میموگیٹ اسکینڈل: ہمیں بلا خوف و خطر اقدامات کرنے ہیں، چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں میموگیٹ اسکینڈل کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل وقار رانا کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہمیں بلاخوف و خطر اقدامات کرنے ہیں، اللہ کا کرم رہا تو کوئی لابی کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے میموگیٹ اسکینڈل کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل وقار رانا اور درخواست گزار بیرسٹر ظفر اللہ اور ایف آئی اے کے نمائندے بھی پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل وقار رانا نے عدالت کو بتایا کہ حکومت پاکستان کو انٹرپول نے 22 فروری کو کچھ سوالات بھجوائے تھے، جس پر ہم نے ڈوزیئر تیار کرکے انٹرپول کو بھجوانا ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ابھی تک اگلا قدم اٹھایا ہی نہیں ہے جس پر وقار رانا نے معزز جج کو بتایا کہ جس طرح وزارت داخلہ میں فائل رکھی رہی اسی طرح یہاں بھی فائل رکھی ہوئی ہے، آپ نے توہین عدالت میں حسین حقانی کے جو وارنٹ گرفتاری جاری کیے وہ انٹرپول کی ضرورت کے مطابق نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: میموگیٹ اسکینڈل: حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری
انہوں نے کہا کہ انٹرپول کو ریڈ وارنٹ کی درخواست کی تھی، جس پر انہوں نے سوالات بھجوائے ہیں، انٹرپول کے ذریعے گرفتاری کے لیے ضروری ہے کہ ملزم کسی ایسے جرم میں مطلوب ہو جس کی سزا کم از کم دو سال ہو۔
اس دوران وقار رانا نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی کارروائی سے حسین حقانی اور ان کی لابی کافی متحرک ہوجاتی ہے، ہم ذرائع ابلاغ کی رپورٹنگ کے مخالف نہیں مگر ہم نہیں چاہتے کہ میڈیا میں آنے کے بعد حسین حقانی کی لابی سرگرم ہوجائے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بلا خوف و خطر اقدامات کرنے ہیں، اللہ کا کرم رہا تو کوئی لابی کچھ نہیں بگاڑ سکتی، مجھے علم نہیں کہ حسین حقانی کی دوہری شہریت ہے یا نہیں لیکن انٹرپول ہماری دسترس میں نہیں لہٰذا انہیں درکار مواد دینا ہوگا۔
وقار رانا نے سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ توہین عدالت کا جو نوٹس جاری ہوا تھا اس میں زیادہ سے زیادہ سزا 6 ماہ ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میمو گیٹ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جو سفارش کی ہیں اس پر ایف آئی آر کیوں درج نہیں ہوئی؟
جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے کچھ گزارشات ہیں جو چیمبر میں سنی جائیں اور عدالت ایک ہفتے کا وقت دے ایف آئی اے رپورٹ درج کرائی گی۔
اس موقع پر ایف آئی اے کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ وزیر خارجہ میں اس بارے میں تاحال ایسی کوئی شکایت درج نہیں کرائی، جس کی بنا پر کارروائی کی جاسکے۔
تاہم امریکا میں فنڈز کے غلط استعمال پر ایف آئی اے سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے خلاف مقدمہ درج کرے گی۔
سماعت کے دوران درخواست گزار بیرسٹر ظفر اللہ نے عدالت کو بتایا کہ حسین حقانی غداری کے مرتکب ہوئے ہیں اور وہ عدالت سے مفرور ہیں جبکہ ان کے خلاف شواہد ریکارڈ کیے جاچکے ہیں۔
بعد ازاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی درخواست کے بعد چیف جسٹس نے درخواست گزار، ایف آئی اے کے نمائندے اور وقار رانا کو چیمبر میں بریفنگ دینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 7 مارچ تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ 15 فروری کو سپریم کورٹ میں میموگیٹ اسکینڈل کی سماعت کے دوران عدالت نے سابق سفیر حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
اس سے قبل کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے میمو گیٹ اسکینڈل میں سیکریٹری داخلہ اور خارجہ اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کو حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کرنے کا کہا تھا۔
میموگیٹ اسکینڈل
واضح رہے کہ میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔
یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک پراسرار میمو بھیجا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: میموگیٹ اسکینڈل: حسین حقانی کی گرفتاری کیلئے حکومت انٹرپول کے جواب کی منتظر
اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔
جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد پاکستان کی سویلین حکومت کو امریکا کا دوست ظاہر کرنا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایٹمی پھیلاؤ روکنے کا کام صرف سویلین حکومت ہی کر سکتی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔
کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ 'حسین حقانی یہ بھول گئے تھے کہ وہ پاکستانی سفیر ہیں، انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی'۔