• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

‘رواں برس عام انتخابات ایسے ہوں گے جیسے 70 کی دہائی میں ہوئے‘

شائع March 12, 2018 اپ ڈیٹ March 13, 2018

اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ رواں برس انتخابی عمل کو صاف، شفاف اور غیر جانبدار بنایا جائے گا جیسا کہ 70 کی دہائی میں منعقد ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو برابری کی سطح پر انتخابی مہم چلانے کا حق حاصل ہوگا اور وفاقی اور صوبائی حکومت کو عوام کا پیسہ اپنی تشہیر کے لیے خرچ کرنے نہیں دیا جائےگا۔

چیف جسٹس نے واضح کیا کہ انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے بیروکریٹس کو دیگر صوبوں میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے صوبائی حکومتوں کے سرکاری اشتہارات سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی، سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور دیگر فریقین پیش ہوئے۔

سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں کے سرکاری اشتہار سے متعلق کیس میں حکم دیا ہے کہ بے نظیر بھٹو، بلاول بھٹو وزیر اعلیٰ سندھ کی تصاویر سرکاری اشتہار میں نہیں آنی چاہئیں اور سیاسی شخصیات کی تصاویر والے اشتہار بند ہوں گے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے سرکاری اشتہار کے 55 لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع کرادیے؟جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے چیک جمع کرانے سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اشتہارات کی مہم پر لگنے والا پیسہ خزانے کا ہے، ہمیں اشتہارات سے کوئی غرض نہیں لیکن ذاتی تشہیر نہیں ہونی چاہئے۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کو اشتہار کے 55 لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم

انہوں نے کہا کہ اشتہاری مہم پر لگنے والا پیسہ عوام کا پیسہ ہے، اشتہارات کے حوالے سے گائیڈ لائن تیار ہیں، باقی دیکھ لیں گے کہ ذاتی تشہیر کی وصولی کس سے کرنی ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) اور پاکستان براڈکاسٹنٹ ایسوسی ایشن ( پی بی اے) کے وکلاء کو کہا کہ وہ بھی اپنی تجاویز دیں، عوام کے پیسے کو ضائع ہونے سے روکنا ہے، اخبارات کے اشتہارات کو بند نہیں کر رہے بلکہ ایک کٹیگری کو بند کر رہے ہیں۔

کیس کی سماعت کے دوران پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے تحریری جواب جمع کروادیا ہے، اس موقع پر خیبرپختونخوا کے سیکریٹری اطلاعات بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سیکریٹری خیبرپختونخوا سے استفسار کیا کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں کتنے اشتہارات دیئے گئے؟ اس اشتہار کا بتائیں جس میں عمران خان اور پرویز خٹک کی تصویر بھی نشر کی گئی۔

سیکریٹری خیبرپختونخوا نے عدالت کو بتایا کہ پالیسی کے مطابق پارٹی سربراہ یا وزیراعلیٰ کی تصویر لگائی گئی، پرنٹ و الیکٹرانک اور ریڈیو تین میڈیم ہیں، ان ہاؤس اشتہارات بنتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پچھلے ایک ماہ میں کتنے پیسے خرچ کیے گئے؟ جس پر سیکریٹری خیبرپختوںخوا نے جواب دیا کہ کل 20 کروڑ 40 لاکھ روپے 3 ماہ میں خرچ کیے۔

سیکریٹری اطلاعات نے اخراجات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یکم جنوری سے 28 فروری 2018 تک 1 ارب 63 کروڑ روپے دیئے گئے، یہ رقم تینوں میڈیا کے شعبے کو فراہم کی گئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ بیان حلفی دے سکتے ہیں کہ اشتہارات میں صوبائی حکومت کی تشہیر نہیں کی گئی؟ جسٹس اعجاز الاحسن جن اخبارات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ غیر معروف ہیں۔

چیف جسٹس نے ایک اشتہار ’خواب سچ کردکھایا‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس اشتہار میں عمران خان صاحب ساتھ کھڑے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں بیان حلفی دیں، اگر غلط بیانی کی گئی تو کارروائی کی جائے گی جبکہ غلط بیانی کی صورت میں آپ ذاتی طور پر ذمہ دار ہوں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں اور بھی لوگ معلومات دے دیتے ہیں، جس کے بعد انہوں ںے خیبرپختونخوا کی جانب سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں نشرکردہ ایک سال کی تمام تفصیلات طلب کرلیں۔

عدالت نے ریماکرس دیئے کہ سیکریٹری اطلاعات بیان حلفی جمع کرائیں کہ چیئرمین تحریک انصاف اور وزیراعلیٰ کی تصویر نہیں چھاپی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مہم کی اجازت نہیں دیں گے، اشتہار دینا ہے تو اپنی جیب سے دیں، انہوں ںے استفسار کیا کہ کیا عوامی پیسوں سے اپنی ذاتی تشہیر کی جاسکتی ہے؟

یہ بھی پڑھیں: تشہیری مہم ازخود نوٹس: عوام کے پیسوں کا حساب دینا ہوگا، چیف جسٹس

بعد ازاں سپریم کورٹ نے فریقین سے 13 مارچ تک تجاویز طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ 28 فروری کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے میڈیا پر جاری تشہیری مہم کا نوٹس لیا تھا اور اس حوالے سے جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

اس کے علاوہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے ایک اشتہار پر 55 لاکھ روپے خرچ کیے گئے جس پر 8 مارچ کو وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو سرکاری اشتہار کے 55 لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

SHARMINDA Mar 12, 2018 05:20pm
Government should not use tax payers money for advertisement at all. Rather they let people know by themselves from the benefits they get. They only reason for these ads are political point scoring while everyone knows core issues are still widely unresolved.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024