سعودی عرب کا دنیا کو ایک اور سرپرائز، آخر ہو کیا رہا ہے؟
گزشتہ سال نومبر میں درجنوں سعودی شہزادوں اور حُکام کی گرفتاری نے دنیا کو چونکا دیا، کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر گرفتاریوں کے بعد تحقیقات کے حوالے سے سعودی حکام کی خاموشی نے کئی قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔
اب ایک بار پھر شاہ سلمان نے ایک فرمان کے ذریعے رات کے اندھیرے میں اعلیٰ فوجی قیادت کو اچانک گھر بھیج کر دنیا کو دوسرا بڑا سرپرائز دیا ہے۔ سعودی عرب میں تبدیلیاں صرف حکومتی عہدوں پر ہی نہیں سماجی اور معاشی شعبوں میں بھی آ رہی ہیں اور دنیا بدلتے ہوئے سعودی عرب کو حیرت اور تجسس سے دیکھ رہی ہے۔
سعودی عرب میں تبدیلیوں کی بُنیاد شاہ سلمان نے اُس وقت ہی رکھ دی تھی جب اُنہوں نے روایت کو توڑتے ہوئے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد نامزد کرنے کے لیے اپنے بھتیجوں اور شاہی خاندان کے سینئرز کو برطرف کیا تھا۔ محمد بن سلمان کو ولی عہد کے ساتھ وزیرِ دفاع بھی مقرر کیا گیا۔ نوجوان شہزادے نے تقرر کے فوری بعد اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے یمن کی جنگ چھیڑی، جو اس کی ناتجربہ کاری اور حد سے بڑھے ہوئے اعتماد کا مظہر ہے۔
پڑھیے: سعودی شاہی خاندان کے اندرونی جھگڑوں کی داستان
یمن جنگ چوتھے سال میں داخل ہوچکی ہے اور اِس کے ختم ہونے کے آثار ابھی تک کہیں دکھائی نہیں دیتے بلکہ یمن اب بین الاقوامی قوتوں کے اکھاڑے میں بدل گیا ہے۔ یمن کے حوثیوں کے خلاف اس جنگ کو ابتداء میں ایران اور سعودی عرب کی کشمکش کے طور پر دیکھا گیا لیکن پچھلے ہفتے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف امریکا کی قرارداد کو روس نے ویٹو کیا، جس سے یہ جنگ اب صرف سعودی عرب اور ایران کی کشمکش نہیں رہی بلکہ دو بڑی طاقتوں امریکا اور روس کی مداخلت سے علاقائی تنازع سے بڑھ کر بین الاقوامی جنگ کا روپ دھار رہی ہے۔
ولی عہد محمد بن سلمان نے یمن جنگ چھیڑنے کے بعد معاشی اور سماجی تبدیلیوں کا بیڑہ اُٹھایا، 25 اپریل 2016ء کو وژن 2030ء متعارف کرایا۔ محمد بن سلمان کے وژن 2030ء کو سعودی عرب میں بڑی معاشی اور سماجی تبدیلیوں کا اعلان قرار دیا گیا، سعودی معیشت کا انحصار تیل سے دیگر وسائل کی طرف منتقل کرنا اس وژن کا اہم جزو تھا، جبکہ سماجی تبدیلیوں کے ذیل میں خواتین کے لیے ڈرائیونگ کا حق، کھیل کے میدانوں میں میچز دیکھنے کی اجازت، سینما گھروں کی بحالی، فوج میں خواتین کی بھرتی، اہم حکومتی عہدوں اور ملازمتوں میں حصہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔
جب وژن 2030ء کی تشہیر میں ایک برس گزر گیا تو محمد بن سلمان نے اقتدار کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر کئی حریف گرفتار کرا دیے، جن میں متعب بن عبداللہ جیسا بااثر شہزادہ اور ولید بن طلال جیسا امیر ترین شخص بھی شامل تھا۔ نومبر 2017ء میں ہونے والی گرفتاریوں کے بعد خبریں شائع کرائی گئیں کہ بلاتفریق احتساب کے ذریعے لوٹا گیا مال واپس لیا جا رہا ہے اور100 ارب ڈالر گرفتار افراد سے وصول کیے جائیں گے۔
پڑھیے: بحرانوں میں ڈوبتے اور اُبھرتے مشرق وسطیٰ کا سال 2017ء
3 ماہ حراست میں رکھنے کے بعد شہزادوں اور بااثر افراد کو رہا کردیا گیا لیکن کس سے کتنا مال وصول کیا گیا؟ اس کی تفصیل سرکاری طور پر جاری نہیں کی گئی۔ آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد سے نقد رقم بہت کم وصول ہوپائی اور زیادہ تر جائیدادیں اور اثاثے تحویل میں لیے جانے کے معاہدے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے صحراؤں میں موجود جائیدادوں اور اثاثوں کو عالمی مارکیٹ میں فروخت کیا جانا ممکن نہیں اور مقامی خریدار بھی کم ہی ملیں گے۔
اس سال کی بڑی خبر چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف، ایئر ڈیفنس چیف اور رائل سعودی ایئر فورس کے سربراہوں کا ہٹایا جانا ہے۔ اعلیٰ فوجی عہدیداروں کو ہٹائے جانے کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ وہ اعلیٰ فوجی عہدوں پر ایسے لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہیں جو اُن پر اور اُن کی وزارتِ دفاع پر یقین رکھتے ہوں۔ کرپشن کے خلاف مہم کے دوران گزشتہ سال نومبر میں سعودی نیشنل گارڈز کے سربراہ متعب بن عبداللہ کو پہلے ہی ہٹایا جاچکا ہے۔ اس طرح فوج پر محمد بن سلمان نے بظاہر اپنی گرفت مزید مضبوط کرلی ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ولی عہد کے 3 سالہ اقدامات کے باوجود وہ نہ ہی اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط بناسکے ہیں اور نہ ہی سعودی معیشت کا تیل پر انحصار کم ہوا ہے، اُلٹا سعودی عرب کو ماہانہ 5 ارب ڈالر یمن جنگ پر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ اعلیٰ فوجی قیادت کی اچانک برطرفی افواج کے مورال پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔ جبکہ حریف شہزادوں کی گرفتاری اور رہائی بھی ولی عہد کے خدشات دور نہیں کرپائی، جس کا اشارہ مشرقِ وسطیٰ کی ایک ویب سائٹ کی رپورٹ میں ملتا ہے۔
پڑھیے: سعودی عرب میں غیر معمولی فیصلوں کے پیچھے چُھپی اصل کہانی
مشرقِ وسطیٰ کی ویب سائٹ کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاک فوج کے اضافی دستے ولی عہد محمد بن سلمان کی خواہش پر بھیجے گئے۔ پاک فوج کے 1600 اہلکار پہلے سے سعودی عرب میں تعینات تھے جبکہ 1000 اہلکار مزید بھجوائے گئے ہیں۔ اس پر پارلیمان میں سوال اٹھائے گئے لیکن حکومت واضح جواب نہ دے پائی۔
رپورٹ کے مطابق مزید فوجی سعودی شاہی خاندان کی حفاظت کے لیے بھجوائے گئے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی شاہی خاندان کے اندرونی معاملات کی وجہ سے اُنہیں مقامی افراد پر اعتماد نہیں، اس لیے انہوں نے پاک فوج سے مدد طلب کی ہے۔
سی آئی اے کے سابق عہدیدار بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے نئے بھجوائے گئے دستے ولی عہد محمد بن سلمان کے شاہی محافظوں کے ساتھ بیک اپ کا کام کریں گے۔ کسی بھی خطرے یا سازش کی صورت میں پاک فوج کے دستے پاکستان اور سعودی شاہی خاندان سے وفادار رہیں گے۔ بروس ریڈل کا کہنا ہے محمد بن سلمان نے 3 سال کے دوران سعودی شاہی خاندان کے افراد سمیت کئی دشمن بنا لیے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کی ویب سائٹ کا دعویٰ اور بروس ریڈل کا تجزیہ کس حد تک درست ہے؟ اس کی تصدیق یا تردید متعلقہ فریق ہی کرسکتے ہیں لیکن حالات اور شواہد اس طرف اشارہ ضرور کرتے ہیں۔
دوسری طرف یمن جنگ سعودی حُکمرانوں کے گلے پڑ چکی ہے، ایران جو اِس جنگ کے آغاز کے وقت یمن کے حوثی باغیوں سے زیادہ مضبوط رابطے نہیں رکھتا تھا مگر اب باغیوں کو میزائل تک فراہم کررہا ہے، جو سعودی دارالحکومت سمیت اہم تنصیبات پر داغے جا رہے ہیں۔
پڑھیے: شہزادہ ولید کی گرفتاری کےباوجود دنیا میں معاشی زلزلہ کیوں نہ آیا؟
عرب امارات پر بھی میزائل حملہ ہوچکا، اس حملے میں بھی باغیوں کو ایران کی مدد حاصل ہونے کا شبہہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یمن جنگ سے پیدا ہونے والا انسانی المیہ بھی سعودی عرب کو دنیا بھر میں تنقید کی زد پر رکھے ہوئے ہے، جبکہ اس لڑائی میں امریکا کی حمایت حاصل کرکے سعودی عرب نے روس کو بھی ایران کے پیچھے لا کھڑا کیا ہے۔ اس بین الاقوامی اکھاڑے میں جاری لڑائی کا کوئی انجام مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔
ولی عہد کے وژن 2030ء میں تیل پر انحصار کم کرنے سمیت کئی اہداف بلند توقعات پر مبنی تھے۔ سعودی عرب میں مقامی نوجوانوں کو ملازمتوں اور کاروبار کی طرف راغب کرنے، کچھ غیرملکی سرمایہ کاری لانے کے اقدامات تیل پر انحصار کم یا ختم کرنے کی منزل کو قریب نہیں لاسکے۔
محمد بن سلمان کا وژن 2030ء مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اُن کا اِمیج بنانے کا اچھا ہتھیار تھا لیکن زمینی حقائق سے دور تھا اور پھر کم ہوتی تیل کی دولت بھی سعودی شاہی خاندان کے اقتدار کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے۔ سعودی حکومت نے مقامی شہریوں کے لیے مراعات میں کمی کا اعلان کیا تو سوشل میڈیا پر دارالحکومت میں احتجاج کی دھمکی کے بعد انہیں یہ اعلان واپس لینا پڑا۔ اب سعودی شاہی خاندان کو عوامی مقبولیت کا سہارا لینا پڑرہا ہے تاکہ آنے والے دور میں معاشی مشکلات عوام کو بغاوت کی طرف نہ لے جائیں۔
پڑھیے: قطر یا سعودی عرب، امریکا یا روس؟ پاکستان کس کس کو راضی کرے گا
عوامی مقبولیت کے لیے سماجی آزادیوں کا آغاز کیا گیا ہے۔ خواتین کو ڈرائیونگ، کھیل کے میدانوں میں جانے کی اِجازت، فوج میں بھرتی جیسے اقدامات اسی مجبوری کا حصہ ہیں۔ خواتین کو حکومتی عہدوں پر تعینات کرنے کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور تفریح پر بھی خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ سینما گھروں کی بحالی بھی اس کا ایک مظہر ہے۔ اب سعوی شوریٰ میں بھی مزید تبدیلیوں اور فیصلہ سازی میں عوام کی شمولیت کے بھی اقدامات متوقع ہیں۔
وژن 2030ء میں سیاحت اور انٹرٹینمنٹ کے فروغ کے لیے سماجی آزادیوں کا بھی ذکر ہے۔ ان سماجی آزادیوں کے لیے بھی سعودی شاہی خاندان کو نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اس سے پہلے سعودی شاہی خاندان علماء کی مدد سے حکومت کرتا رہا ہے۔ مذہبی اداروں اور علماء کا حکومتی پالیسیوں میں اثر و رسوخ ہے۔ تیل پر انحصار کم کرنے اور معیشت کی ترقی سعودی حکومت کی پہلی ترجیح ہے لیکن ایک موقع ایسا آئے گا جب سعودی شاہی خاندان سیاسی اصلاحات پر مجبور ہوگا۔ ولی عہد اور مستقبل کے بادشاہ محمد بن سلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی اصلاحات پر مجبور ہونے سے پہلے معاشی و سیاسی دونوں اہداف کے حصول کی طرف تیزی سے پیش قدمی کریں۔
ان اہداف کے حصول کے لیے سعودی عرب کو علاقائی تنازعات، دہشتگردی اور کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یمن جنگ واحد علاقائی تنازع نہیں، قطر کا مقاطعہ، بحرین میں مداخلت اور ایران کے خلاف لبنان اور شام میں پراکسی وار سعودی عرب کے بڑے مسائل ہیں۔ یہ تنازعات دہشتگردی اور انتہاپسندی بڑھنے کا سبب بھی بن رہے ہیں، سعودی عرب پہلے ہی القاعدہ سے نبرد آزما ہے۔ سماجی آزادیاں قدامت پسند معاشرے میں خطرہ بھی بن سکتی ہیں اور علماء کا اعتماد جیتے بغیر یہ اقدامات فائدے کے بجائے نقصان کا موجب ہوسکتے ہیں۔
کرپشن کسی بھی معاشرے کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ شاہی خاندان کو اپنا اندازِ زندگی بھی بدلنا ہوگا، جس میں مزاحمت ابھی سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔ معاشی مشکلات بڑھنے پر سب سے پہلے عوام کی نظر حُکمرانوں کے اندازِ زندگی اور مراعات پر ہی پڑتی ہے۔ کرپشن کے خلاف حالیہ مہم شفاف نہ ہونے کی وجہ سے اعتماد حاصل نہیں کرپائی۔ حریف شہزادوں کا احتساب اور خود بیرونِ ملک اثاثے بنانے کی خبریں بھی عوامی مقبولیت کے اقدامات کا اثر زائل کرسکتی ہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں