معذوری سے کائنات کی تسخیر تک
پاکستان میں یقیناً آج کا دن بھی معمول کی طرح مصروف گزرا ہوگا اور چند افراد کے علاوہ شاید ہی کسی نے غور کیا ہو کہ تاریخ عالم میں آج کے بعد اس دن کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ آج 14 مارچ کے دن 142 سال پہلے، ایک شخص کی پیدائش ہوئی تھی جس نے نظریہ اضافیت پیش کرکے دنیا کو پوری کائنات کا ایک خاکہ تخلیق کرکے دیا تھا۔
اس شخصیت کا نام البرٹ آئن سٹائن تھا لیکن آج ہی کے دن ایک ایسی شخصیت کی وفات بھی ہوئی ہے جس نے کائنات کے اس خاکے میں رنگ بھرے اور اسے قابلِ فہم بنایا۔
اسٹیفن ہاکنگ، جنہیں "اس صدی کے سائنسدان" کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، آج 76 سال کی عمر میں کیمبرج میں انتقال کر گئے ہیں۔
اسٹیفن ویلیم ہاکنگ برطانوی تھیوریٹیکل فزیسسٹ تھے اور گلیلیو کی 300 ویں برسی پر یعنی 8 جنوری 1942 کے دن ان کی پیدائش ہوئی تھی۔
مزید پڑھیں : معروف سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ انتقال کر گئے
اسٹیفن ہاکنگ نے اس کائنات کی شروعات سے لے کر ایٹم تک، بلیک ہول سے لے کر ستاروں تک بہت سی چیزوں پر تحقیق کر کے سائنس کے میدان میں اپنا حصہ ڈالا۔ سٹیفن ہاکنگ دنیا کے بہت سے لوگوں کے لئے"انسپائریشن" بھی تھے۔
21 برس کی عمر میں فالج ہونے کے بعد یہ معذور ہوگئے تھے لیکن ان میں موجود سائنس کی لگن اور جوش نے انہیں اس معذوری کو اپنا راستہ روکنے نہ دیا اور اعلی ذہنی صلاحیت رکھنے والے اس سائنسدان نے اپنی متحرک پلکوں کی مدد سے بہت سی کتابیں لکھ ڈالیں۔
اسٹیفن ہاکنگ نے ٹائمز کے ایک رپورٹر کو بتایا کہ "میری خواہش یہ تھی کہ میں کوئی ایسی کتاب لکھوں جو ائیرپورٹ پر بک سٹالز پر بکے اور اس بات کی گارنٹی لینے کہ لئے کہ یہ کتاب عام عوام کو سمجھ آئے، میں نے اپنی نرسز سے یہ کتاب پڑھوائی اور مجھے لگتا ہے کہ انہیں سمجھ آئی ہوگی"۔
1988 میں اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب "اے بریف ہسٹری اوف ٹائم (وقت کا سفر)" شائع ہونے کے بعد ان کو عالمی شہرت ملی۔
یہ بھی پڑھیں : اسٹیفن ہاکنگ کے لیے زندگی کی سب سے بڑی مسٹری
یہ کتاب دی سنڈے ٹائمز پر 237 ہفتوں تک سب سے زیادہ خریدی جانے والی کتاب رہی۔ اس کتاب میں اسٹیفن ہاکنگ نے کائنات کی دریافتوں کے لئے اپنے جوش و جذبے کا اظہار کیا۔
اسٹیفن ہاکنگ کے بچوں، لوسی، رابرٹ اور ٹم کا کہنا تھا کہ "ہم بہت اداس ہیں کہ ہمارے پیارے والد آج ہمیں چھوڑ کر چلے گئے"، "اسٹیفن ہاکنگ ایک قابل سائنسدان اور غیر معمولی انسان تھے۔ فزکس۔، خصوصا، کاسمولوجی میں ان کا کام کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ ان کے مسلسل کام کرنے کے جذبے نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ ان سے شدید محبت کرتے ہیں اور ساری دنیا اس وقت گہرے رنج میں ڈوبی ہوئی ہے"۔
اسٹیفن ہاکنگ وہ سائنسدان ہیں جنہوں نے بلیک ہولز پر بہت زیادہ تحقیق کی اور 1974 میں بلیک ہولز سے خارج ہونے والی "ہاکنگ ریڈیشنز" کے بارے میں پیشگوئی کی تھی جو بعد میں تحقیق کے بعد حقیقت ثابت ہوئی۔
اکثر لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے کیونکہ ہم سب تو یہی جانتے ہیں کہ بلیک ہول سے روشنی، جو کہ کائنات کی سب سے تیز ترین چیز ہے، بھی نہیں نکل سکتی تو یہ ہاکنگ ریڈیشنز کدھر سے نکلیں گی؟ ہاکنگ ریڈیشنز بلیک ہول کے اندر سے نہیں نکلتی۔ بلیک ہول کے قریب کشش بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس کشش میں موجود رگڑ کھاتا مادہ جب انرجی میں تبدیل ہوتا ہے تو وہ انرجی "ہاکنگ ریڈیشنز" کہلاتی ہے۔
اسٹیفن ہاکنگ نے اپنے مرنے سے پہلے ہی یہ نصیحت کردی تھی کہ ان کی وفات کے بعد ان کی قبر پر انہی کی ایک مساوات لکھی جائے. یہ مساوات ہاکنگ کی زندگی کی سب سے اہم دریافت "ہاکنگ ریڈیشنز" کو بیان کرتی ہے. اس مساوات کے مطابق بلیک ہول مکمل سیاہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک چمک پیدا کرتا ہے جس کا نام "ہاکنگ ریڈیشن" ہے.
اگر اسٹیفن ہاکنگ کی ذاتی زندگی کی بات کی جائے تو وہ خاصی اچھی نہیں تھی۔ اسٹیفن ہاکنگ نے یہ بات اپنی کتاب "مائے بریف ہسٹری" میں بتائی کہ معذوری کی وجہ سے انہیں کام کرنے میں تو بہت مشکلات پیش آتی تھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اسی وجہ سے ان کی دو بیویاں بھی انہیں چھوڑ گئیں۔
اسٹیفن ہاکنگ ٹیلی ویژن پر "سٹارٹرک: نیو جنریشن" شو بھی کیا اور 2014 میں "تھیوری اف ایوری تھنگ" نامی فلم اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی پر ہی بنائی گئی جس میں ایڈی ریڈ مین نے ہاکنگ کا کردار ادا کیا۔
اسٹیفن ہاکنگ کی وفات یقینا پوری انسانیت کے لئے بہت بڑا نقصان ہے لیکن پر چیز فانی ہے لہذا ہمیں چاہے کہ ہم اپنی زندگی میں اسٹیفن ہاکنگ کی طرح انسانیت کی خدمت کرکے اپنے آنے کے مقصد کو پورا کرکے جائیں۔
سید منیب علی پنجاب کالج لاہور کے طالب علم، "لاہور آسٹرونومیکل سوسائٹی (LAST)" اور "دی پلانیٹری سوسائٹی (TPS) کے رکن اور علم فلکیات کے شوقین ہیں۔
سید منیب علی 2013 سے آسمان کا مشاہدہ کر رہے ہیں، علم فلکیات کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے، ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔