سینیٹ انتخابات میں کب، کیا اور کیسے ہوتا ہے؟ مکمل طریقہ
ایک ایسی صورتحال میں کہ جب ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی ایک نشست کے حصول کے لیے بھی، متعلقہ صوبے میں، مطلوبہ ارکان اسمبلی کی تعداد پوری نہ ہونے کے باوجود، سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ٹکٹ ہولڈرز سینیٹ انتخابات کے اکھاڑے میں اُتار رکھے ہوں، وہاں عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر سینیٹ کی نشست کے یہ امیدوار، اپنوں اور غیروں سے، جیت کے لیے مطلوبہ ووٹ کیسے اور کیونکر حاصل کریں گے؟
اس اہم ترین اور دیگر کئی اہم سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لیے یقیناً سینیٹ انتخابات میں ووٹنگ کے طریقہءِ کار اور نشستوں کے حصول کے عمل کو سمجھنا لازم قرار پاتا ہے۔ ترجیحی انتخاب کہلانے والے سینیٹ الیکشن کے اس عمل کو آئینی، قانونی، سیاسی اور انتخابی ماہرین اس لیے بھی قدرے پیچیدہ گردانتے ہیں کہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے طے پانے والا یہ عمل ماضی میں کئی مرتبہ حیران کن انتخابی نتائج کی وجہ سے بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔
سینیٹ کے اجزائے ترکیبی، مُدت اور انتخاب
ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 104 سینیٹرز کے اِس ایوان میں چاروں صوبوں سے کُل 23 ارکان ہیں۔ جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور 1 اقلیتی رکن ہے۔ فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کُل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور ایک ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔
سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اِس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب سے 12 سینیٹرز کا انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 11 سیینیٹرز منتخب ہوں گے جبکہ فاٹا سے 4 اور اسلام آباد سے 2 ارکان ایوانِ بالا کا حصہ بنیں گے۔
قانون کے مطابق سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری اور ترجیحی ووٹ کی بنیاد پر منعقد کیے جاتے ہیں، جس کی گنتی کا طریقہءِ کار مشکل اور توجہ طلب ہے۔
مزید پڑھیے: سینیٹ انتخابات کا گورکھ دھندا! کون فائدے اور کون نقصان میں؟
سمجھنے کی بات کچھ یوں ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیاں تو سینیٹ کے انتخابات کا الیکٹورل کالج ہیں ہی کہ چاروں صوبوں کے صوبائی کوٹے سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبے کی اسمبلی کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوں گے، لیکن اس کے ساتھ فاٹا کے سینیٹرز کا انتخاب، قومی اسمبلی میں موجود فاٹا کے 12 ارکان کریں گے، جبکہ اسلام آباد کے سینیٹرز کا انتخاب بشمول فاٹا اراکین پوری قومی اسمبلی کے ارکان کریں گے۔
سینیٹ انتخابات میں پولنگ، ووٹنگ اور گنتی کا طریقہءِ کار
ایوانِ بالا کی 52 نشستوں پر انتخاب کے لیے پولنگ 3 مارچ کو ہوگی۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پولنگ چاروں متعقلہ صوبائی اسمبلیوں میں جبکہ اسلام آباد اور فاٹا کی نشستوں کے لیے پولنگ قومی اسمبلی میں ہوگی۔ الیکشن قوانین میں طے شدہ فارمولے کے مطابق ایک نشست کے حصول کے لیے لازم قرار پانے والے ووٹوں کی تعداد کے گولڈن فگر کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی کُل تعداد کو مذکورہ صوبے کے حصے میں آنے والی سینیٹ کی موجود خالی نشستوں سے تقسیم کیا جائے گا۔
پنجاب اسمبلی کے ارکان کی کُل تعداد 371 ہے۔ پنجاب سے سینیٹ کی 7 خالی جنرل نشستوں پر انتخابات ہورہے ہیں۔ ارکان کی کل تعداد 371 کو خالی نشستوں کی تعداد 7 سے تقسیم کیا جائے تو ہر امیدوار کے لیے مطلوبہ ووٹوں کی تعداد یعنی گولڈن فگر 53 بنتی ہے۔ یعنی پنجاب سے ایک جنرل نشست حاصل کرنے کے لیے امیدوار کو 53 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
ٹینکنوکریٹ، خواتین اور اقلیتی نشستیں، جن پر متعلقہ صوبے میں انتخابات ہونے جارہے ہیں، ان کو 371 نشستوں پر تقسیم کرنے سے ہر نشست کے لیے گولڈن فگر یا مطلوبہ ووٹوں کی تعداد معلوم کی جاسکتی ہے۔ مثلاً پنجاب میں خواتین کی 2 نشستوں کو کل ارکان 371 پر تقسیم کیا جائے تو مطلوبہ ووٹوں کی تعداد یعنی گولڈن فگر 186 بنتی ہے۔ یعنی پنجاب سے خواتین کی ایک نشست حاصل کرنے کے لیے امیدوار کو 186 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ گولڈن فگر حاصل نہ کرنے کی صورت میں کسی بھی نشست پر انتخاب لڑنے والا امیدوار، اس نشست کے تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں بھی کامیاب قرار پائے گا۔ دوسری صورت میں گولڈن فگر سے زائد حاصل کیے گئے ووٹ، اس سے اگلے ترجیحی امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے اور ایسے ہی یہ سلسلہ آگے بڑھتا جائے گا۔ ووٹوں کے اس انتقال کے باعث سینیٹ انتخابات کو منتقل شدہ ووٹوں کا انتخاب بھی کہا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر پنجاب سے سینیٹ کی 7 جنرل نشستوں پر اگر 20 امیدوار حصہ لے رہے ہیں تو پنجاب اسمبلی کے تمام ارکان کو ایک ایسا بیلٹ پیپر دیا جائے گا جس پر تمام 20 امیدواروں کے نام بغیر انتخابی نشان کے درج ہوں گے۔ ووٹ دینے والے ارکانِ پنجاب اسمبلی بیلٹ پیپر پر تمام امیدواروں کے نام کے آگے ایک سے 20 تک کا ترجیحی ہندسہ درج کریں گے اس طرح سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ یعنی ایک کا ہندسہ حاصل کرنے والا امیدوار سینیٹر منتخب ہوجائے گا۔
اگر وہ امیدوار مقررہ گولڈ فگر یعنی 53 سے زائد مرتبہ ایک کا ہندسہ حاصل کرتا ہے تو تمام اضافی ایک یعنی اضافی ووٹ دوسری ترجیح حاصل کرنے والے امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے اور یوں یہ عمل 7 سینیٹرز کے انتخاب تک دُہرایا جائے گا۔ اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی ووٹر یعنی رُکن صوبائی اسمبلی 1 سے 20 تک ترجیحی ہندسہ درج کرتے ہوئے کوئی ایک ہندسہ بھول جائے یعنی 9 کے بعد 10 کی ترجیح لگانے کے بجائے کسی امیدوار کے سامنے 11 کی ترجیح لگادے تو اس کے 9 ووٹ گنے جائیں گے جبکہ 9 کے بعد 20 تک کے سارے ترجیحی ووٹ کینسل یا منسوخ شمار ہوں گے۔
سینیٹ انتخابات کے اسی طے شدہ فارمولے کے تحت، جنرل نشستوں کے انتخابات میں، سندھ اسمبلی سے 24 ووٹ لینے والے امیدوار کو کامیاب تصور کیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی سے سینیٹ کی جنرل نشستوں کے لیے 18 ووٹ اور بلوچستان اسمبلی سے سینیٹ کی جنرل نشستوں پر امیدوار کو کامیابی کے لیے 9 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
فاٹا سے سینیٹ کی 4 نشستوں کے انتخابی عمل میں فاٹا کے 11 ارکانِ قومی اسمبلی ووٹ دیں گے، فاٹا سے سینیٹ کے ایک کامیاب امیدوار کے لیے 3 ووٹ حاصل کرنے ضروری ہیں۔ اسلام آبا کی 2 نشستوں پر ہونے والے سینیٹ انتخابات میں پوری قومی اسمبلی ووٹ دے گی۔ اسلام آباد کی جنرل اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں بھی اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب تصور کیا جائے گا۔
سینیٹ الیکشن: کس نشست پر، کس جماعت کے کتنے امیدوار؟
2018ء کے سینیٹ انتخابات کے لیے چاروں صوبوں، فاٹا اور اسلام آباد سے 135 امیدوار میدان میں ہیں۔
پنجاب سے 20 امیدوار حتمی فہرست میں شامل ہیں۔ جنرل نشستوں پر 10، خواتین کی نشستوں پر 3، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 5 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 2 امیدوار میدان میں اُتریں گے۔
سندھ سے مجموعی طور پر 33 امیدوار الیکشن میں حصہ لیں گے۔ جنرل نشستوں پر 18، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 6، خواتین کی نشستوں پر 6 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 3 امیدوار مقابلہ کریں گے۔
خیبر پختونخوا سے کُل 27 امیدواروں میں مقابلہ ہوگا۔ جنرل نشستوں پر 14، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 5 اور خواتین کی نشستوں پر 8 امیدواروں میں مقابلہ ہے۔
مزید پڑھیے: مسلم لیگ (ن) 18 سال بعد سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت بنے کو تیار
بلوچستان سے 25 امیدوار سینیٹ الیکشن میں حصہ لیں گے۔ جنرل نشستوں پر 15، خواتین کی نشستوں پر 6 جبکہ ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 4 امیدوار پنجہ آزمائی کریں گے۔
ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے 20، ایم کیو ایم پاکستان کے 14، تحریک انصاف کے 13 پاک سرزمین پارٹی کے 4 جبکہ 65 آزاد امیدوار سینیٹ انتخابات میں حصہ لیں گے جن میں مسلم لیگ (ن) کے وہ 23 امیدوار بھی شامل ہیں جو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑسکیں گے۔
چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کی پارٹی پوزیشن
پنجاب اسمبلی کی کُل نشستیں 371 ہیں جبکہ موجودہ ارکان کی تعداد 367 ہے۔ سینیٹ انتخابات کے وضح کردہ فارمولے کے مطابق پنجاب اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے، امیدوار کو 53 ووٹ لینے ہوں گے۔
پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 309، تحریک انصاف کے 30، پیپلز پارٹی کے 8، مسلم لیگ ق کے 8، آزاد ارکان 5، مسلم لیگ ضیاء کے 3 ارکان ہیں جبکہ پاکستان نیشنل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور بہاولپور نیشنل عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
سندھ اسمبلی کی کُل نشستیں 168 ہیں جبکہ موجودہ ارکان کی تعداد 167 ہے۔ فارمولے کے تحت سندھ اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے امیدوار کو 24 ووٹ لینے ہوں گے۔
سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے 95، ایم کیوایم کے 50، مسلم لیگ فنکشنل کے 9، مسلم لیگ (ن) کے 7، تحریک انصاف کے 4 ارکان ہیں، جبکہ نیشنل پیپلز پارٹی کا ایک اور ایک آزاد رکن اسمبلی ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کی کُل نشستیں 124 ہیں جبکہ موجودہ ارکان کی تعداد 123 ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے، امیدوار کو 18 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
خیبر پختوںخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے 61، (ن) لیگ کے 16، جمعیت علمائے اسلام کے 16، قومی وطن پارٹی کے 10، جماعت اسلامی کے 7، پیپلز پارٹی کے 6، عوامی نیشنل پارٹی کے 5 ارکان ہیں، جبکہ 2 آزاد رکن اسمبلی ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کی کُل نشستیں اور موجودہ ارکان کی تعداد 65 ہے۔ بلوچستان اسمبلی سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے حصول کے لیے امیدوار کو 9 ووٹ لینے ہوں گے۔
بلوچستان اسمبلی میں (ن) لیگ کے 21، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 14، نیشنل پارٹی کے 11، جمعیت علمائے اسلام کے 8، ق لیگ کے 5، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے 2 ارکان اسمبلی ہیں جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، مجلس وحدت المسلمین، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن اسمبلی اور ایک آزاد رکن اسمبلی ہے۔
ایوانِ زیریں ایوانِ بالا کو کیسے زیر کرے گا؟
اس وقت 342 کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں 340 ارکان موجود ہیں۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کے ارکان اسمبلی کی تعداد 221 ہے، جس میں مسلم لیگ (ن) کے 187، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 14، مسلم لیگ فنکشنل کے 5، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 3، نیشنل پیپلز پارٹی کے 2، مسلم لیگ ضیاء اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
حزبِ اختلاف جماعتوں کے کُل ارکان کی تعداد 119 ہے۔ جن میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 47، پاکستان تحریک انصاف کے 33، ایم کیو ایم کے 24، جماعت اسلامی کے 4، مسلم لیگ قائد اعظم کے 4، عوامی نیشنل پارٹی کے 2 ارکان ہیں جبکہ آل پاکستان مسلم لیگ، قومی وطن پارٹی کا ایک ایک رکن اسمبلی ہے اور 3 آزاد ہیں۔
ایوانِ بالا میں موجودہ پارٹی پوزیشن اور امکانات کا کھیل
ایوانِ بالا میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی 26 نشستیں ہیں۔ ان کے 18 سینیٹرز ریٹائر ہورہے ہیں جبکہ مجوزہ فارمولے کی روشنی میں پیپلز پارٹی کے بظاہر 8 نئے سینیٹرز ایوان کا حصہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینیٹ میں 27 نشستیں ہیں۔ 9 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے۔ سپریم کورٹ سے میاں نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو آزاد امیدوار قرار دینے سے قبل، پارٹی آسانی سے 18 نئے سینیٹرز منتخب کرانے کی پوزیشن میں تھی تاہم اب انتخابی ماہرین کی نظریں کچھ نیا دیکھ رہی ہیں۔
- آزاد سینیٹرز کی 10 نشستیں ہیں، 5 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے جبکہ 5 ہی نئے منتخب ہونے کا امکان ہے۔
- متحدہ قومی مومنٹ کی 8 نشستیں ہیں، 4 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے اور بظاہر 4 نئے آنے کا امکان ہے۔
- سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی 7 نشستیں ہیں۔ ایک سینیٹر ریٹائر ہوگا اور اگر کوئی انہونی نہیں ہوئی تو تحریک انصاف 6 نئے سینیٹرز لاسکتی ہے۔
- عوامی نیشنل پارٹی کی 6 نشستیں ہیں، 5 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے۔ ایک نیا سینیٹر منتخب ہونے کا امکان ہے۔
- جمعیت علمائے اسلام (ف) کی 5 نشستیں ہیں، 3 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے جبکہ 2 نئے منتخب ہوسکتے ہیں۔
- پاکستان مسلم لیگ (ق) کی 4 نشستیں ہیں اور چاروں سینیٹرز ریٹائر ہور ہے ہیں۔ اس سیاسی جماعت کا کوئی نیا سینیٹر آنے کا امکان نہیں۔
- پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی 3 نشستیں ہیں۔ کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہو رہا جبکہ 3 نئے سینیٹرز منتخب ہوسکتے ہیں۔
- نیشنل پارٹی کی 3 نشستیں ہیں۔ اس جماعت کا بھی کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہونے جارہا۔ یہ جماعت بھی بظاہر 3 نئے سینیٹرز لاسکتی ہے۔
- بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی 2 نشستیں ہیں اور دونوں سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں۔ یہ جماعت بھی بظاہر کوئی نیا سینیٹر لانے کی پوزیشن میں نہیں۔
- بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی سینیٹ میں ایک نشست ہے، کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہو رہا۔ یہ جماعت بظاہر ایک نیا سینیٹر لانے کی پوزیشن میں ہے۔
- جماعتِ اسلامی کی ایک نشست ہے، کوئی سینیٹر ریٹائر نہیں ہو رہا۔ جماعت اسلامی کا ایک نیا سینیٹر منتخب ہوسکتا ہے۔
- پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کا ایوان میں ایک سینیٹر ہے جو ریٹائر ہوجائے گا۔ یہ جماعت بھی بظاہر نیا سینیٹر منتخب کرانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہی۔
مستقبل کے ایوانِ بالا میں ممکنہ پارٹی پوزیشن
مارچ 2018ء کے بعد سینیٹ کے 104 نشستوں کے ایوان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے جیتنے کی صورت میں 36 ارکان کے ساتھ پہلے، پاکستان پیپلز پارٹی 16 ارکان کے ساتھ دوسرے جبکہ پاکستان تحریک انصاف 12 ارکان کے ساتھ تیسرے نمبر پر نظر آتی ہے۔
آئندہ ایوانِ بالا میں آزاد سینیٹرز کی تعداد 10، ایم کیوایم کے سینیٹرز کی تعداد 8، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد 6 جبکہ نیشنل پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد بھی 6 ہوسکتی ہے۔
مستقبل کے سینیٹ میں جمعیت علمائے اسلام 4 جبکہ جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی 2، 2 نشستیں حاصل کرسکتی ہیں۔
اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کی روشنی میں پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی نمائندگی سینیٹ سے ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
سینیٹ انتخابات کی ووٹر فہرست
سینیٹ انتخابات کے لیے حتمی ووٹر فہرست تیار کرلی گئی ہے۔ اس وقت قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 1070 نشستوں میں سے 9 نشستیں خالی ہیں۔ قومی اسمبلی کی 3، پنجاب اسمبلی کی 4 جبکہ سندھ اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی ایک، ایک نشست خالی ہے۔ یوں سینیٹ انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 1061 ارکان 52 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے۔
قومی اسمبلی کے 339 ارکان اسلام آباد کے 2 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے جبکہ پنجاب اسمبلی کے 367 ارکان پنجاب کے 12 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے۔ سندھ اسمبلی کے 167 ارکان 12 سینیٹرز کو منتخب کریں گے جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے 123 ارکان 11 سینیٹرز کو منتخب کریں گے۔ بلوچستان اسمبلی کے 65 ارکان 11 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے جبکہ قومی اسمبلی کے 11 فاٹا ارکان 4 فاٹا سینیٹرز کا انتخاب کریں گے۔
پنجاب اور سندھ میں 7، 7 جنرل نشستوں، خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی 2، 2 نشستوں اور ایک اقلیتی نشست پر انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 7،7 جنرل نشستوں جبکہ خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی 2، 2 نشستوں پر انتخاب ہوگا۔ فاٹا میں 4 جنرل نشستوں جبکہ اسلام آباد میں ایک جنرل نشست اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست کے لیے انتخاب ہوگا۔
کاغذات نامزدگی فارمز میں ارکانِ پارلیمنٹ کے لیے کھلی چُھٹی
پارلیمنٹ کا رُکن بننے کے لیے تمام اہم شرائط ختم جبکہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں بڑی تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ بینک ڈیفالٹرز، ٹیکس ادا نہ کرنے والے اور فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے والے بھی سینیٹ اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں ڈرامائی تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ سینیٹ الیکشن کے لیے ترتیب دیے گئے کاغذات نامزدگی میں انکشاف ہوا ہے کہ عوامی نمائندوں کو رُکنِ پارلیمنٹ بننے کے لیے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔
بینکوں سے قرضے معاف کرانے والے بھی حالیہ سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے۔ گیس، بجلی اور ٹیلی فون بلز ڈیفالٹر بھی سینیٹ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے جبکہ فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے والے اور ٹیکس چور بھی انتخاب لڑسکتے ہیں۔
موجودہ پارلیمنٹ کی جانب سے بنائے گئے 2017ء کے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں کئی بڑی تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ کاغذات نامزدگی فارم سے قرضہ معافی اور یوٹیلٹی بلز ڈیفالٹر کا خانہ ختم کردیا گیا ہے۔ فوجداری مقدمات، نیشنل ٹیکس نمبر اور ٹیکس ادائیگی کی تفصیلات بھی ختم کردی گئیں ہیں۔ امیدواروں کی تعلیمی قابلیت، ذریعہ معاش اور نیشنل ٹیکس نمبر کا خانہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: سینیٹ انتخابات: ’پارلیمنٹ کے باہر ایف سی اور رینجرز تعینات کی جائے گی‘
ماضی میں سینیٹ انتخابات کے کاغذات نامزدگی میں مذکورہ بالا تمام شرائط شامل تھیں، اہم ترین بات یہ ہے کہ کاغذات نامزدگی میں تبدیلیاں، پارلیمنٹ میں موجود ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے مِل کر کی ہیں۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی امیدواروں کے لیے ایک ہی طرح کے کاغذات نامزدگی ترتیب دیے گئے ہیں۔ ماضی میں سینیٹ انتخابات کے امیدواروں اور عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے لیے علیحدہ علیحدہ کاغذات نامزدگی بنائے گئے تھے۔
پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات نے 3 برسوں کی محنت کے بعد انتخابی اصلاحات کا ایکٹ تیار کیا۔ ماضی میں انتخابی ایکٹ کی روشنی میں الیکشن کمیشن انتخابی قوانین اور قواعد و ضوابط ترتیب دیتا تھا جس میں انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی سمیت مختلف انتخابی فارمز کا بنانا بھی شامل تھا۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انتخابی ایکٹ کے بعد انتخابی قوانین اور انتخابی فارمز بھی پارلیمنٹ نے بنائے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی منظوری کے بعد یہ انتخابی فارمز اور انتخابی قوانین پر مشتمل مذکورہ انتخابی صلاحات ایکٹ 2017ء الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا گیا تھا۔
پارلیمنٹ کی جانب سے نئے بنائے گئے کاغذات نامزدگی کا تجربہ پہلی مرتبہ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں کیا جارہا ہے۔ ان کاغذات نامزدگی کو استعمال کرتے ہوئے 3 مارچ کو سینیٹ کے 52 نئے اراکین کا انتخاب کیا جائے گا۔
ملک میں جولائی 2018ء میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات میں بھی یہی کاغذات نامزدگی استعمال کیے جائیں گے۔ انتخابی ماہرین کی رائے میں، نئے کاغذات نامزدگی میں پارلیمنٹ کا رکن بننے کی اہم ترین شرائط کو ختم کردینے سے کئی اہم سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔
سیاسی ماہرین کا مؤقف ہے کہ نئے کاغذات نامزدگی میں ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامے میں تبدیلی سے میڈیا میں بحث کا رُخ صرف اسی عمل کی جانب مرکوز ہوگیا تھا، حالانکہ اس دوران انتخابی فارمز میں انتہائی اہم نوعیت کی کئی بنیادی تبدیلیاں بھی کردی گئی ہیں۔
محمد فیاض راجہ گزشتہ 15 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت، بزنس پلس ٹی وی، جیو ٹی وی اور سماء ٹی وی سے بطور رپورٹر وابستہ رہے ہیں. آج کل ڈان نیوز میں بطور نمائندہ خصوصی کام کر رہے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: mfayyazraja@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں