• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
شائع March 14, 2018

سیاسی و معروف شخصیات پر جوتا پھینکنے کا طریقہ یا رسم دراصل عوامی ردعمل یا غصے کے اظہار کو مانا جاتا ہے، تاہم نہ تو اس کو درست قرار دیا جاسکتا ہے، نہ ہی اس کی ہمت افزائی کی جاسکتی ہے، اس طریقے سے غصہ کے اظہار کا سامنا دنیا بھر میں کئی شخصیات کو کرنا پڑا ہے۔

حالیہ برسوں میں جوتا برسانے کی رسم کا سہرا پاکستان کے صوبہ سندھ کے آغا جاوید پٹھان کو حاصل ہے، جنہوں نے اپریل 2008 میں ارباب غلام رحیم کے منہ پر جوتا مارا۔

اس واقعے نے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ جلد ہی یہ رسم بیرونی دنیا میں بھی متعارف ہوگئی اور عراق کے ایک صحافی منتظر الزیدی نے 14 دسمبر 2008 کو بغداد میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران اس وقت کے امریکی صدر بش کو جوتے سے نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔

امریکی صدر البتہ انتہائی تربیت یافتہ نکلے اور انتہائی سرعت سے جوتے کو جل دینے میں کامیاب ہوئے ۔

دوسری بار بھی یہ اعزاز امریکی صدر جارج بش کو حاصل ہوا، جب جنگ مخالف تنظیم کوڈ پنک کی جانب سے 17 دسمبر 2008 میں حاصل ہوا اور وہ بھی عین وائٹ ہائوس کے سامنے ، جب ان کے پتلے پر جوتے برسائے گئے۔

یہ سلسلہ چلا تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، 2 فروری 2009 کو چین کے اس وقت کے وزیراعظم وین جیابائو کو برطانیہ میں خفت کا سامنا کرنا پڑا، جب دنیا کی بہترین قرار دی جانے والی درسگاہ کیمبرج یونیورسٹی میں خطاب کے دوران شرکاء میں موجود ایک نوجوان نے انہیں ڈکٹیٹر قرار دیتے ہوئے جوتا مارا، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ نوجوان جرمنی سے تعلق رکھا تھا۔

4 فروری 2009 کو سویڈن میں اسرائیلی سفارت کار غزہ کی جنگ کے حوالے سے لیکچر دے رہے تھے جب انھیں غاصب اور قاتل قرار دیتے ہوئے جوتا بازی کا نشانہ بنایا گیا۔

سابق ایرانی صدر احمد نژاد کو کئی بار جوتوں کا سامنا کرنا پڑا، ارومیہ شہر کے دورے کے دوران ایک شخص کو گاڑی کی ٹکر لگنے کے باوجود نہ رکنے پر ناراض مظاہرین نے ان کی جانب جوتا اچھالا، جب کہ دوسری بار امیر کبیر یونیورسٹی میں ایرانی صدر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔

اسی طرح 12 دسمبر 2011 کو ایرانی صدر احمدی نژاد پر تیسری بار جوتا پھینکا گیا جو ایک نوجوان نے بے روز گاری کے خلاف اقدامات نہ کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے پھینکا۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

ایران کے بعد اس رسم نے رخ کیا بھارت کا اور پہلی بار جوتے کا سامنا 7 اپریل 2009 کو اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ چدم برم کو کرنا پڑا۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک سکھ صحافی نے بھارتی وزیر داخلہ کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں سکھوں پر تنقید کرنے پر جوتا پھینکا۔

16 اپریل 2009 کو ایک بار پھر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما ایل کے ایڈوانی کو ان کی پارٹی کے رکن پاوس اگروال نے جوتا مارا۔

28 اپریل 2009 کو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو بھی احمد آباد میں ایک نوجوان کے جوتے کا سامنا کرنا پڑاتھا۔

نوجوان نے کافی دور سے وزیر اعظم کو جوتے سے نشانہ بنایا تھا، دور ہونے کی وجہ سے جوتا من موہن سنگھ تک پہنچ نہ سکا ۔

8 اکتوبر 2009 کو ایک بار پھر یہ رسم پاکستان میں زندہ کی گئی اور کراچی یونیورسٹی بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں لیکچر کے لیے آنے والے امریکی صحافی پر طالب علم نے جوتا پھینکا ۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

فروری 2010 میں ترکی کے صدر (جو اس وقت وزیراعظم تھے) رجب طیب اردگان پر ایک کرد نوجوان نے کردستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے جوتا پھینکا مگر نشانہ خطا ہوگیا۔

7 اگست 2010 کو پاکستان کے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری پر برطانیہ کے شہر برمنگھم میں ایک 50 سالہ پاکستانی شمیم نے اپنے دونوں جوتے پھینکے مگر زرداری صاحب محفوظ رہے۔

صدر آصف زردای اس وقت انٹرنیشنل کنوینشن سینٹر میں خطاب کررہے تھے۔

15 اگست 2010 کو ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو بھارتی یوم آزادی کی تقریب میں ایک مقامی مسلمان پولیس افسر نے جوتا مارا۔

پولیس افسر عبدالاحد کا ٹھیک نشانے پر لگا ، جس نے سیاہ جھنڈا لہرا کر کشمیر کی آزادی کے لیے نعرے لگائے۔

6 فروری 2011 کو لندن میں ہی اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے دوران ایک نوجوان نے جوتا مارا۔

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو جوتا مارنے والے نوجوان نے امریکی قید میں موجود ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے نعرے بھی لگائے تھے۔

پرویز مشرف ایک سے زائد بار جوتا باری کا سامنے کرنے والے رہنماوں میں شامل ہیں۔

سابق فوجی صدر کو دوسری بار جوتے کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 29،مارچ 2013 کو وہ عدالت میں پیشی کے لیے آئے، تو ایک وکیل تجمل لودھی نے انھیں جوتا مارا۔

امریکی صدور کے ساتھ ساتھ صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے والے خاتون ہیلری کلنٹن بھی جوتے کے حملے کا شکار ہونے والوں میں شامل ہیں۔

ہیلری کلنٹن جوتے برسانے کی اس ’رسم‘ کا نشانہ 10 اپریل 2014 کو بنیں۔

2014 میں تائیوان کے 18 حکومتی اہلکار جوتوں کا نشانہ بنے، بات یہی تک محدود نہیں، یورپ ، شمالی امریکہ، ہانگ کانگ، آسٹریلیا اور جرمنی میں بھی حکومتی عہدیداران جوتوں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کی سزا کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک شخص نے یکم مارچ 2016 کو اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو جوتا مارا۔

رواں سال بھی جوتے مار کا غصہ اتارے جانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔

30جنوری 2018 کواسٹیٹ آف دی یونین کے خطاب کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بولتے دیکھ کر مشتعل افراد نے اسکرین پر جوتے برسا دیئے تھے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان میں ایک بار پھر سیاسی رہنماؤں پر جوتے برسانے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں

24 فروری 2018 کو وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو مسلم لیگ (ن) کے جنرل ورکر کنونشن میں پھینکے گئے جوتے کا سامنا کرنا پڑا۔

تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن جہانداد خان نے 27 فروری 2018 کو رکن صوبائی اسمبلی بلدیو کمار کی جانب جوتا اچھالا۔

11 مارچ 2018 کو جامعہ نعیمیہ میں سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیئے گئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جوتے کا سامنا کرنا پڑا۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر 12مارچ 2018 کو جوتا پھینکنے کی کوشش کی گئی۔

عمران خان کی جانب پھینکا جانے والا جوتا ان کے ساتھ موجود پی ٹی آئی رہنما علیم خان کے سینے پر لگا۔

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے جوتوں کے ذریعے غصے کے اظہار کی مذمت کی ہے، تاہم ابھی جوتے باری سے غصہ اتارنے کا سلسلہ جاری ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا ہے، کون کون اس کا نشانہ بنتا ہے، اس کے بارے میں تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، تاہم سیاسی رہنماؤں کو اپنے حامیوں کو تلقین کرنی چاہیے کہ وہ یہ عمل نہ دھرائیں۔


طارق حبیب تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے ساتھ وابستہ رہے ہیں، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سیکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں، آج کل بطور سینئر پروڈیوسر ایک نجی ٹی وی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Azmat Ali Mar 15, 2018 06:25am
It's intresting
shahid hassan Mar 15, 2018 11:51am
nice history...