• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

اثاثہ جات ریفرنس: نیشنل بینک کے صدر پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی

شائع March 12, 2018

اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے سے متعلق ریفرنس میں نامزد 3 شریک ملزمان پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی جبکہ نیشنل بینک پاکستان کے صدر سعید احمد خان نے ضمنی ریفرنس خارج کرنے کی درخواست دائر کردی۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے سے متعلق ضمنی ریفرنس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران اسحٰق ڈار کی ہجویری مضاربہ کمپنی کے ڈائریکٹرز نعیم محمود اور سید منصور رضا رضوی کی جانب سے نیب ریفرنس کی کاپیاں غیر واضح ہونے سے متعلق درخواست دائر کی گئی، جسے عدالت نے مسترد کردیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے دائر ضمنی ریفرنس کی کاپی اسحٰق ڈار کی ہجویری مضاربہ کمپنی کے ڈائریکٹرز سعید احمد، نعیم محمود اور سید منصور رضا رضوی کو فراہم کی تھی اور انہیں آئندہ کی سماعت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا جبکہ ان ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 12 مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: اسحٰق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس: نیشنل بینک کے صدر پر فرد جرم عائد ہونے کا امکان

تاہم آج ہونے والی سماعت کے دوران نامزد ملزم سعید احمد خان نے اپنے وکیل حشمت حبیب ایڈووکیٹ کے ذریعے ریفرنس خارج کرنے کی درخواست جمع کرائی۔

درخواست میں کہا گیا کہ نیب کے ریفرنس کے متن کے مطابق ان کے موکل کے خلاف کیس نہیں بتنا اور سپریم کورٹ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اسحٰق ڈار کا بیان حلفی مسترد کرچکی ہے اور یہ ضمنی ریفرنس عدالت عالیہ کے پاناما فیصلے کی روح کے بھی منافی ہے، لہٰذا نہ صرف ریفرنس خارج کیا جائے بلکہ غلط الزامات پر نیب کو معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا جائے۔

اس سے قبل دیگر دوملزمان منصور رضا رضوی اور نعیم محمود کی جانب سے فراہم کی گئی ریفرنس کی نقول پر اعتراضات اور واضح دستاویزات کی فراہمی تک فرد جرم عائد نہ کرنے کی درخواست کی گئی، جسے عدالت نے مسترد کردیا۔

ملزمان کے وکیل قاضی مصباح ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کچھ صفحات غیر ملکی زبان میں ہیں جن کا ترجمہ فراہم نہیں کیا گیا، جب دستاویزات غیر واضح ہوں گی تو عدالت انصاف اور ہم دفاع کیسے کریں گے؟

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے اعتراض کیا کہ یہ درخواست تاخیری حربہ ہے، انہیں 4 متعلقہ دستاویزات پر کوئی اعتراض نہیں جبکہ عربی زبان کی 2 دستاویزات ان سے متعلق نہیں، لہٰذا ان کی درخواست خارج کی جائے۔

جس پر جج محمد بشیر نے ریمارکس دیئے کہ ان کے پاس بھی وہی نقول ہیں جو ملزمان کو فراہم کی گئی، بعد ازاں عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے سماعت 13 مارچ تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ نیب کی جانب سے سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے ریفرنس میں ضمنی ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔

مذکورہ ریفرنس میں نیب حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہجویری مضاربہ منیجمینٹ کمپنی کے ڈائریکٹرز میں شامل سعید احمد نے ہجویری ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے 7 ہزار شیئرز مرکزی ملزم (اسحٰق ڈار) کی اہلیہ کے نام پر منتقل کر دیئے تھے۔

نیب ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ این بی پی کے صدر سعید احمد کے نام پر 7 بینک اکاؤنٹس کھولے گئے تھے تاہم اب تک کی تحقیقات میں یہ واضح ہوا تھا کہ یہ بینک اکاؤنٹس اسحٰق ڈار اور ان کی اہلیہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے کھولے گئے تھے۔

نیب کے عبوری ریفرنس میں بتایا گیا تھا کہ سعید احمد نے جان بوجھ کر ملزمان کو اپنے بینک اکاؤنٹس استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔

ریفرنس میں نعیم محمود کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ یہ بھی ہجویری مضاربہ کے ڈائریکٹرز میں شامل ہیں جنہوں نے اس کیس کے مرکزی ملزم کی بینک اکاؤنٹ کھلوانے میں مدد کی۔

یہ بھی پڑھیں: نیشنل بینک کے صدر کے خلاف نیب کی کارروائی کا آغاز

تیسرے ملزم منصور رضا رضوی کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ پہلے ہجویری مضاربہ کے شیئر ہولڈر بھی ہیں تاہم نیب تحقیقات کے مطابق انہوں نے اسحٰق ڈار کو سعید احمد کے بینک اکاؤنٹس کی چیک بک وصول کرنے میں مدد دی۔

نیب کی جانب سے دائر ضمنی ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے دیگر ملزمان کے ساتھ مل کر 48 کروڑ 28 لاکھ روپے تک کا غیر قانونی مالی فائدہ حاصل کیا۔

نیب حکام کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مذکورہ رقم ملزم اسحٰق ڈار کے آمدن کے ذرائع میں موجود نہیں تھی اور وہ اس حوالے سے نیب کے سوالات کے جوابات دینے میں بھی ناکام ہوگئے اور اسی وجہ سے ملزم قومی احتساب آرڈننس 1999 کی کچھ شقوں کی خلاف ورزی میں ملوث پائے گئے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024