لُطف اللہ، ٹھگ اور سندھ کا ساحل
ماضی سے آشنائی کا ایک بہتر ذریعہ گزرے زمانوں کی آپ بیتیاں اور سفرنامے ہیں۔ ضرور ایسی کئی مشاہداتی تحریریں رہی ہوں گی جو ہم تک نہ پہنچ سکیں، اب اس میں بدنصیبی کس کی ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ مگر شکر ہے کہ چند قلم کاروں کا قلمبند کیا ہوا ماضی اور وقتِ حیات ہم تک بحفاظت پہنچا اور ہم نے بھی اسے ماضی کا جھروکا بنا لیا۔
ماضی میں جھانکتی ایسی ہی ایک آپ بیتی ’لُطف اللہ‘ کی بھی ہے، جس میں ’آپ‘ بہت کم البتہ ’بیتی‘ کچھ زیادہ ہے۔ یہ بھی کیا کمال سے کم ہے کہ ایک شخص اپنی داستانِ زندگی سننے کی دعوت دے اور پھر داستان میں اپنا ذکر کم اور زمانے کا تذکرہ زیادہ سے زیادہ کرے، تو یہ کمال میاں لُطف اللہ ہی کرسکتے تھے اور کرگئے، بلاشبہ یہ سب کے بس کی بات نہیں۔
لُطف اللہ 4 نومبر 1802ء میں جاڑوں کی موسم کی ابتداء میں مالوہ کے شہر دھارا نگر میں پیدا ہوا۔ وہ ایک ذہین اور زندگی کی مشکلات سے نبردآزمائی کرنے والا شخص تھا۔ وہ سندھ میں 36 برس کی عمر میں یعنی 1838ء میں آیا تھا اور ایک برس تک یہاں رہا۔ لُطف اللہ نے اپنی آپ بیتی انگریزی میں تحریر کی تھی، اور یہ اپنے زمانے میں مشہور کتاب ثابت ہوئی اور مسلسل 3 بار شایع ہوئی۔
اس کتاب کا اردو ترجمہ ڈاکٹر مبارک علی نے کیا ہے۔ وہ اس کے متعلق لکھتے ہیں،
’یہ آپ بیتی اُن دنوں کی تصویر ہے جب ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے اقتدار کو بڑھا رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان 2 حصوں میں بٹ گیا تھا، ایک وہ ہندوستان جہاں نوآبادیاتی نظام اپنی جڑیں مضبوط کر رہا تھا، جبکہ دوسری جانب راجاؤں، نوابوں اور سرداروں کا ہندوستان تھا جہاں قدیم روایات اور ادارے تھے۔ نوآبادیاتی نظام دھیرے دھیرے ہندوستان کو نگل رہا تھا۔‘
اسی زمانے میں ان ’پھانسی گروں‘ کا راج بھی تقریباً اپنے اختتام کو پہنچا جو چکنی چُپڑی باتیں کرنے، مسافروں سے راہ و رسم بڑھانے اور پھر موقع ملتے ہی اُن کے گلے میں رومال کا پھندا ڈال کر مار دینے میں مشہور تھے، انہیں ’ٹھگ‘ بھی کہا جاتا تھا۔ صدیوں تک سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر راج کرنے والے ٹھگوں کے اِن گروہوں کا اختتام ہوا۔ یہ شاید ایک بہت بڑا کام تھا جس کو انگریز نے بڑی تحقیق و جستجو سے مکمل کیا۔ ایک حوالے سے یہ انتہائی قبیح عمل تھا کہ تھوڑی ملکیت کے لیے چند افراد یا پورے کے پورے قافلے کو موت دے دی جائے اور وہ بھی ایسی ملکیت جس کے ہونے نہ ہونے کا کوئی یقین نہیں ہوتا تھا۔
یہ قتل ایسے نہیں ہوتے تھے بلکہ ایک باقاعدہ ورک پلان پر عمل کرکے کیے جاتے تھے۔ جس میں غلطی کی گنجائش بس نام کی ہی ہوسکتی تھی۔ یہ چوری یا ڈاکے ڈالنے جیسا وقتی عمل نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ پلان شروع سے آخر تک ہر پل اسی عمل سے جُڑا رہتا تھا اور اپنی جگہ پر یہ بھی ایک کمال تھا۔ ہر مشکل کام اور معاشرے سے چُھپ کر عمل کرنے کے لیے پوشیدہ زبان کی ضرورت پڑتی ہے مگر ان ’ٹھگوں‘ کی اپنی ایک الگ دنیا تھی جو پہلے پل سے آخر تک ایک پُراسراریت کی دُھند میں لپٹی رہی۔ یہ ہی سبب ہے جو آج تک ٹھگوں کے زمانے، اُن کی رسومات اور ٹھگی کی تکنیک پر پُراسراریت کی چادر تنی ہوئی ہے۔
اِس دھرتی پر سب سے مثبت اور سب سے خطرناک عمل سوچنا ہے، یہی تو بُرائی اور بھلائی میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ مگر جب کسی کے ذاتی مفادات کی بات آئے تو تمیز کی یہ لکیر دُھندلی ہونے لگتی ہے اسی لیے ’ٹھگی‘ کے عمل کو جائز قرار دینے کے لیے (دیومالائی داستانوں) Mythology کا سہارا لیا گیا اور ایک مضبوط کہانی کو بنیاد بنا دیا گیا۔ یہ کہانی ہم کو ضرور سُننی چاہیے کہ اِس کہانی کے نشیب و فراز نے ایک مضبوط انسانی جتھا بنانے کا کام کیا۔
کہانی کچھ اس طرح ہے کہ، ’پرانے زمانے کی بات ہے کہ اس دنیا میں ایک عفریت کا قبضہ ہوگیا تھا اور وہ ان تمام انسانوں کو، جو پیدا ہوتے تھے، ہڑپ کرجاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں دنیا سے آبادی ختم ہونا شروع ہوگئی۔ آخرکار کالی دیوی انسانوں کے بچاؤ کے لیے آگے آئی، اس نے عفریت پر حملہ کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے، مگر ہوا یہ کہ اُس کے خون کے ہر قطرے سے ایک عفریت پیدا ہوگیا، البتہ دیوی ان کو قتل کرتی رہی، مگر اُن کے خون کے قطروں سے عفریتوں کی تعداد برابر بڑھتی رہی، یہاں تک کہ اُن کی تعداد خوفناک حد تک بڑھ گئی۔
دیوی نے تھک ہار کر اور مایوس ہوکر سوچا کہ انہیں قتل کرنے کا دوسرا طریقہ ڈھونڈنا چاہیے، اس لیے کہا جاتا ہے کہ دیوی نے اپنی ذاتی کوششوں کو ترک کردیا اور اپنے پسینے سے دو آدمیوں کو پیدا کیا اور انہیں رومال دیے تاکہ وہ ان عفریتوں کا خون بہائے بغیر رومال سے گلا گھونٹ کر ماریں۔ حکم کی فوراً تعمیل ہوئی اور عفریتوں کو گلا گھونٹ کر مار دیا گیا۔ کام کی انجام دہی کے بعد ان دونوں نے اپنے رومال دیوی کو واپس کرنے چاہے، لیکن دیوی نے رومال واپس لینے سے انکار کردیا اور دونوں سے کہا کہ، ان رومالوں کو وہ اپنے شاندار کارنامے کی یاد میں اپنے پاس رکھیں، بلکہ ان کو استعمال کرکے منافع بخش ٹھگی کے پیشے کو اختیار کریں تاکہ ان کی آنے والی نسلیں پھلیں پھولیں۔‘
ایسی ہی کہانیوں نے عقیدے کا روپ دھار لیا اور گناہ کا تصور ان تصورات کے جنگل میں کہیں بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح گم ہوگیا۔ تاریخ کے صفحات میں سب سے پہلے ہمیں ’تاریخ فیروز شاہی‘ (1358ء-1266ء) میں ٹھگوں کا ذکر ملتا ہے۔ مگر اس تذکرے میں بھی ٹھگوں سے نہایت نرم رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ تاریخ فیروز شاہی کے مصنف ’ضیاء الدین برنی‘ جن کی زندگی کے آخری برس ’فیروز خان تغلق‘ کے قید خانے میں گزرے وہ تحریر کرتے ہیں،
’کچھ ٹھگ شہر میں گرفتار کیے گئے۔ ان ایک ہزار سے زائد ٹھگوں میں سے ہی ایک نے انہیں گرفتار کروایا تھا۔ سلطان جلال الدین نے اُن میں سے ایک کو بھی قتل نہیں کیا اور سب کو حکم دیا کہ کشتیوں میں سوار کرکے ان کو بنگال کی طرف لکھنؤتی کے علاقے میں لے جاکر چھوڑ دیں تاکہ یہ ٹھگ مجبوراً لکھنؤتی کے علاقے ہی میں پڑے رہیں اور پھر اس طرف نہ آسکیں۔‘
یہ احکامات تقریباً 700 برس قبل ایک سلطان نے جاری کیے تھے۔ ان احکامات میں ایک چھپی ہوئی پُراسراریت اور عجیب ڈر محسوس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ٹھگوں سے منسوب کئی کہانیاں موجود ہیں جن کا جنم تو اتفاقات سے ہوا مگر استعمال ٹھگوں کے بھلے کے لیے ہوئیں۔
جس طرح کسی نے چغلی کھا کر ٹھگوں کے کسی گروہ کو قانون کے حوالے کیا اور اتفاق سے وہ خود کسی بیماری میں مبتلا ہوکر مرگیا یا پھر کسی وبائی کی وجہ سے اُس کے خاندان کے کچھ لوگ مرگئے یا بیمار پڑگئے تو یہ ’کالی ماتا‘ کا انتقام ہی سمجھا جاتا تھا۔ ٹھگوں نے کالی ماتا پر جو بھروسہ رکھا اور جو ایمان رکھا وہ کمال حد تک تھا۔ ٹھگوں کے گروہوں میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔ ویسے تو یہ افراد مذہبی طور پر اپنی اپنی جگہ پکے ہندو اور پکے مسلمان ہوتے مگر جیسے ’ٹھگ برادری‘ میں آجاتے تو وہ کالی ماتا کے بھگت ہوجاتے اور ٹھگوں کی بنائی ہوئی روایات پر سچے دل اور ایمان و یقین کے ساتھ عمل کرتے۔
اس حوالے سے ’فرانسس ٹکر‘ نے اپنی کتاب، ’پیلے رومال‘ میں لکھا ہے کہ،
’ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشکل سے ہی آپس میں کبھی بنتی ہے مگر ٹھگوں کی اس پوری کہانی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں برادری کے تمام لوگ، چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو، اپنی نفرتوں کو مٹادیتے ہیں اور دیوی کو اپنا سرپرست تسلیم کرتے ہوئے ان تمام رسومات کو اختیار کرلیتے ہیں، جو ان کے لیے ادا کی جاتی ہیں۔ اس طرح ٹھگ برادری میں تمام ہندو ممنوعات کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ ان دونوں عقیدوں کو ماننے والے اس قابلِ نفرت تجارت میں ایک ہوجاتے ہیں۔‘
1843ء میں جرمن سیاح ’لیوپولڈ اورلچ‘ (Leopold von orlich) نے ٹھگوں کے حوالے سے انتہائی باریک بینی سے تحقیق کی، وہ لکھتے ہیں کہ،
’یہاں ٹھگوں میں ہندو اور مسلمانوں کے سوا برہمن ٹھگ بھی ہیں۔ ٹھگوں کی اپنی علیحدہ زبان کے ساتھ اشارے اور علامتیں بھی الگ ہوتی ہیں۔ یہاں مختلف ٹھگوں کی کئی اقسام ہیں، جیسے ’جمالدھی ٹھگ‘، ’ملتانی ٹھگ‘، ’چنگیزی‘ یا ’ناٹکی ٹھگ‘ جو ملتانیوں کی ایک شاخ ہے۔ ’سوسی ٹھگ‘ بھی ہیں اور یہاں دریائی ٹھگ ہیں جو دریاؤں میں کشتیوں پر سفر کرنے والے مسافروں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔‘
مسافروں کے شکار کے لیے ٹھگ پہلے سفر پر جانے والی ٹولی کے متعلق معلومات حاصل کرتے، معلومات کے لیے شہروں میں اُن کے اپنے ذرائع ہوتے پھر اُس ملی ہوئی معلومات کے مطابق وہ راستے کے متعلق پلاننگ کرتے اور بڑے سکون سے شکار تک پہنچتے۔ اگر قافلے کے لوگوں کو ان پر شک ہوجاتا تو وہ ان سے الگ ہوجاتے اور دوسری ٹھگوں کی ٹولی بھیس بدل کر اس قافلے میں شامل ہوجاتی۔
کبھی کبھار 5 سے 6 ٹولیوں کے بھیس بدلنے تک وہ اپنے شکار کا پیچھا کرتے رہتے۔ ٹھگوں کی یہ ٹولیاں صرف مضبوط اعصاب رکھنے والوں کی ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ اچھے اور ذہیں فنکار بھی ہوتے۔ مختلف روپ دھارنے کے لیے اپنے ساتھ ضرورت کا ہر سامان رکھتے، غریب چرواہے سے لے کر مالدار زمیندار تک کا بھیس بدلنے کے لیے ضروری ہر سامان ان کے پاس ہوتا۔
جب وہ سمجھ جاتے کہ قافلے کے لوگ ان پر اعتبار کرنے لگے ہیں تو پھر وہ وقت آجاتا جس کے لیے وہ ٹھگ ساری محنت کرتا جاتا اور انتظار کرتا۔ اُس کی کوشش ہوتی کہ آخری لمحات جن میں سارے قافلے کو موت کی نیند سُلانا ہے وہ عمل جتنا جلد ہوسکے اُتنا اچھا۔ وہ یہ سارے کام ایک منظم حکمت عملی کے تحت کرتے، ان کی پوری ٹیم کو مخصوص زبان اور اشاروں کے ذریعے بتا دیا گیا ہوتا تھا کہ، یہ آخری لمحے کس جگہ پر ہوں گے، اس طرح ان کے دیگر ساتھی اتنے گڑہوں کا پہلے سے انتظام کردیتے کہ لاشوں کو ٹھکانے لگانے میں دیر نہ ہو، کیونکہ اس راستے سے مسافروں کی دوسری ٹولی یا قافلہ کسی وقت بھی آسکتا تھا۔ اپنا ہدف حاصل کرنے کے بعد وہ اکثر اُسی جگہ ڈیرا ڈال لیتے اور دفن لوگوں کی قبروں کے اوپر کھانا وغیرہ بناتے، وہیں رات کا قیام کرتے اور صبح ہوتے ہی نکل پڑتے۔ ایسا وہ محض اس لیے کرتے تھے کہ کھدائی کا کوئی نشان باقی نہ رہے اور لوگوں کو اس جگہ پر کسی قسم کا شک نہ ہو۔
فینی پارکس (Fanny Parkes) نے 1840ء میں ایک کتاب تحریر کی تھی ’واڈرنگ آف اے پلگرم این سرچ آف دی پکچریسک‘، اس میں ٹھگوں کے متعلق بنیادی اور مشاہداتی معلومات درج ہے۔ اس کتاب میں ایک باب ہے، ’ایک ٹھگ کے اعترافات‘، جس میں ٹھگ کہتا ہے کہ،
’ہمارے ہاں پُرانے ٹھگوں کی عزت ہوتی ہے اور وہ ٹھگ جو ضعیفی کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں جاسکتے، اُن کے شاگرد، جنہوں نے ان سے رومال استعمال کرنا سیکھا ہوتا ہے وہ مالی طور پر اُن کی مدد کرتے ہیں۔’
اگر آپ ٹھگوں کی ’ٹھگی‘ کا مطالعہ کریں تو آپ کو اس میں اس پیشے کے لیے کئی مثبت پہلو ملیں گے۔ ایک تو ہر کام سب کی شراکت اور رضامندی سے ہونا، اپنی کمزوریوں کو ظاہر کرنا، فطرت سے گہرا تعلق اور اکٹھے کام کرنے والوں کے تحفظ کا احساس، آپ کو اُن کے ہر عمل میں ملے گا۔ کوئی بھی اجتماعی طور پر کیے گئے فیصلے کی سرحد پار نہیں کرتا تھا۔ ان کے نزدیک کالی ماتا کا انتہائی احترام تھا اور جب ماتا کا سالانہ میلہ لگتا تو اُن دنوں میں ٹھگی کا کوئی کام نہیں کیا جاتا تھا اور میلے کے دنوں میں میلے میں بھرپور شرکت کی جاتی تھی، پھر چاہے ٹھگ مسلمان ہو یا برہمن یا کوئی اور۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی ٹھگوں کو پکڑا جاتا اور ان سے سوال جواب کیے جاتے تب بھی اُن کے ماتھے پر کبھی بھی اپنے کیے ہوئے کاموں پر پشیمانی کی کوئی لکیر نظر نہیں آئی۔ یہاں تک کہ جب ان کو پھانسی دینے کا وقت آتا تو وہ بڑی خوشی سے جلد پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے۔
میں، ’گورنمنٹ گزٹ‘ میں چھپے اُس خط کو یہاں نقل کرنا چاہتا ہوں جو ’فینی پارکر‘ نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ چونکہ یہ ایک طویل خط ہے اسلئے مکمل نہیں البتہ اُس کے کچھ حصے یہاں نقل کئے جاتے ہیں۔
جناب اعلیٰ!،
میں ان 11 ٹھگوں کی پھانسی کے وقت موجود تھا جو بھیلسہ کے قریب گرفتار کیے گئے تھے۔ اُن پر 35 مسافروں کے قتل کا الزام تھا (جن کی لاشیں بھوپال اور ساگر کے راستے میں مختلف جگہوں پر ملی تھیں) اس جرم کی سزا کے طور پر گورنر جنرل کے ایجنٹ ’مسٹر اسمتھ‘ نے انہیں پھانسی کی سزا دی تھی۔ جیسے ہی سورج طلوع ہوا اور ان 11 آدمیوں کو جیل سے باہر لایا گیا تو وہ لوگ پھولوں کے ہار پہنے ہوئے تھے اور بڑے سکون و اطمینان سے پھانسی کے تختے پر آئے، ان کے چہروں سے کسی بھی قسم کی پریشانی ظاہر نہیں ہوتی تھی۔
جب انہیں پھانسی کے پھندے کے سامنے ایک ایک کرکے کھڑا کیا گیا، تو ان کے چہروں پر بشاشت آگئی اور سب نے مل کر ہاتھ بلند کیے اور یہ نعرے لگائے۔’بندھا چل کی جے، بھوانی کی جے‘۔ اگرچہ ان میں چار مسلمان، ایک برہمن اور دوسرے راجپوت و مختلف ہندو ذاتوں والے بھی تھے، مگر سب کا نعرہ ایک ہی تھا۔ اس کے بعد وہ پھانسی کے تختے پر گئے اور اپنے ہاتھوں سے پھانسی کے پھندے گلے میں ڈال کر ایک بار پھر بھوانی کا نعرہ بلند کیا۔
ان کا سالانہ میلہ مرزاپور سے چند میل دور مغرب میں بارشوں کے موسم میں لگتا ہے۔ اس میلے میں پورے ہندوستان سے قاتل اور لٹیرے جمع ہوتے ہیں۔ جب وہ اس میلے کے لیے سفر کرتے ہیں تو کوئی جرم نہیں کرتے۔ یہ کسی مہم کے لیے نکلنے سے پہلے جو رسومات ادا کرتے ہیں اُن کا زیادہ تر تعلق فطرت سے ہوتا ہے۔ شگون کے لیے وہ، دائیں طرف کو اچھا اور بائیں کو بُرا سمجھتے ہیں۔ یہ تیتر، ہرن کے شگون کو اچھا سمجھتے ہیں جبکہ اگر اُن کے سامنے بھیڑیا راستہ پار کرلے تو وہ اُس کو بُرا سمجھتے ہیں۔ اگر وہ کسی سیار کو دن میں اور تیتر کو رات میں بولتا سُن لیں تو وہ اُس علاقے کو فوراً چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم یہاں ’بہرام‘، ’سید امیر علی‘، ’رمضان‘، ’فتح خان‘،’بیراگی‘، ’گنیشا‘ نامی ٹھگوں کا تفصیلی ذکر نہیں کر رہے جن کے خلاف ہزاروں لوگوں کو گلا گھونٹ کر مارنے کے ثبوت ملے۔ ہم اُس بہرام ٹھگ کی کہانی کے تفصیل میں بھی نہیں کرنے جا رہے جس نے 40 برس کی عمر میں 931 مسافروں کو گلہ گھونٹ کر ماردیا تھا اور قید کے دوران ایک سوال کے جواب میں اُس نے یہ کہا تھا کہ،
’اس کے علاوہ بھی قتل کی وارداتیں ہیں۔ آخر میں نے گنتی کرنا ہی چھوڑ دی تھی۔‘
ہم اس امیر علی ٹھگ کی زندگی پر بھی بات نہیں کر رہے جس نے 719 لوگوں کا گلا گھونٹ کر مار دیا تھا اور اُسے یہ بھی افسوس تھا کہ وہ قید میں نہ ہوتے تو یہ تعداد کم سے کم ایک ہزار تک ضرور پہنچ جاتی، یہ سارے قتل اس نے دانستگی میں کیے، امیر علی ٹھگ نے اپنی سگی بہن کو بھی اس رومال کے پھندے سے گلہ گھونٹ کر ماردیا تھا۔
ٹھگوں کی پُراسرار ٹولیاں ہندوستان کے سفری راستوں پر اپنی موت کا جال بچھاتے اور لوگوں کو اُن میں پھنسا کر مار ڈالتے۔ 1830ء میں ایک ہزار سے زائد ٹھگ اپنے اس عمل میں مصروف تھے اور ایک برس میں اندازاً 30 ہزار لوگوں کو قتل کردیتے تھے۔ یہ صورتحال انگریزوں کے لیے ٹھیک نہیں تھی، کیونکہ اس طرح راستے غیر محفوظ ہوئے اور تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
انگریزوں کے لیے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے مسافروں کی جان و مال کی حفاظت کریں اور تجارت کو فروغ دیں۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں،
’اس مقصد کے لیے گورنر جنرل ’ولیم سلیمن‘ (William Henry Sleeman, superintendent of the Thuggee and Dacoity Department) کو ٹھگی کے خاتمے کے لیے مقرر کیا گیا۔ اس نے ایک منظم طریقے سے کام کیا اور 1831ء سے 1837ء تک 30 ہزار ٹھگوں پر مقدمہ چلا کر انہیں سزا دی گئی۔ ان میں سے اکثر کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی اور اس طرح ٹھگوں کا وجود اب فقط تاریخ میں رہ گیا ہے۔‘
باتوں باتوں میں ہم ’لُطف اللہ‘ صاحب کو تو نہ جانے کہاں بھول آئے، جو ہماری اس نشست کا اہم کردار ہیں۔ ہم نے اس تحریر میں اُن راستوں اور پگڈنڈیوں کا ذکر کیا ہے جن پر لُطف اللہ صاحب چل پھر کر بڑے ہوئے تھے۔ ان راستوں پر سفر کے دوران ان کو بھی ’جمعہ ٹھگ‘ ملا تھا جس کا ذکر بڑی تفصیل سے انہوں نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔
لُطف اللہ نے بڑی ہی مشکل ترین اور یادگار زندگی گزاری، ان کے پاس زبانیں سیکھنے کا ایک قدرتی ہنر تھا اس لیے وہ کئی زبانیں نہ صرف بول لیتا تھا بلکہ پڑھا بھی لیتا تھا اور یہی کام اس کا ذریعہ معاش بنا۔ لُطف اللہ 1835ء میں ایک فوجی دستے کے ساتھ سندھ کے صحرائے تھر کے ایک علاقے ’پارکر‘ بھی آئے تھے، جہاں کھوسو برادری کے لوگوں نے اُدھم مچا رکھا تھا۔ وہ ویران جگہ جہاں اب چند جھونپڑیاں اور کچھ دکانیں ہیں وہاں اس زمانے میں، 400 کے قریب رہائشی گھروں کی جھونپڑیاں تھیں اور مرکزی شہر میں 600 کے قریب چھپرے نما دکان و مکان تھے۔
لُطف اللہ نے جولائی 1838ء میں، کاٹھیاواڑ میں مُترجم کی ملازمت ترک کردی۔ نوکری چھوڑنے کی وجہ ’ای بی ایسٹ وِک‘ Edward.B. Eastwick کی طرف سے سندھ چلنے کی پیشکش تھی۔ ایسٹ وِک کے ساتھ ان کے کافی اچھے مراسم تھے۔ وہ جوڑیا بندر آتے وقت مدد کے طور پر ایک میمن فیملی کو اپنے ساتھ لیتے آئے، وہ یقیناً ایک رحمدل انسان تھے۔ وہ ’جوڑیا‘ سے ’منڈاوی‘ بندرگاہ پہنچا اور پہلی دسمبر کو وہاں سے ’جمعہ ملاح‘ کی کشتی پر سندھ کے لیے روانہ ہوئے اور 6 دسمبر کو سندھ کے ساحل پر پہنچے، اگلے دن وہ نزدیک واقع ایک ماہی گیر بستی دیکھنے گئے۔
لُطف اللہ کو شکایت تھی کہ،
’سمندری کنارے پر رہنے والے لوگ تیز آواز میں باتیں کرتے تھے۔‘
لیکن اگر لُطف اللہ اس تیز آواز کی وجہ جاننے کی کوشش میں اِدھر اُدھر دیکھتا تو ضرور کامیاب ہوتا۔ دراصل سمندر میں کام کرنے والے اکثر لوگ لہروں کے شور کی وجہ سے تیز آواز میں بات کرتے ہیں تاکہ دوسرا سُن سکے۔ 7 دسمبر کو وہ ’وکر بندر‘ پر لنگرانداز ہوئے، جہاں ’کیپٹن ایسٹ وِک‘ نے ان کو خوش آمدید کہا۔ جبکہ 8 دسمبر کو ’کرنل پوٹنجر‘ حیدرآباد سے وکر آ پہنچے۔ یہاں پر لُطف اللہ نے سندھی زبان سیکھی اور وہ لکھتا ہے،
’میں نے یہاں سندھی گرامر کا مطالعہ شروع کردیا ہے جو مجھے آسان زبان معلوم ہوئی۔ جس شخص کو مشرقی زبانوں کی ذرا بھی سُدھ بُدھ ہو، اس کے لیے سندھی زبان سیکھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔‘
وکربندر سندھ میں وہ پہلا مرکزی دروازہ تھا جہاں سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں داخل ہوئیں۔ ان دنوں میں انگریزوں کے پاس یہ بہانہ تھا کہ، اُن کو افغانستان جانے کے لیے سندھ کے راستے سے گزرنے دیا جائے۔ مگر اندرونی طور پر وہ سندھ پر قبضہ کرنے کا پکا ارادہ کرچکے تھے۔
ڈاکٹر مبارک نے کیا خوب تجزیہ کیا ہے کہ،
’سندھ کے متعلق لُطف اللہ کے مشاہدات بڑے دلچسپ ہیں، خاص طور پر میروں اور انگریزوں کے معاہدے کے متعلق مشاہدات۔ معاہدہ خود انگریز لکھ لیتے ہیں اور میروں کے سامنے پیش کرکے انہیں اس کی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ میرانِ حیدرآباد جانتے ہیں کہ یہ معاہدہ اُن کے حق میں نہیں ہے، مگر انتہائی مجبوری اور لاچاری کی حالت میں اس پر دستخط کردیتے ہیں۔ عام رعایا بھی اس عمل سے خوش نہیں ہے، مگر برطانوی طاقت کے آگے وہ بے بس نظر آتے ہیں۔‘
لُطف اللہ وکر میں ایک ماہ تک رہے، اس عرصے میں وہ ہمیں ایک مُتحرک کردار میں نظر آتے ہیں۔ بمبئی سے آیا ہوا سرکاری خزانہ جو 178 صندوقوں میں بھرا ہوا تھا اُس کی گنتی کی ذمہ داری بھی لُطف اللہ کو دی جاتی ہے۔ کراچی کے ’ناؤنمل‘ سے بات چیت کی ذمہ داری اور دوسری اہم ذمہ داریاں بھی اس کے ذمہ نظر آتی ہیں۔ 19 دسمبر کو بدھ کا دن تھا اور اُس دن ’عیدالفطر‘ تھی۔ چونکہ فوج میں کوئی مسلمان مولوی نہیں تھا اس لیے خطبہ اور نمازِ عید لُطف اللہ نے پڑھائی۔ آپ اندازہ کریں کہ ایک وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی بندرگاہ اور اُس پر 10 ہزار سے زائد انسان، کتنی گہما گہمی رہی ہوگی، اور پھر ایسے موقع پر عید کا آنا، نماز کی ادائگی اور شمال سے آنے والی یخ بستہ ہوائیں، اور اس سے بچنے کے لیے جلتے ہوئے الاؤ۔
یہ ایک ایسا منظر ہے جس کے تصور سے ہی لگتا ہے کہ جیسے تسکین کے پانی نے روح کی جڑیں تر کردی ہوں۔
23 دسمبر کو جب فوج ٹھٹھہ کی طرف نکلی تب وکر میں ویرانی کا راج تھا اس بارے میں لُطف اللہ لکھتے ہیں کہ،
’رات کو میں کیپٹن ایسٹ وِک کے خیمے میں سویا۔ رات کو سخت سردی تھی، میں نے ہندوستان میں رہتے ہوئے اس قدر سخت سردی کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ یہاں رُک کر ہمیں تنہائی کا شدید احساس ہوا۔ کل تک ہم 10 ہزار فوجیوں کے ساتھ تھے اور آج 2 چپڑاسی اور 2 سندھی سائس ہمارے ساتھ ہیں۔‘
26 دسمبر کو ’وکر‘ کو لُطف اللہ نے شاید آخری بار دیکھا ہوگا اور پھر وہ ٹھٹھہ کی طرف نکل پڑے۔ پھر سیہون، شکارپور، سکھر، حیدرآباد سے گھومتے گھامتے دسمبر 1839ء میں کراچی آ پہنچے۔ ان کے دوست اور آقا ’اسٹوک‘ بہت بیمار ہوگئے تھے اور لُطف اللہ بھی تھک چکے تھے لہٰذا انہوں نے اپنے آقا سے اجازت مانگی اور 20 دسمبر کو کراچی کی بندرگاہ سے ’رحمتی‘ نامی کشتی پر بیٹھ کر سورت کی طرف روانہ ہوگئے۔ انہیں الوداع کرنے کے لیے ’ناؤنمل‘ اور ’گورنر صادق شاہ‘ آئے تھے۔ وہ گزشتہ برس اسی مہینے اور ان ہی تاریخوں میں وکر پہنچے تھے اور اتفاقاً اُن کی واپسی بھی ان ہی تاریخوں میں ہو رہی تھی۔
لُطف اللہ ایک اچھا لکھاری اور تجزیہ نگار تھا مگر وقت نے اُن کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ اس ’آپ بیتی‘ کی تحریر کے بعد ہمیں ان کی کوئی اور تحریر پڑھنے کو نہیں ملتی۔ حالانکہ اُنہوں نے اپنی اس آپ بیتی میں وعدہ کیا تھا کہ وہ زندگی کا بقیہ تمام احوال بھی ضرور تحریر کریں گے لیکن شاید وقت نے اجازت نہیں دی۔ ہم کو دُکھ تب ہوتا ہے جب ہم اُس کی آخری آرام گاہ اور تاریخ وفات کے متعلق جاننا چاہتے ہیں مگر معلومات دینے والے سارے ذرائع ہمیں خاموش نظروں سے بس تکتے رہتے ہیں۔ ایک اچھے آدمی کے لیے تاریخ کی یہ روش یقیناً اچھی نہیں۔
میروں اور برٹش دور میں وکر انتہائی اہم بندرگاہ ہوا کرتی تھی۔ جب 1837ء میں ’کمانڈر کالیس‘ نے ڈیلٹا کا سروے کیا تب انہوں نے وکر کو انتہائی اہم بندرگاہ کا درجہ دیا تھا، یہاں بندر کا اپنا ایک چھوٹا سا قلعہ بھی تھا۔ یہاں ایک جہاز کھڑا رہتا تھا جس پر 14 کے قریب توپیں نصب تھیں، یہ جہاز 200 ٹن وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کا حجم 28x70 تھا۔ تالپروں کو اپنی حکمرانی کے دوران 1836ء میں ایک لاکھ روپے کا محصول وصول ہوا تھا۔ مگر برٹش راج 1843ء کے بعد جلد ہی ’حجامڑو کریک‘ خشک ہونے کے بعد یہ بندرگاہ اُجڑ گئی اور قرب و جوار میں واقع چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں مقیم لوگوں نے ’گھوڑا باری‘ کی طرف نقل مکانی کرلی۔
مجھے وکر بندر کے آثاروں کو دیکھنے کی بڑی تمنا تھی کہ اور کچھ نہیں تو وہاں بھولی بسری تاریخ کی کوئی نشانی یا وہ زمین ہی دیکھ لوں جہاں لُطف اللہ نے کئی دن گزارے تھے، جہاں ٹھنڈے دنوں میں آئی ہوئی عیدالفطر کی نماز پڑھائی تھی۔ میں نے یہ سب کچھ ڈھونڈنے کی بڑی کوشش کی۔
میں مکلی، پیر پٹھو سے ہوتا ہوا اُس ’گھوڑا باری‘ کے پرانے شہر پہنچا جس کے متعلق، لُطف اللہ نے لکھا تھا کہ،
’میں یہاں سے (وکر سے) گھوڑا باری دیکھنے گیا جسے ایک بڑا گاؤں تصور کیا جاتا ہے۔ جہاں ایک سو کے قریب خستہ سی جھونپڑیاں ہیں۔‘
آج بھی صورتحال کچھ اچھی نہیں، مگر 1843ء کے بعد گھوڑا باری پر اچھے دن ضرور آئے تھے اور اسے تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ انگریزوں کے مختیارِ کار مقرر کرنے سے پہلے تالپور حکومت کی طرف سے یہاں ’کمدار‘ مقرر تھا جو حکومت کی طرف سے بنائے گئے اناج کے گودام کا انچارج ہوتا تھا۔
کہتے ہیں کہ میروں کی حکومت کے آخری دنوں میں کمدار نے وہاں موجود اناج لوٹ لیا جو تقریباً 4 ہزار خراڑ تھا۔ (ایک خراڑ میں 24 من اناج کے آتے ہیں اور من میں 82 پاؤنڈ اناج ہوتا ہے) اور خود کو علاقے کا حاکم کہلوانے لگا۔ بہرحال برٹش دور میں، گھوڑا باری کو تحصیل کا درجہ دیا گیا اور ناؤنمل کی سفارش پر اُس کے بھائی ’سکھرام داس‘ کو یہاں کا مختیارِ کار مقرر کردیا گیا تھا۔
گھوڑا باری کے ویران سے بازار جاکر جب میں نے مقامی صحافی عبدالرحمان خشک سے وکر بندر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ، ’ہاں ایک زمانے میں یہاں سے چند کلومیٹرز کے فاصلے پر وکر بندر کے آثار ضرور تھے مگر اب وہاں سمندر کی لہریں ہیں، سمندر کھا گیا وکر کو۔‘ اس جواب کے بعد مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا، میں خاموش سے بازار سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ کے پشتہ کے اوپر آگیا۔ میں نے گھوڑا باری کے چھوٹے سے اجاڑ گاؤں کو دیکھا، جس کی آبادی 5 سے 6 ہزار ہوگی۔ یہاں برٹش دور کے چند پرانے اور خستہ حال دفاتر ہیں، ان میں سے کچھ تو کب کے زمین بوس ہوچکے ہیں۔ اُڈیرو لال کا آستانہ بھی ہے جو بھی خستہ حالی کا شکار ہے اس مزار کے آگے بنے ہوئے وہ کنویں بھی کب کے خشک ہوچکے ہیں جو کبھی لوگوں کی تشنگی بجھاتے تھے۔
بس ایک تحصیل ہونے کا اعزاز ہی ہے جو اب بھی گھوڑا باری اپنے پاس رکھے ہوئے ہے۔ میں پشتے سے مشرق جنوب کی طرف دُور دُور تک دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں، جہاں کسی زمانے میں وکر بندر رہا ہوگا مگر مقامی لوگ کہتے ہیں کہ آپ اس بندر کی اب کوئی بھی نشانی نہیں دیکھ سکتے کہ وہ سمندر کی گہرائیوں میں کہیں کھو گیا ہے۔ نہ جانے کتنی ایسی تمنائیں بھی جنم لیتی ہیں جنہیں شکل و صورت نصیب نہیں ہو پاتیں۔
میرے سامنے دریائے سندھ آنکھیں موندے خالی پیٹ لیٹا ہے، جہاں صبح، دوپہر، شام، جاڑا اور بہار کے موسم تو آتے ہیں بس نہیں آتا تو پانی نہیں آتا۔ دریا کا اور میرا دُکھ شاید اتنا الگ نہیں ہے، کہ میرے نصیب میں ’وکر‘ نہیں اور اس کے نصیب میں ’پانی‘ نہیں!
حوالہ جات:
۔ ’’تاریخ ٹھگ اور ڈاگو‘‘۔ڈاکٹر مبارک علی۔ تاریخ پبلیکیشنز، لاہور
۔ اُنیسویں صدی کا ہندوستان: ’’لطف اللہ کی آپ بیتی‘‘۔ ترجمہ: ڈاکٹر مُبارک علی۔ تاریخ پبلیکیشنز، لاہور
۔ ’’یادگیریوں‘‘ ۔ ناؤنمل۔ سندھی ادبی بورڈ
۔ ’’ٹھٹھو صدین کھاں‘‘۔ رسول بخش تمیمی۔ روشنی پبلیکیشن
۔ ’وکی پیڈیا‘ کے مختلف لنک،
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (34) بند ہیں