دانوں سے اپنا پیٹ بھرا۔
ایسی روایات ہمیں ’تاریخِ طاہری‘ کے طاہر محمد نسیانی سے سُننے کو ملتی ہیں۔ مرزا جب کَچھ کے قریب پہنچے تو اُن کے ایک ساتھی ’چھتو جولی‘ کِسی کی بکری چُرا کر لے آئے اور بکری کو ذبح کرکے، ٹکڑے کرکے وہ آگ پر پکا رہے تھے۔ اتنے میں بَکری کا مالک، بکری کے پیروں کے نشانات دیکھتا وہاں تک پہنچا اور اس ٹولی کو پکڑ کر وہاں کے حاکم ’کھنگھار‘ کے پاس لے گیا۔
کھنگھار نے مرزا باقی کو پہچان کر اُنہیں ایک شہزادے کی طرح عزت و احترام دیا اور ’صاحب سموں‘ نامی جاڑیجا قوم کے ایک معزز فرد نے اپنی بیٹی ’بائی جاڑیجی‘ سے مرزا باقی کا نکاح کروایا، جن سے بعد میں ’مرزا مُظفر بیگ‘ پیدا ہوئے جو بدین کے حاکم بنے۔
مرزا باقی ایک عرصے تک وہاں قیام پذیر رہے اور سیاسی حوالے سے اس تگ و دو میں رہے کہ کسی بھی حالت میں کَچھ کے سردار ان کی مدد کریں اور وہ مرزا صالح سے زیادہ نہیں تو کم از کم بدین کی حکومت تو چھین لیں۔
آخر اُن کی یہ کوشش کامیاب ہوئی اور راجپوتوں کا ایک لشکر تیار ہوا جس میں مرزا باقی کے سُسر نے اہم کردار ادا کیا اور ’رائے کنگھار‘ نے اس جنگ کے لیے اپنا لشکر دیا۔ ’میرک‘ لکھتے ہیں کہ، ’راجپوتوں کا ایک لشکر تیار کیا گیا، تاکہ وہ بدین پہنچ کر سرکار بدین و چاچکان کو بزور شمشیر مرزا محمد صالح کے حکام سے لے لیا جائے۔
اس نیت سے جب مرزا محمد باقی بدین کے قریب پہنچے تو مرزا محمد صالح مُغلوں اور ٹھٹھہ کے دوسرے قبائل کا لشکر ساتھ لے کر ان سے مقابلے کے لیے نکلے۔ دونوں نے جنگ کے لیے صفیں آراستہ کیں۔ جنگ ہوئی مگر مرزا باقی کے سپاہیوں نے میدان میں کوئی بڑا تیر نہیں مارا اور اس طرح مرزا باقی اپنے بھائی کے ہاتھوں نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ شکست خوردہ لوٹے۔
اِس ناکامی کے بعد مرزا باقی انتہائی مایوسی کی کیفیت میں چلے گئے۔ کُچھ وقت کَچھ میں رہنے کے بعد وہ سلطان محمود کوکلتاش سے مدد لینے کے لیے بکھر جا پہنچے۔ مگر وہاں مرزا کے باپ اور سلطان محمود کے درمیان کیا گیا وہ معاہدہ بیچ میں آگیا، جس میں ان دونوں نے ایک دوسرے کے علاقوں پر فوج کشی نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔
مرزا نے محمود سے کہا، ’مجھے جو کچھ عرض کرنا تھا، وہ میں نے آپ کو اپنے باپ کی جگہ سمجھ کر کردیا۔ اب آپ کوئی ایسی تدبیر نکالیے کہ میں اس فلاکت و نکبت سے نجات پاؤں کہ اس زندگی و شرمندگی سے مرنا بہتر ہے۔۔‘ سُلطان محمود نے اُسے صبر کرنے کی تلقین کی اور اپنے پاس رہنے کا مشورہ دیا۔
بدین کے قریب ان بھائیوں کی جنگ 1560ء میں ہوئی تھی۔ اس جنگ کے 3 برسوں بعد گرمیوں کے ایک تپتے دن قسمت نے عجیب فیصلہ کیا۔
تاریخ طاہری میں رقم ہے کہ، ’مُرید نامی جت جو بلوچ تھا، مِرزا صالح نے اس کے بعض اعزہ و اقربا کو قید میں ڈال دیا تھا اور اس کے باپ کو قتل کردیا تھا۔ اس بنا پر مُرید جت کو مرزا صالح سے سخت کینہ تھا۔ اپنے قوم اور قبیلے سے کہتا تھا کہ، ’جب تک مرزا صالح کو بازار کے بیچ میں قتل نہ کروں گا تب تک اپنے سر پر دستار نہیں رکھوں گا۔‘
اس لیے وہ گاؤں سے ٹھٹھہ آیا اور بازار میں چاقو کو تیز کرتے ہوئے خودبخود بڑبڑایا کرتا تھا کہ، ’ہاں اے چاقو! تو کام کرے گا یا نہیں، اور ہاں اے دل! وقت پر مضبوط رہنا، تجھ سے موقعے پر بے دلی اور کم ہمتی کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔‘ شہری اور سپاہی اس کی یہ باتیں سُن کر اسے دیوانہ جانتے اور آس پاس کھڑے لڑکے اس کا مذاق اُڑاتے۔
ایک دن موقع پاکر عین اُس وقت جب مرزا صالح گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے مَحل کی طرف جا رہے تھے، وہ چھُری کو کاغذ میں لپیٹ کر فریادیوں کی طرح ’فریاد فریاد‘ کا نعرہ بلند کرتا ہوا آیا، مرزا کے چوبدار اس کی عرضداشت لینے کے لیے اس کی طرف دوڑے لیکن اُس نے یہ کاغذ کسی کو نہیں دیا اور کہا کہ، ’میں خود اِسے مرزا کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں اور کُچھ زبانی بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔‘
یہ سن کر مرزا نے چوبداروں کو حُکم دیا کہ، اسے مت روکو، آنے دو۔ جب وہ قریب پہنچا تو اس نے کاغذ میں لپٹی چھری نکال کر مرزا کے پیٹ کو پھاڑ ڈالا۔ فوراً چوبداروں نے مرید کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ یہ واقعہ ہفتے کے دن 17 اپریل 1563ء پیش آیا۔
مرزا صالح کا قتل، مرزا باقی کے لیے اُن کی زندگی کی سب سے بڑی مشکل کا خاتمہ تھا۔ اس کے بعد ماہ بیگم کے اِصرار پر مرزا عیسیٰ نے اپنے بیٹے مرزا باقی کو اپنے پاس بلانے کے لیے مرزا صالح کے متعلق یہ الفاظ استعمال کیے، ’۔۔۔کیونکہ وہ یوسف کو کھانے والا بھیڑیا مرزا مرحوم خود اُس کنویں میں گر پڑا جو اُس نے دوسروں کے لیے کھودا تھا۔‘
یہ الفاظ اس بات کی غَمازی کرتے ہیں، کہ مرزا عیسیٰ کو اپنے بیٹے نے کتنا جکڑ کر رکھا تھا کہ بڑی عمر اُس کے لیے ایک طعنہ بن کر رہ گئی تھی۔ بڑھاپا سب پر آتا ہے کہ وہ فطرت کا قانون جو ٹھہرا مگر جب ایک بادشاہ پر بڑھاپا آتا ہے تو زندگی کے پل گُزرتے بعد میں ہیں اور تیر کی طرح دل و دماغ کو زخمی پہلے کرتے ہیں۔
ایسی کیفیت میں جیتے مرزا عیسیٰ ایک عرصے تک بیمار رہنے کے بعد 1566ء میں انتقال کرگئے اور تخت پر مرزا باقی بیگ کو بیٹھنے کا موقع ملا۔
مرزا باقی بیگ کے مُتعلق ہم اگر تاریخ سے رجوع کریں تو تاریخ کے صفحات ہمیں مایوس نہیں کریں گے۔ اُس زمانے کی کئی کتابیں ہمیں پڑھنے کو مل جاتی ہیں، یہی سبب ہے کہ ہم ان کی شخصیت کا اچھا تجزیہ کرسکتے ہیں کہ آخر وہ کیسے انسان رہے ہوں گے۔
وہ اتنے بُرے انسان بالکل بھی نہیں تھے جتنا برا اُس زمانے کے تاریخ دانوں نے اپنی تحریروں میں انہیں دکھایا ہے اور جتنا انہیں کوسا ہے مگر وہ سچ اُس وقت عیاں ہوجاتا ہے جب وہ مرزا باقی کے متعلق یہ بھی تحریر کرجاتے ہیں کہ،
’مرزا باقی کے مُتعلق کوئی بھی اپنی کیسی بھی رائے قائم کرے، مگر حقیقت یہ ہے کہ، ان میں دُوراندیشی اور حق پرستی کا مادہ ضرور موجود تھا۔ جہاں سے بھی ان کو کوئی اچھی بات سُننے کو ملتی تو وہ اُس پر عمل کرنے میں کبھی شَرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ مرزا باقی بڑے دانشمند، مُدبر اور عقل و فہم رکھنے والے انسان تھے، دُوراندیشی میں اُن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
ان کے دور میں لوگوں نے امن اور آزادی سے اپنی زندگی بسر کی، ان کے وقت میں کسی لشکر نے یہاں کا رخ نہیں کیا۔ اہل علم کے لیے اور مدرسوں کے طالبعلموں کے لیے اُن کے دل میں نرم گوشہ تھا۔ ان کے وقت میں کبھی سوکھا نہیں پڑا۔ انہوں نے مُلک کی زراعت پر اپنا مکمل دھیان دیا اور ہوشیاری کے ساتھ ملک کا انتظام چلایا۔’ یہ تحریر ’بیگلارنامہ‘ کے مصنف ’ادراکی بیگلاری‘ کی ہے۔
’تاریخ طاہری‘ کے ’طاہر محمد نسیانی‘ لکھتے ہیں کہ، ’مرزا کی سخاوت اور بخل کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے یہ دونوں باتیں کی جاتی ہیں کہ وہ ہر بدھ کو بڑی مقدار میں خوراک تیار کرکے ’دیوان خانے‘ میں بھیج دیتے تھے۔ اور کنجوس ایسا کہ، کوئی معمولی چیز بھی کسی کو نہیں دیتے تھے۔
یہ سندھ کے واحد حکمران تھے جنہوں نے خوشامدی اور مُفت خور شاعروں کو دربار سے دور رکھا۔ میر علی شیر ’قانع‘ اپنی کتاب ’مقالات الشعراء‘ میں لکھتے ہیں کہ، ’مرزا باقی نے ’غضنفر بیگ‘ نامی شاعر کو ملک سے نکال دیا تھا، اُس نے اپنی شاعری میں مرزا باقی کو بددُعا دیتے ہوئی فارسی میں شعر کہا۔ جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ،
’مرزا باقی نے مجھے دربدر کردیا۔ خدا اُسے بھی کبھی سُکھ کی نیند نصیب نہیں کرے گا، میں اس اُمید میں ہوں کہ، مرزا کے موت کی خبر سُنوں۔‘
’بالفعل‘ مرزا باقی کا تکیہ کلام تھا، وہ جب بھی دیوان خانے میں آتے تھے تو بار بار امیروں اور وزیروں کو کہتے کہ، ’بالفعل کوشش کرکے اناج اور دولت حاصل کرو۔ یہ ہی ضروری کام آپ کو کرنا ہے۔ اس کام کے بعد آپ کو کوئی اور تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کرنے کے لیے بالفعل ایسے ہی کام انجام دینے پڑتے ہیں۔۔‘
مرزا باقی نے اپنے ابتدائی برس انتہائی پریشانی کے عالم میں گزارے۔ اُن دنوں میں ٹھٹھہ سے اُن کی بہن اُن کی چوری چھُپے مدد کرتی رہتی تھیں۔ مرزا عیسیٰ جب اپنی طبعی موت مرے تو تخت پر مرزا باقی بیٹھے۔ ارغون نہ اُن کے باپ عیسیٰ سے خوش تھے اور نہ مرزا باقی سے۔
مرزا باقی کے ذہن میں ارغونوں کی وہ ساری حرکتیں تازہ تھیں جو اُنہوں نے مرزا عیسیٰ سے کی تھیں۔ ارغونوں نے کبھی مرزا عیسیٰ کی عزت نہیں کی، یہاں تک کہ شراب پی کر، بدمست ہوکر گھوڑوں سمیت وہ محل میں چلے آتے اور جو زبان میں آتا وہ کہہ دیتے مگر مرزا عیسیٰ سب کچھ خاموشی سے دیکھتے اور سنتے۔
مرزا باقی نے حکمرانی ملتے ہی حکومت اَرغونوں کے نمائندوں، جیسے میر قاسم بیگلار، میر جوجک و دیگر کے حوالے کردی۔ وہ اس عمل سے شاید یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ارغُون کس حد تک جا سکتے ہیں۔ ارغُون انتہائی بے پرواہ تھے۔ اُن کو جو جی میں آتا وہ کر گُزرتے۔ وقت بہ وقت مرزا باقی اُن کو سمجھانے کی کوششیں بھی کرتے مگر اُنہوں نے کبھی مرزا کی نہیں سُنی۔
نوبت یہاں تَک آ پہنچی کہ مرزا باقی کا ٹھٹھہ شہر میں جو کوتوال مقرر تھا اُس کو منع کرتے رہے کہ وہ مرزا باقی کے لوگوں کو محلہ مغلواڑہ، محلہ میرزائی اور محلہ آگرہ میں آنے نہ دے۔ اور کھُلم کھُلا، مرزا باقی کو دھمکیاں بھیجتے تھے کہ اگر تمہارے پاس موجود دولت ہم کو نہیں دی تو جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔
یہ صورتحال دیکھ کر مرزا نے اپنے مصاحبوں اور خاص لوگوں سے مشاورت کی، جن میں ’خلیل مہردار‘ (خلیل خدمتگار ایک غیر معروف بندہ تھا۔ ایک موقعے پر اس نے مرزا باقی کو پانی میں ڈوبنے سے بچایا تھا، جس کے بدلے میں، مرزا نے اُسے مہردار کا اہم عہدہ دیا تھا) اہم تھے۔
فیصلہ یہ ہوا کہ ارغونوں کو جب تک سزا نہیں دی جائے گی تب تک وہ اسی روش پر قائم رہیں گے۔ دوسرے دن خُسرو خان اور دیگر ارغُون سرداروں کو نرم لہجے میں پیغام بھیجا گیا کہ، آکر اپنی دولت لے جاؤ۔ اس بلاوے پر کچھ ذہین ارغونوں اور ترخانوں نے کہا کہ، ’بغیر ہتھیاروں کے قلعے میں جانا مناسب نہیں۔‘ اس پر چند نے کہا، ’کیا تم سندھی بچے (مرزا باقی) سے ڈرتے ہو؟‘
مرزا باقی شاید وہ پہلے مغل حکمران تھے، جن کا مقامی لوگوں سے گہرا تعلق قائم رہا، اُن کی زیادہ تر دوستی مقامی لوگوں کے ساتھ تھی۔ اگر مرزا باقی کی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو ان کی پوری حکومت کو چلانے والے مقامی لوگ ہی تھے۔ یہاں تک کہ مرزا باقی نے اپنی ایک بیٹی کا نام بھی ’سندھی بیگم‘ رکھا تھا۔
کٹھن دنوں میں ان کا ساتھ دینے والے بھی یہاں کے مقامی لوگ ہی تھے۔ ’مُرادیو ملاح‘ ہزاروں سرکاری کشتیوں کا انچارج تھے اور اُن کو ’میر ملاح‘ کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ ’تاریخ طاہری‘ میں تحریر ہے کہ، مشکل وقت میں مرادیو ملاح نے مرزا باقی کی مدد کی تھی اور اس کے ساتھ مرادیو ملاح کو شہر کے کوتوال کا عہدہ بھی دے دیا گیا۔
بہرحال جب ارغون اور ترخان سردار پیسے لینے کے لیے محل میں آئے تو دونوں اطراف سندھی اور میربحر تلواریں تھامے کھڑے تھے اور اشارہ ملتے ہی انہوں نے سرداروں کا قتل عام شروع کردیا۔ وہاں کئی غیر ارغون بھی تھے جو مُغلوں کی صورت میں تھے وہ بھی قتل ہوئے جو یہاں سے بھاگ نکلے وہی بچ سکے۔
مرزا کے اس عمل کے بعد ارغونوں کی پریشانی بظاہر تو ختم ہوئی مگر جو بچ گئے تھے وہ کسی نہ کسی صورت میں مرزا کو پریشان کرتے رہے۔ بکھر کے سلطان محمود کوکلتاش ان ہی کی باتوں میں آکر مرزا سے جنگ کرنے پہنچا مگر ناکام ہوکر لوٹ گیا۔
1568ء میں مرزا کے چھوٹے بھائی مرزا جان بابا نے حکُومت لینے کے لیے جنگ کا میدان سجایا۔ ٹھٹھہ کے قریب جنگ ہوئی، اس جنگ میں جان بابا کو شکست ملی، ہار کا غُصہ اُس نے شب خون مارکر نکالا۔ ’ترخان نامہ‘ کے ’سید میر محمد بن جلال ٹھٹھوی‘ لکھتے ہیں کہ، ’مرزا جان بابا کے کہنے پر ’شاہ قاسم بیگلار‘ چُنے ہوئے بہادروں اور تلوار بازوں پر مشتمل ایک فوجی جتھے کے ساتھ مل کر مرزا باقی کو قتل کرنے کی غرض سے ان کی کشتی پر رات کے وقت حملہ کیا۔
فجر کا وقت تھا، مرزا باقی اپنی بیوی ’رائحہ بیگم‘ کے ساتھ کشتی پر تھے۔ جب حملہ ہوا تو مرزا باقی کو حملے کا پتہ چل گیا، سو انہوں نے فوری طور شمعدان کی پلیٹ سے میر قاسم پر حملہ کیا۔ کہتے ہیں پلیٹ اتنی زور سے شاہ قاسم کے منہ پر جا لگی تھی کہ مرتے دم تک اس کا نشان اُن کے چہرے پر رہا۔ اس شب خون میں مرزا باقی تو فرار ہوگئے البتہ رائحہ بیگم جو ماہ بیگم کی بیٹی ناہید بیگم کی بیٹی تھیں وہ قتل ہوگئیں۔ اس ناکامی کے بعد جان بابا سمیجوں کے پاس خاموشی کے ساتھ رہنے لگے۔
یادگار مسکین خان ترخان جن کے گھر میں ’بیگہ بیگی آغا بنت مرزا عیسیٰ ترخان‘ نکاح میں تھیں وہ جان بابا کی طرف تھے۔ اس جنگ کے 2 برسوں بعد مرزا باقی نے اپنے بھائی اور یادگار مسکین کو قتل کروادیا۔ مرزا باقی کو جس پر بھی شک گزرتا تھا کہ اس سے ان کی حکومت کو خطرہ ہے تو وہ اُسے قتل کروادیتے تھے اور یہ کوئی اتنی نئی یا حیرت انگیز بات نہیں کہ مرزا باقی نے یہ سب کیا۔
مغلوں کی پوری تاریخ ایسے قتل و غارت کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جن دوستوں نے James George Frazer کی کتاب Golden Bough کا مطالعہ کیا ہے اُن کو پتہ ہوگا کہ تخت و تاج کے لیے انسان کن مشکل اور وحشتوں سے بھری گزرگاہوں کا سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچا ہے۔
فارسی تاریخدان، جن کی سندھ کی تاریخ پر لکھی کتابیں میری نظر سے گزری ہیں، اُن میں کسی حاکم کے لیے آپ کو ایک سنجیدہ رائے نہیں ملے گی۔ جیسے اور جس قسم کے واقعات مصنف کے سامنے آتے جائیں گے وہ تحریر کرتے وقت اپنی کیفیت کو اُس تحریر میں شامل کرتا جائے گا۔ اگر تھوڑی بُری بات ہوئی تو وہ اُس کو کوسنا شروع کردے گا اور کوئی اچھی بات ہوئی تو فوری طور پر بادشاہ کی اچھائی بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔
تاریخ کے صفحات میں مرزا باقی پر کئی الزامات عائد کیے گئے ہیں، یہاں تک کہ اُن کی سانس کی ڈوری ٹوٹنے پر بھی کئی قصے ہیں جو تاریخ کے اوراق پر نیم شب کے پہروں کی طرح اُلجھنوں کے خمار میں ڈوبے پڑے ہیں۔
یہ واقعہ 3 اکتوبر 1585ء جمعرات کو وُقوع پذیر ہوا کہ جب گرم دنوں کا موسم اپنے اختتام کو پہنچتا ہے اور شب کے آخری پہر میٹھے جاڑے جیسی کیفیت بُنتے ہیں۔
مرزا باقی اپنے خاص خدمتگاروں، دریائی آبدار، چھتو ھندو، مارقدم قورچی کے ہمراہ سو رہے تھے اور خواب گاہ کے باہر ’ملک احمد‘ کی حفاظتی چوکی تھی، ملک احمد وہ شخص تھا جس کو مرزا باقی نے اپنے بیٹے مرزا شاہ رُخ کی موت کے بعد اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا۔ بلکہ جب اس کی سانس کی ڈوری ٹُوٹ رہی تھی تب بھی اس نے ملک احمد کو دیکھنا چاہا تھا.
کہتے ہیں کہ رات کے آخری پہر میں مرزا باقی کو مالیخولیا کا شدید دورہ پڑا اور اُنہوں نے تلوار اپنے پیٹ میں گھونپ دی اور انتڑیوں کو دونوں ہاتھوں میں لے کر کمرے میں گھومتے رہے۔
یہ واقعہ شک و شبہات سے بھرپور ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ مرزا کی مایوسی والی کیفیت دیکھ کر کوئی سازش تیار کی گئی ہو۔ چلیے طاہر محمد نسیانی کی تحریر کو دیکھتے ہیں کیونکہ نسیانی کے والد ’میاں حسن‘ بھی اس واقعے کے آنکھوں دیکھا شاہد تھے، کہتے ہیں کہ مرزا نے مرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ، ’میرے مرنے کے بعد میرے قتل کے گناہ میں کسی کو بھی گرفتار نہ کیا جائے۔‘
مگر تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ مرزا کے کہے گئے آخری لفظوں پر کسی نے عمل نہیں کیا۔ اگلے دن جو لوگ اس قتل کے حوالے سے سزا دینے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے اُن میں خلیل مہردار، خسروخان چرکس، ملا محمد فراضی، شمس الدین سلطان اور آخوند جمال الدین شامل تھے۔
اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ جو مرزا کے ساتھ رات کو تھے وہ مُجرم ہیں اور ان کو تذلیل بھری موت سے کم سزا نہ دی جائے۔ حکم تھا اور عمل ہوا۔ ’دریائی آبدار‘ کو گھاس پھوس کے چھپروں میں ڈال کر آگ لگادی گئی۔ ’مار قدم قورچی‘ کو بیچ میں سے کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور پھر اُس کی لاش کے ٹکڑے کرکے جنگل میں پھینک دیے گئے۔ ’چھَتو ھندو‘ کو سنگسار کیا گیا اور سب سے زیادہ سزا اُس کے حصے میں آئی جس کو، مرزا نے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا، یعنی ’ملک احمد‘ کو۔
ملک احمد کے لیے خاص احکامات آئے کہ ’شہر کی بازار کے بیچ میں برہنہ کرکے پاؤں سے سر تک اس کی چمڑی کھیچ کر اُتاری جائے اور اس چمڑی میں گھاس بھر کر چوراہے پر ٹانگ دی جائے کہ لوگ عبرت حاصل کریں اور اس کی جسم کی بوٹیاں کرکے کُتوں کے آگے ڈال دی جائیں۔‘
ان احکامات پر عمل ہونے کے بعد شاید بُنی ہوئی سازش اپنے کامیاب اختتام کو پہنچی اور مرزا باقی کے بیٹے ’پائندہ بیگ‘ کو بادشاہ بنانے کی منادی سُنا دی گئی جو ذہنی طور پر صحت مند نہیں تھے اور فقط نام کے حاکم تھے۔ جبکہ بدین کی طرف مرزا کے بیٹے مرزا مُظفر بیگ کو تخت پر بٹھایا جاسکتا تھا مگر چونکہ وہ ایک ذہین اور بہادر انسان تھے اور سازش کرنے والوں کے کہنے پر نہیں چلتے اس لیے ان کو تخت و تاج سے دُور رکھا گیا۔
مرزا کے اس بیٹے کے دُکھوں کی بھی ایک دردناک کہانی ہے، محض اس لیے کہ وہ کَچھ کے راجپوتوں سے تھے اس لیے ان کو حکومت میں حصہ دینا مناسب نہیں تھا۔
چلیے مرزا باقی کو مکلی کی اُداس شاموں میں چھوڑتے ہیں کہ قبرستانوں کے نصیبوں میں ویرانی ہی تحریر ہوتی ہے۔ مگر تاریخ کے صفحات پر کبھی ویرانی نہیں آتی۔ مرزا پائندہ بیگ سندھ کے تخت پر بیٹھے تو اُس زمانے نے کئی نئی کہانیوں کو جنم دیا اور تاریخ کے اوراق نے اُن کو ہم تک پہنچایا کہ تاریخ اُن کے لیے ایک درسگاہ ہے جو سیکھنے پر ایمان رکھتے ہیں، مگر ہم جانتے ہیں کہ ہم سب تاریخ کو بس دلچسپی سے پڑھتے ہیں مگر اس سے کچھ سیکھتے نہیں۔
حوالہ جات
’تاریخ طاہری‘ از سید طاہر محمد نسیانی
’ترخان نامہ‘ از سید میر محمد بن جلال ٹھٹوی
’مکلی نامہ‘ از سید میر علی شیر ’قانع‘
’تاریخ سندھ‘ از اعجازالحق قدوسی
’تاریخ معصومی‘ از میر محمد معصوم بکھری
’جنت السندھ‘ از رحیمداد مولائی شیدائی
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں