لال مسجد کا ‘مسمار جامعہِ حفصہ’ کے پلاٹ پر حق ملکیت کا دعویٰ
اسلام آباد: لال مسجد کی انتظامیہ نے حکومت کی جانب سے مسمار کی جانے والی عمارت جامعہِ حفصہ اور لائبریری کے پلاٹ پر ’حق ملکیت’ کا تحریری بورڈ آویزاں کردیا۔
انتظامیہ نے مسجد کے ساتھ ایک بورڈ لگایا جس میں اراضی کو اپنی جائیداد قرار دیا گیا جبکہ دوسری جانب کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اس معاملے پر تاحال خاموش ہے۔
یہ پڑھیں: مولانا عبدالعزیز کو لال مسجد میں اجتماع کرنے سے روک دیا گیا
واضح رہے کہ پرویز مشرف کے دوران حکومت میں لال مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسے اور لائبریری پر ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد جامعہِ حفصہ بلڈنگ اور لائبریری کو 2007 میں مسمار کردیا گیا تھا۔
آپریشن کے بعد حکومت اور مسجد انتظامیہ کے مابین معاہدہ طے پایا کہ سی ڈی اے جامعہِ حفصہ کی ازسر نو تعمیر کے لیے متبادل اراضی فراہم کرے گی۔
مسجد انتظامیہ کی جانب سے وفد کی سربراہی مولانا عبدالعزیز کررہے تھے۔
بعدازاں سی ڈی اے نے ایچ 11 میں 20 کنال کی اراضی مسجد انتظامیہ کو تفویض کی، جہاں تعمیراتی کام جاری ہے۔
دوسری جانب لال مسجد کی انتظامیہ نے مسمار شدہ جگہ پر بورڈ آویزاں کیا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مذکورہ جگہ مسجد کی ملکیت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لال مسجد آپریشن کی مکمل تحقیقات کیوں ضروری؟
مسجد کی شہداء فاؤنڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام احمد نے دعویٰ کیا کہ ’حکومت سے طے شدہ معاہدے کی رو سے ہم مسمار کی جانے والی عمارت کی جگہ کو لال مسجد کے احاطے میں شامل کرسکتے ہیں‘۔
بورڈ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’معاہدے کے مطابق مسجد کے برابر میں چار کنال کے پلاٹ کو مسجد کا حصہ بنانا تھا لیکن سی ڈی اے نے تاحال ایسے مسجد سے منسوب نہیں کیا‘۔
اس ضمن میں سی ڈی اے کے ترجمان ملک سلیم نے وضاحت دی کہ سی ڈی اے کسی معاہدے کا حصہ نہیں۔
ملک سلیم نے کہا کہ انہیں مذکورہ جگہ کو مسجد سے منسلک کرنے سے متعلق کسی معاہدے کے بارے میں علم نہیں۔
مزید پڑھیں: مولانا عزیز کا خفیہ اداروں سے مذاکرات کادعویٰ
انہوں نے واضح کیا کہ لال مسجد کے برابر والی جگہ سی ڈی اے کی ملکیت ہے اور اس پر تجاوزات کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی اور انتظامیہ نے گزشتہ برس مذکورہ پلاٹ پر تعمیراتی کام بھی رکوادیا تھا۔
اگر پلاٹ سی ڈی اے کی ملکیت ہے تو مسجد انتظامیہ کی جانب سے نصب بورڈ کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ کے سوال پر ترجمان سی ڈی اے نے کہا کہ وہ اس معاملے کو ازخود دیکھیں گے۔
خیال رہے کہ 2007 میں آپریشن کے بعد سی ڈی اے نے جی 6 سوک سینٹر کے ماسٹر پلان میں ردوبدل کیا اور لال مسجد کے آس پاس متعدد پلاٹوں کو مسمار کرکے جگہ کو کشادہ کردیا تھا۔
اس سے قبل پلاٹس بچوں کی لائبریری، جمنازیم وغیرہ کے لیے مخصوص تھے۔
سی ڈی اے کی جانب سے ماسٹر پلان میں تبدیلی کے بعد مسجد انتظامیہ نے حکومت پر زور دیا تھا کہ لال مسجد سے متصل خالی پلاٹ کو ان کے استعمال میں لانے دیا جائے جہاں آپریشن کے دوران متعدد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
لیکن سی ڈی اے نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر ماسٹر پلان میں تبدیلی کی جا چکی ہے۔
سی ڈی اے کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ’اگر لال مسجد کی انتظامیہ آج جگہ کی ملکیت کی دعویدار ہیں تو یہ غیر مناسب عمل ہے کیوں کہ مسجد سے متصل پلاٹ (قبرستان کی طرح) خالی رہنے کی درخواست کی گئی تھی اور اب وہ سائن بورڈ کن بنیادوں لگا سکتے ہیں؟‘
یہ خبر 12 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی