سو روپے کی قیمت پینسٹھ روپے
اگر عام پاکستانی کو ملک میں انتخابات کے بعد کسی تبدیلی کا انتظار تھا تو وہ تبدیلی آن پہنچی ہے۔ یعنی اب آپ ہر سو روپیہ میں خریدنے والے موباٰل کارڈ کو استعمال کرنے سے پہلے ہی اس میں سے پینتیس روپوں سے محروم ہو جاییں گے۔ اگر تبدیلی سے آپ کی توقع یہ تھی کہ غربت اور مہنگایی کے بوجھ تلے دبے ہویے عام آدمی کی لیے کویی اچھی خبر آیے گی تو وہ یہ ہے کہ آپ کے ان پینتیس روپوں کی بدولت حکومت کو سالانہ دس بلین روپے کی آمدنی ہوگی۔ یہ پیسہ کہاں خرچ ہوگا، یہ آنے والا وقت ہی بتا سکے گا۔
دوسری خوش خبری یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے میں تقریباً کامیاب ہو گئے ہیں۔ تقریبا اس لیے کہ ہم نے ان کی سب شرطیں تو مان لی ہیں مگر یہ دیکھنا باقی ہے کہ ہم ان پر عمل کتنا کر سکتے ہیں۔
پہلی شرط تو یہ تھی کہ بجٹ خسارہ کم کرو۔ آثار دیکھتے ہویے حکومت پہلے ہی یہ کہہ چکی تھی کہ وہ مالیاتی خسارے میں 5 .2 فی صد کی کمی کرکے اسے اگلے سال تک 3 . 6 فی صد پر لے آئیگی۔
ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف حکومت کے مالیاتی منصوبوں سے مطمئن نہیں ہے۔ نواز حکومت نے اس پہلے وفاقی بجٹ کے ترقیاتی فنڈ میں پچاس فی صد اضافے کا اعلان کیا تھا لیکن فنڈ چاہتا تھا کہ اس رقم میں کمی کی جائے اور مالیاتی خسارے کو کم کرنے کیلئے مزید ٹیکس لگائے جائیں۔
حکومت نے ترقیاتی فنڈ میں کس حد تک کمی کا فیصلہ کیا ہے، یہ بات تو اسی وقت سامنے آئیگی جب معاہدے کی حتمی دستاویز سامنے ہوں گی۔ البتہ جہاں تک ٹیکس لگانے کا سوال ہے تو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران تو یہی کہا گیا کہ مزید ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے لیکن تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ وفاقی بجٹ تیار کرتے وقت ہی فنڈ کی ممکنہ شرائط کومد نظررکھا گیا تھا-
جیسا کہ سمجھا جارہا تھا ٹیکس کے نیٹ ورک کو پھیلانے کیلئے ان لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں نہیں لایا گیا جو اب تک ٹیکس دہندگان میں شامل ہی نہیں مثلا زرعی انکم ٹیکس سے زمیندار طبقہ آج بھی مستثنیٰ ہے۔
ٹیکس ریوینو میں اضافہ آئی ایم ایف کی ناگزیر شرط ہے۔ تاہم بجایے اس کے کہ ملک میں امیر ترین لوگوں پر ٹیکس لگایا جایے، حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح سولہ فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کردی ہے جس سے عام آدمی متاثر ہوگا۔ اس شرط کو پورا کرنے کی ایک بدترین مثال موبائل فون پر ٹیکس میں اضافہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بارہ کروڑ لوگ موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں سب سے بڑی تعداد غریب طبقے کی ہے جس میں گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں، مزدور، چوکیدار، مالی، کارپینٹر، پلمبر اور روزمرّہ کی سروسز فراہم کرنے والے الیکٹریشئین وغیرہ سب شامل ہیں۔
ٹیکس میں اضافے کی لیے حکومت نے موبائل فون پر عائد کردہ ودہولڈنگ ٹیکس کو دس فیصد سے بڑھا کر پندرہ فیصد کر دیا ہے۔ اس سے ہوگا یہ کہ سو روپیہ کا موبائل کارڈ خریدنے والا ایک عام انسان پندرہ روپیہ ودہولڈنگ ٹیکس ادا کریگا اس کے علاوہ 5 .19 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی دیگا یعنی انیس روپے پچاس پیسے۔ سو ایک عام آدمی کے سو روپے کی قیمت صرف پینسٹھ روپے رہ جایے گی۔
یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ ہر موبائل فون کمپنی صارف سے مزید سات فیصد سروس چارجز لیتی ہے جس کے بعد آخر میں کارڈ کی قیمت اٹھاون روپے پچاس پیسے رہ جائیگی۔ سو متوسط اور کم آمدنی والے طبقہ ایک اور بوجھ تلے دبے گا البتہ حکومت کو اس ذریعہ سے دس بلین روپیہ کی آمدنی ہوگی اور ہر حکومت کو لگتا ہے کہ یہ ہے ٹیکس ریوینو کو بڑھانے کا آسان ترین طریقہ۔
جواب میں حکومت کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس ایڈجسٹبل ہوتا ہے۔ یعنی آپ انکم ٹیکس ریٹرن متعلقہ شعبے میں جمع کرائیں اور آپکو آپکی رقم واپس مل جائیگی۔ سوال یہ کہ گھرمیں کام کرنے والی ماسیوں، مالی، چوکیدار اور پلمبر کے لئے کیا یہ ممکن ہے کہ وہ دفتروں کے چکر کاٹے، ریٹرن جمع کرائے اور اپنی رقم واپس حاصل کرے۔ نتیجہ صاف ظاہرہے-
حکومت کو بھی پتہ ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا اور ساری رقم اس کے خزانے میں جائیگی۔
حکومت کو معلوم ہے کہ موبائل فون سے معاشی سرگرمیوں کی رفتار بڑھتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ضرورت اس بات کی ہے کہ متوسط طبقہ اور کم آمدنی والے طبقہ کو سہولتیں فراہم کی جاتیں اور ٹیکس کی شرح میں کمی کی جاتی، اس میں مزید اضافہ کردیا گیا۔ یہ اس لیے آسان ہے کہ حکومت اس سے طاقتور طبقے کی ناراضگی سے بچ جاتی ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ سابقہ حکومت ہو یا موجودہ حکومت، فیڈرل بورڈ آف ریوینو کی کارکردگی کبھی بھی اطمینان بخش نہیں رہی۔ ایف بی آر ہمیشہ سے ہی اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے یہ منصوبہ رکھا ہے کہ وہ 14 - 2013 کے مالیاتی سال میں 2007 بلین روپیہ کے ٹیکس ریوینو جمع کریگی لیکن فنڈ کے بنیادی تخمینے کے مطابق بورڈ اس مد میں زیادہ سے زیادہ 1980 بلین روپیہ کی رقم جمع کر پائیگا۔ چنانچہ آئی ایم ایف سمجھتا ہے کہ 14 - 2013 میں ایف بی آر اگلے مالیاتی سال میں 2475 بلین روپے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہیگا جس میں 200 بلین روپے کے مزید ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم بھی شامل ہے-
حکومت کا ایک اور دعویٰ ہے کہ وہ اگلے مالیاتی سال (14 - 2013) میں ٹیکس-ٹو-جی ڈی پی کی شرح کو 1 . 10 فیصد تک لے جائیگی جو اس وقت 2 . 8 فیصد ہے جبکہ آئی ایم ایف کا تخمینہ ہے کہ حکومت اس شرح کو زیادہ سے زیادہ 9 فیصد تک لے جاسکتی ہے۔
آئی ایم ایف کا ایک اہم مطالبہ بجلی کی قیمت پر ہر تین ماہ بعد نظر ثانی کرنے کا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اس وقت صارفین سے جو بجلی کی قیمت وصول کی جاتی ہے وہ پیداوار سے کم ہے اور گردشی قرضوں (سرکیلر ڈیٹ) میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ چنانچہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ موجودہ لوڈ شیڈنگ اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں پر صارفین کے احتجاج سے حکومت بخوبی واقف ہے اور اسے ایک حساس مسئلہ سمجھتی ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اسے نظرنہیں آتا کیونکہ ایک طرف تو وہ ان لوگوں سے بجلی کے واجبات وصول کرنے میں ناکام رہی ہے جن پر یہ واجب الادا ہیں، دوسرے بجلی کی چوری کو روکنے، بجلی کی تقسیم اور ٹرانسمشن لائنوں کی مرمت کے سلسلے میں بھی کوئی موثر اقدامات ابھی تک نہیں کئے جاسکے ہیں۔
حکومت کا یہ خیال ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے 2 .5 بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیگی جس کے تحت اسے توانائی کے شعبے کو دی جانے والی سبسڈیز میں تین سال کے عرصے میں بتدریج کمی کرکے اسے مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں بجلی مزید مہنگی ہو جائیگی۔ ایک طرح سے بجلی کی چوری اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے اپنے واجبات نہ ادا کرنے کی قیمت صارفین کو ادا کرنی پڑے گی۔
حکومت کے لئے یہ فیصلہ کرنا ابھی باقی ہے کہ سبسڈیز کے خاتمے کی حد سو یونٹ پر سے شروع ہو گی یا دو سو یونٹ پر سے۔ حکومت کو توقع ہے کہ وہ اگلے چھ مہینوں میں سرکاری اور نجی صارفین سے قرضوں کی رقم واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیگی تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایسا ممکن ہوگا یا نہیں کیونکہ اس کا دعوی ہر حکومت کرتی آیی ہے۔
مالیاتی ادارے کی طرف سے دیے جانے والی ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی (ای ایف ایف) پربھی نو فیصد ٹیکس عائد ہوتا ہے اور یہ قرضے دس سال کی مدت میں ادا کرنے ہوتے ہیں۔ پاکستان کا موجودہ کوٹہ 1.1 بلین ڈالر ہے جبکہ وہ تین سو فی صد تک اسپیشل ڈرائینگ رائیٹس (ایس ڈی آر) کے تحت حاصل کرسکتا ہے جسکی رقم 5 .3 بلین ڈالر بنتی ہے یا آئی ایس ڈی آر کے 5 .1 بلین ڈالر ملاکر یہ رقم 25 .5 بلین ڈالر بن جاتی ہے۔
ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی ایسے ملکوں کو دی جاتی ہے جنھیں توازن ادائیگی کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ پاکستان پر اگلے مالیاتی سال کے دوران آئی ایم ایف کا تین بلین ڈالر کا قرضہ واجب الادا ہے اور یہ صاف دکھایی دے رہا ہے کہ سکڑتے ہوئے زر مبادلہ کے نتیجے میں معیشت اس بوجھ تلے مزید دب جائیگی۔
کہا جاتا ہے کہ زرمبادلہ کے موجودہ ذخائر اس قدر کم ہیں کہ تین مہینہ کے درآمدی بل کو ادا کرنے کیلئے بھی کافی نہیں، جو ایک مستحکم معیشت کی لازمی شرط ہے۔
اگرچہ آئی ایم ایف سے قرض منظور ہوجانے کی صورت میں پاکستان کیلئے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر ممالک سے قرض حاصل کرنا آسان ہو جائیگا لیکن کیا نئے قرضوں کا یہ نیا بوجھ معیشت کو مستحکم بنا سکےگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کچھ مسکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ کیا نواز حکومت مشکل اور غیر مقبول فیصلوں کی لیے تیار ہے؟