سعودی عرب ہمارا اچھا دوست؟
پاکستان کافی احتیاط کے ساتھ محکمہء خارجہ میں لوگوں کو بھرتی کرتا ہے۔ ملک کی نمائندگی کرنے کے لیے صرف ذہین ترین لوگوں کو سخت ترین تربیت سے گزارا جاتا ہے تاکہ وہ دنیا بھر میں قومی مفادات کا تحفظ کرسکیں۔ وزارتِ خارجہ کے مطابق پاکستان کے دنیا بھر میں 114 سفارتی مشنز ہیں۔
ہم اقوامِ متحدہ میں اپنی موجودگی کو بھی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ہم نے 2017ء میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں زبردست لابنگ کے ذریعے سیٹ حاصل کی تھی۔ ہم گزشتہ سال اقوامِ متحدہ کے 3 جائزوں میں بھی پیش ہوئے، اور تینوں بار پہلے سے زیادہ تیاری کے ساتھ۔
پاکستان کو اپنی سفارتی اہلیت پر فخر کرنا چاہیے۔ یہ محنت سے حاصل کیا گیا مقام ہے جس میں دہائیاں لگی ہیں، خاص طور پر 11 ستمبر کے بعد کے کم دوستانہ ماحول میں۔ ہمارے اپنے دشمن بھی ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم نے گزشتہ سالوں میں کچھ دوستیاں بھی قائم کی ہیں۔
ہماری خارجہ پالیسی کے مطابق سعودی عرب ایسا ہی ایک دوست ہے۔ اس دوستی کی علامت کے طور پر ایک معاہدہءِ دوستی بھی موجود ہے۔
پڑھیے: سعودی عرب کا دنیا کو ایک اور سرپرائز، آخر ہو کیا رہا ہے؟
اور ایسی بات نہیں، پاکستان بھی بہت اچھا دوست رہا ہے۔ ہم نے 1979ء میں مکہ میں مسجد الحرام آزاد کروانے میں مدد دی۔ ہم نے ایران عراق جنگ کے دوران سلطنت میں اپنی افواج تعینات کیں۔
ہم نے ان کی افواج کی تربیت کی اور اس کے بدلے میں سعودی عرب نے ہمیں براہِ راست مالی امداد فراہم کی۔ ہمیں تیل کم قیمتوں میں اور کبھی کبھی مفت میں بھی ملا۔
ایٹمی تجربے کے بعد ہم امریکی پابندیوں کا مقابلہ اس لیے کر سکے کیوں کہ ریاض نے ہماری مدد کی تھی۔
4 سال قبل خیر سگالی کے طور پر پاکستانی قیادت کو 1.5 ارب ڈالر کا 'تحفہ' بھی دیا گیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت فی الوقت 2.5 ارب ڈالر کی سطح پر ہے۔ سلطنت میں 20 لاکھ سے زائد پاکستانی رہتے ہیں جنہوں نے صرف گزشتہ سال میں 4.83 ارب ڈالر کی ترسیلات بھیجیں۔
مگر ممالک کے درمیان دوستی کے ساتھ ساتھ مفادات بھی ہوتے ہیں۔ سفارتکاری کی بنیاد ہی کچھ لو کچھ دو پر قائم ہے، جیسا کہ ممبر قومی اسمبلی شیریں مزاری نے توجہ دلائی تھی کہ سعودی عرب کے معاملے میں پاکستان اپنے فوائد حاصل کرنے میں سست ثابت ہوسکتا ہے۔ جہاں پاکستان سعودی عرب کو اپنے اتحادیوں میں سب سے اوپر رکھتا ہے، وہاں سعودی عرب پاکستانیوں کے حقوق اور زندگیوں کے بارے میں شاید ہی کبھی فکر کرتا ہے۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان اور ہیومن رائٹس واچ نے ایک تحقیق جاری کی ہے جس میں سعودی عرب کے فوجداری نظامِ انصاف میں پاکستانی قیدیوں کی حالتِ زار کو دستاویزی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ انصاف کے تقاضوں کی شدید خلاف ورزیوں سے بھرپور ٹرائلز میں کم از کم 66 پاکستانیوں کو سزائے موت دی جاچکی ہے جبکہ 2795 پاکستانی جیلوں میں پڑے ہیں جنہیں استحصال اور جیلوں کی خراب صورتحال جھیلنی پڑتی ہے۔
پڑھیے: بیرون ملک پاکستانی قیدی قانونی مدد سے محروم
سلطنت میں سب سے زیادہ سزائے موت پانے والے غیر ملکی شہری پاکستانی ہیں جن کے ساتھ کسی بھی دوسری قومیت سے زیادہ بُرا سلوک کیا جاتا ہے۔ کسی ملک کے ساتھ آپ کے سفارتی تعلقات کیسے ہیں اس کا اندازہ آپ کے حکام کو ملنے والے استقبالیوں سے نہیں بلکہ آپ کے شہریوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے لگایا جاتا ہے۔
سفارتی مہارت کا بہترین پیمانہ مشکل حالات میں ہونے والی گفتگو سے لگایا جاتا ہے اور طویل عرصے سے ہم نے اپنے دوست سعودی عرب کے ساتھ ایسی کوئی گفتگو نہیں کی ہے۔
اکتوبر 2015ء میں ہندوستانی وزیرِ خارجہ سشما سوراج نے ایک ہندوستانی ملازمہ پر سعودی مالک کے تشدد کی مذمت کی جس نے ملازمہ کا بازو کاٹ دیا تھا۔ ہندوستانی سفارت خانے نے فوراً واقعے کا نوٹس لیا اور اسے قونصلر اور قانونی مدد فراہم کی تاکہ مالک کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکے۔ سوراج نے ٹوئیٹ کیا کہ ایک ہندوستانی شہری کے ساتھ یہ بہیمانہ ظلم و تشدد 'ناقابلِ قبول' ہے اور سفارت خانے کے اہلکاروں نے فوراً اسے اعلیٰ ترین حکام کے سامنے اٹھایا۔ دوسری جانب پاکستانی حکام شاید ہی کبھی سعودی جیلوں میں اپنے قیدیوں سے ملنے جاتے ہیں۔
2014ء میں سری لنکا نے 24 سالہ سری لنکن ملازمہ کا سر قلم کیے جانے کے بعد سعودی عرب سے ایک لیبر معاہدے پر دستخط کروائے جس کے تحت سعودی عرب میں رہنے والے 5 لاکھ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوا۔ سری لنکن سفارت خانے میں 24 گھنٹے دستیاب ایک ہاٹ لائن نمبر بھی ہے جہاں مشکل کا شکار مزدور اور ملازمین مدد کے لیے فون کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب گرفتار ہوچکے پاکستانیوں اور ان کے گھرانوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ایسی صورتحال میں کس حکومتی ادارے سے رابطہ کیا جائے۔
پڑھیے: پردیس میں قید: حکومتی غفلت قابلِ افسوس ہے
فلپائنی حکومت باقاعدگی کے ساتھ دوسرے ممالک میں رہائش پذیر اپنے شہریوں کی جانب سے مداخلت کرتی ہے۔ کمیٹی برائے امورِ غیر ملکی ملازمین کی جانب سے 2011ء میں ایک حکومتی انکوائری نے پایا کہ اس میں ’کوئی شک نہیں‘ کہ ان کا سفارتی اسٹاف فلپائنی افراد کو سزائے موت کے مقدمات کی قریبی نگرانی کرتا ہے۔ ’سعودی وکلاء کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، سعودی حکام سے لابنگ کی جاتی ہے، کوشش کی جاتی ہے کہ متاثرہ شخص کے رشتے داروں کے ساتھ مالی سمجھوتہ کیا جاسکے چاہے وہ سعودی عرب میں ہوں یا فلپائن میں۔‘
قونصلر تحفظ کی پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرنا ہوگا اور کمیونٹی کی سطح پر فنڈز کا استعمال کرنا ہوگا تاکہ سزائے موت کے قیدیوں کو وکلاء کی خدمات فراہم کی جائیں اور سعودی عدالتوں میں اُن کے حق میں ثبوت پیش کیے جائیں۔
سعودی عرب میں قیدیوں کی مدد کوئی ناممکن کام نہیں ہے اور خاص طور پر ایسا ملک جس نے 1967ء سے اب تک مبینہ طور پر 8200 سعودی فوجیوں کی تربیت کی ہے، اس کے لیے یہ مشکل کام نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے شہریوں کو منصفانہ ٹرائل، قونصلر تک رسائی اور قانونی نمائندگی حاصل ہو۔
آخر کار ایسی دوستی کا کیا فائدہ جس میں آپ دوسرے کا سامنا بھی نہ کرسکیں؟
تبصرے (11) بند ہیں