• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

ججز کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کرنے پر نہال ہاشمی سپریم کورٹ طلب

شائع March 6, 2018

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی کی نظر ثانی کی درخواست پر عدالت نے انہیں ذاتی حیثیت میں 07 مارچ کو طلب کرلیا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران نہال ہاشمی کے وکیل کامران مرتضٰی بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نہال ہاشمی نے جیل سے رہائی کے بعد ججز کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کی۔

جس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جو الفاظ استعمال کیے گئے میں ان پر شرمندہ ہوں اور میں اس پر معافی مانگتا ہوں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں نہال ہاشمی کی توہین آمیز ویڈیوز چلانے کا حکم دیا، جس پر عدالت میں اسکرین لگا کر ویڈیو چلائی گئی۔

مزید پڑھیں: توہینِ عدالت کیس: نہال ہاشمی اڈیالہ جیل سے رہا

سماعت کے دوران چیف جسٹس اور وکیل کامران مرتضٰی کے درمیان مکالمہ بھی ہوا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نہال ہاشمی کے بیان پر ان کی سزا بڑھائی جاسکتی ہے، جس پر وکیل نے اعتراض کیا کہ آپ ہماری اپیل ہی نہیں سن سکتے۔

کامران مرتضیٰ کے اعتراض پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اپیل کیوں نہیں سن سکتے، جس پر وکیل نہال ہاشمی نے کہا کہ میرے موکل کے خلاف فیصلہ تین رکنی بینچ نے دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ فیصلہ دو ججز نے دیا تھا، جس پر کامران مرتضٰی نے کہا کہ آپ اس مقدمے کو نہیں سن سکتے کیونکہ کارروائی آپ نے شروع کی تھی۔

کامران مرتضیٰ کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کارروائی شروع بھی کرسکتے ہیں اور سن بھی سکتے ہیں، آپ بار کے سینئر وکیل ہیں، جو تقریر نہال ہاشمی نے جیل سے رہائی کے بعد کی کیا آپ نے وہ سنی ہے؟

جس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں نے وہ تقریر نہ دیکھی نہ سنی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کمرہ عدالت میں نہال ہاشمی کی تقریر کی جو ویڈیو چلائی گئی کیا وہ آپ سن رہے ہیں، اس میں انتہائی نامناسب الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، کیوں نہ ان پر پرچہ درج کروادیں؟

سماعت کے دوران کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس تقریر پر ہمیں معافی دی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نہال ہاشمی خود آئیں گے تو دیکھیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نہال ہاشمی کے خلاف مواد موجود ہے اور آپ کے لیے یہ ٹیسٹ کیس ہے، جس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں نے عدالتی دامن نہیں چھوڑا، میری درخواست ہے کہ تحریری فیصلے میں یہ الفاظ نہ لکھوائیں، مجھے شرم آتی ہے۔

جس پر میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں کوئی شرم نہیں آتی، نہال ہاشمی نے خود اپنے لیے یہ راستہ چنا ہے، لہٰذا وہ خود ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔

بعد ازاں عدالت نے نہال ہاشمی کو 07 مارچ 2018 کو دن ایک بجے ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر

یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے اپنی جذباتی تقریر میں دھمکی دی تھی کہ پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ

ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے نہال ہاشمی نے جوش خطابت میں کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ حساب لینے والے کل ریٹائر ہوجائیں گے اور ہم ان کا یوم حساب بنادیں گے۔

ویڈیو میں نہال ہاشمی کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے،'اور سن لو جو حساب ہم سے لے رہے ہو، وہ تو نواز شریف کا بیٹا ہے، ہم نواز شریف کے کارکن ہیں، حساب لینے والوں! ہم تمھارا یوم حساب بنا دیں گے'۔

ان کا مزید کہنا تھا، 'جنھوں نے بھی حساب لیا ہے اور جو لے رہے ہیں، کان کھول کے سن لو! ہم نے چھوڑنا نہیں تم کو، آج حاضر سروس ہو، کل ریٹائر ہو جاؤ گے، ہم تمھارے بچوں کے لیے، تمھارے خاندان کے لیے پاکستان کی زمین تنگ کردیں گے'۔

لیگی سینیٹر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب ایک روز قبل وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز پاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے دوبارہ پیش ہوئے، جہاں ان سے 5 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔

وزیراعظم نواز شریف نے لیگی رہنما نہال ہاشمی کے متنازع بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں اسلام آباد طلب کرلیا تھا اور ساتھ ہی نہال ہاشمی کے خلاف پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پرانضباطی کارروائی کاحکم بھی دیا تھا۔

بعدِ ازاں گزشتہ برس 31 مئی 2017 کو مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی جانب سے نہال ہاشمی کی بنیادی پارٹی رکنیت بھی معطل کردی گئی تھی۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اونگزیب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نہال ہاشمی سے سینیٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ طلب کیا تھا۔

نہال ہاشمی نے پارٹی کی رکنیت سے محروم ہونے کے بعد سینیٹ کی نشست سے بھی استعفیٰ دےت دیا تھا تاہم چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے نہال ہاشمی کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا تھا کہ جبکہ انہیں بحیثیت سینیٹر کام جاری رکھنے کی رولنگ دی گئی تھی۔

بعدِ ازاں مسلم لیگ (ن) کی انضباطی کمیٹی نے نہال ہاشمی کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان سے عدلیہ کو 'دھمکیاں دینے' اور پارٹی قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کی وضاحت طلب کی جاسکے۔

اس کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر کا ازخود نوٹس لیا اور معاملہ پاناما کیس عملدرآمد بینچ کے پاس بھیجنے کی ہدایت کی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ اس نوٹس پر سماعت کر رہا تھا جس میں گزشتہ سماعت کے دوران نہال ہاشمی نے غیر مشروط معافی بھی مانگی تھی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نہال ہاشمی کو دھمکی آمیز تقریر اور توہینِ عدالت کیس میں ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

2 فروری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیئے جانے والے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کی سینیٹ نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا۔

سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو دل کی تکلیف کے باعث اڈیالہ جیل راولپنڈی کے ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا بعدِ ازاں انہیں طبی معائنے کے بعد دوبارہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں 28 فروری کو نہال ہاشمی کو ایک ماہ کی قید کی سزا کے بعد اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر عدلیہ اور ججز کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024