کوہ سلیمان سے کوہ مرگلہ تک
کوہِ سلیمان کی عمودی گھاٹیاں اور سُرمئی پہاڑ بلوچستان اور پنجاب کے درمیان حد بندی کا کام کرتے ہیں۔ یہ پہاڑ دونوں صوبوں کے لیے ہمسائے کی دیوار کی مانند ہیں اور جس طرح دو ملنسار پڑوسی باہمی تعلق کو بڑھانے کے لیے اپنے گھروں کی درمیانی دیوار میں ایک ’موکھا‘ نکلوا دیتے ہیں تاکہ دُکھ سُکھ کی خبر رہے، اِسی طرح کوہِ سلیمان کے اِس سلسلے میں بھی ایک موکھا ہے جو بلوچستان اور پنجاب کو آپس میں ملاتا ہے۔ اگر آپ ڈیرہ غازی خان کے میدانوں سے بلوچستان کے پہاڑوں کی طرف جارہے ہوں تو آپ یقیناً لورالائی جانے والی بس میں بیٹھے ہوں گے۔
ڈیرہ غازی خان سے نکلنے والی سڑک روہی نالے کے ساتھ ساتھ بتدریج دور نظر آنے والے سُرمئی پہاڑوں کی طرف بڑھتی ہے اور بالآخر کوہِ سلیمان کے نشیب و فراز میں داخل ہوجاتی ہے۔ یہ سڑک چکر پر چکر کھاتی برساتی روہی نالے کے آبشاری بہاؤ کی مخالف سمت میں بڑھتی رہتی ہے۔ پہاڑوں کی بلندی پر فورٹ منرو کے مقام سے گزرتے ہی جب یہ دوبارہ ڈھلوانوں کی طرف مائل ہوتی ہے تو دور نیچے میدانوں میں سرمئی رنگ کی ایک لکیر سیدھی جاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ وہی سڑک ہے جس پر آپ سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں داخل ہوکر یہ رکھنی اور میختر کے مقامات سے ہوتی ہوئی جب اپنی پہلی منزل کے قریب پہنچتی ہے تو سیب، انار اور خوبانی کے لہلہاتے باغات اسے دونوں طرف سے اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ اِنہی باغات سے گزرتے ہوئے آپ بلوچستان کے پہلے شہر لورالائی میں داخل ہوجاتے ہیں۔
لیکن ہم تو لورالائی ڈیرہ غازی خان کی طرف سے نہیں بلکہ کوئٹہ اور زیارت کی طرف سے آئے تھے اور اب شام ہو رہی تھی۔ شہر میں داخل ہوتے ہی مجھے سب سے پہلے کسی ادیب یا صحافی کی تلاش تھی، جو مجھے اپنے آرٹیکل کے لیے شہر لورالائی سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرسکے۔ شاعر، ادیب، صحافی یا شاید کوئی کتب فروش بتا سکے۔ ہم کتابوں کی دکانیں ڈھونڈنے لگے، ایک کتب فروش نے کسی عارف صاحب کا پتہ دیا کہ وہ ادیب ہیں۔
مزید پڑھیے: مشتاق یوسفی کی سلیپنگ بیوٹی اور وادئ زیارت
آج لورالائی میں سارے لوگ شلوار قمیض پہنے گھوم رہے تھے، سوائے ہم دونوں پینٹ پوشوں کے۔ چنانچہ ہم لوگوں کی ناراض نظروں کا سامنا کرتے، ڈھونڈتے ڈھانڈتے عارف صاحب کے گھر پہنچ ہی گئے لیکن وہاں پہنچ کر ایک عجیب کیفیت کا شکار ہوئے۔ عارف صاحب بیچارے اپنے گھر پر زخمی پڑے تھے کیونکہ 2 روز قبل اُن کا ایکسنڈنٹ ہوگیا تھا مگر اس تکلیف دہ صورتحال کے باوجود انہوں نے یہ کرم فرمائی کی کہ بسترِ علالت پر لیٹے لیٹے ہی لورا لائی کے بارے میں اہم اور بنیادی تفصیلات نہ صرف زبانی بتائیں، بلکہ میری ڈائری لے کر خود اپنے قلم سے کئی باتیں اس میں تحریر کردیں۔ یہ بھی 30 برس پرانا قصہ ہے، نہ جانے عارف صاحب کی وہ مہرباں شخصیت اب کہاں ہوگی۔
عارف صاحب کے گھر سے نکلے تو شام ڈھل رہی تھی۔ کچھ دیر میں رات کو بھی ڈیرے ڈالنے تھے۔ چنانچہ ہمیں اب شب بسری کے لیے کسی مسافر خانے کی تلاش تھی۔ ہم بازار میں چلتے چلے جارہے تھے کہ اچانک پیچھے سے کسی نے پکارا ۔
’او بھائی۔۔۔ او کراچی والے۔۔۔‘
میں اور باسط چونکے۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو ایک ادھیڑ عمر، معزز سا شخص، جو خود بھی کوئی کراچی والا ہی دِکھتا تھا، تیزی سے ہماری طرف لپکتا نظر آیا۔
’کیسے آنا ہوا جناب ہمارے شہر میں؟‘ انہوں نے قریب آکر گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔
یہ امداد صاحب تھے، اردو بولنے والے تھے لیکن سالہا سال سے لورالائی کے باسی اور سرکاری ملازم تھے۔ میں انہیں اپنی آمد کا مقصد بتانے لگا تو انہوں نے میری گفتگو درمیان میں روک دی۔
’آئیں آئیں، گھر چلتے ہیں۔ باقی باتیں چائے پر کرتے ہیں۔‘
لو جی۔ ہم مہمان بن گئے۔ اس زمانے میں لورالائی میں بھی ایک افغان مہاجرین کیمپ ہوتا تھا۔ امداد صاحب سرکار کی طرف سے اس کیمپ کے نگراں تھے۔ ان کے گھر چائے پی، گپ شپ کی، معلومات لیں اور پھر ان کی گاڑی اور بڑے بیٹے کو ساتھ لے کر پھر شہر کے کوچہ و بازار میں نکل آئے۔ اب چونکہ ہمارے پاس سواری بھی تھی اور ایک عدد رہنما بھی لہٰذا شہر اور اس کے مضافات کی خوب سیر کی۔
لورالائی ایک پُرسکون اور خاموش سا شہر ہے کہ جس کے قدیم محرابی در و بام اور سالخوردہ چوبی عمارتیں اجنبیوں سے سرگوشیاں کرتی ہیں اور اُنہیں اپنے قریب آنے کی اجازت دیتی ہیں۔ قدیم عمارتوں کے درمیان کنکریٹ کی جدید تعمیرات بھی سر اٹھائے کھڑی ہیں اور ان قدیم و جدید عمارتوں کے شانہ بہ شانہ مٹی کی دیواروں میں محصور وہ روایتی مکانات بھی ہیں کہ جن کے دروازوں پر ٹاٹ کے پردے لٹکے رہتے ہیں اور جن کے اندر ہماری اصل دیسی زندگی کی آوازیں گونجتی ہیں۔
کوہِ سلیمان کے چھوٹے بڑے پہاڑوں میں گِھرا ہوا لورالائی بلوچستان کے قدیم شہروں میں سے ایک ہے۔ لورا لائی کے بسنے کا سبب وہ ندی ہے جو شہر کی قریبی قصبے پٹھان کوٹ کی طرف سے بہہ کر آتی ہے۔ یہ ندی جس علاقے کو سیراب کرتی ہے اسے ’لورلئے‘ کہا جاتا تھا۔ اسی لفظ کی مناسبت سے اس شہر کا نام بھی لورالائی پڑگیا۔ یہاں کی زمین زرخیز ہے، پہاڑی چشموں کی وجہ سے پانی کی بھی فراوانی ہے اس لیے سبزہ جا بہ جا نمایاں ہے اور شہر چار جانب سے باغات میں گِھرا ہوا ہے۔
مزید پڑھیے: پنجاب میں آوارہ گردی
لورالائی کے باشندوں میں سے اکثر باغبانی، کاشتکاری اور پھلوں کی تجارت سے منسلک ہیں۔ سیب، خوبانی، آلو بخارا، انار، انگور، بادام اور مونگ پھلی کی کثرت سے پیداوار ہوتی ہے۔ پہاڑوں میں کوئلے کی کئی کانیں بھی ہیں۔ اکثریت کی زبان پشتو ہے اور ان پشتونوں نے پاکستان کی تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ عبدالصمد خان اچکزئی شہید نے یہاں برطانوی سامراج سے آزادی کا دیا جلایا تھا جبکہ سردار باز محمد خان اور حاجی صورت خان نے قائد اعظم ؒ کی سرپرستی میں یہاں مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی۔
اگلے دن امداد صاحب سے اجازت لی اور لورالائی بلوچستان سے ڈیرہ غازی خان پنجاب کی بس میں سوار ہوگئے۔ یہ رستہ ان دنوں بڑا ویران بیابان، پتھریلا اور وحشت بھرا تھا۔ نخلستانی سبزہ و آب خال خال ہی تھے۔ پھر کوہِ سیلمان کے اصلی تے وڈے بلند و بالا پہاڑ شروع ہوگئے اور پھر تو یوں لگنے لگا کہ یہ ہم شاید ان خوفناک پہاڑوں سے کبھی باہر ہی نہ نکل پائیں گے۔ چڑھائیاں شروع ہوئیں تو چڑھتے چڑھتے بس کے انجن کے ساتھ مسافر بھی ہانپ ہانپ گئے۔ بلوچستان ختم ہوگیا، پنجاب شروع ہوگیا، لیکن پہاڑ ختم نہ ہوئے۔ حتیٰ کہ اُن چڑھائیوں کی آخری حد پر فورٹ منرو آ گیا۔
سطح سمندر سے ساڑھے 6 ہزار فٹ کی بلندی پر یہ معروف ہِل اسٹیشن فورٹ منرو پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کا ایک قصبہ ہے اور یہاں سے ڈیرہ غازی خان پہنچنے کے لیے ابھی ہمیں مزید 80 کلومیٹر سفر کرنا تھا۔ فورٹ منرو کو 1870ء میں ڈیرہ غازی خان کے انگریز گورنر رابرٹ سنڈیمن نے بسایا تھا اور اس قصبے کا نام انگریز جنرل جان منرو پر رکھا گیا تھا۔
فورٹ منرو اپنی بلندی، سردی اور سبزے کے باعث خطے کے لیے ایک پُرکشش پہاڑی تفریحی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ سردیوں میں یہاں کبھی کبھی برف باری بھی ہوجاتی ہے اور گرمیوں میں یہ سرد ہواؤں کا مسکن تو ہوتا ہی ہے۔ اسی لیے لوگ اسے ’جنوبی پنجاب کا مری‘ کہتے ہیں۔ بلکہ ہم نے تو سُنا ہے کہ جب پاکستان کے دارالحکومت کو کراچی سے کسی اور شہر میں منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی تو فورٹ منرو کو بھی زیرِ غور لایا گیا تھا اور اسی وجہ سے اس کا مرکزی محل وقوع ہے۔
ضلع ڈیرہ غازی خان جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے چاروں صوبوں کے مرکز میں آتا ہے۔ اس کے شمال میں خیبر پختونخواہ کا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان، جنوب میں راجن پور کے ساتھ ملحق صوبہ سندھ کا ضلع جیکب آباد، مشرق میں دریائے سندھ کے پار پنجاب کا ضلع مظفر گڑھ اور مغرب میں فورٹ منرو سے ملحق صوبہ بلوچستان کا ضلع لورا لائی ہے۔ شاید اسی مرکزی محل وقوع کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان کے اس پہاڑی مقام فورٹ منرو کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے پر غور کیا گیا ہوگا۔
فورٹ منرو کے گزرتے ہی جو اُترائیاں شروع ہوئیں تو بس اترتے ہی چلے گئے اور یوں محسوس ہونے لگا کہ یہ اترائی اب پاتال میں پہنچ کر ہی ختم ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور ہم شام 7 بجے، دریائے سندھ کے کنارے ڈیرہ غازی خان پہنچ گئے۔ آج شہر ڈیرہ غازی خان جس مقام پر موجود ہے یہ ہمیشہ سے یہاں نہیں تھا بلکہ دریائے سندھ کے عین کنارے پر آباد ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں شاید دریا کے کناروں پر بچاؤ بند نہیں ہوا کرتا تھا، حالانکہ شاعر نے تو خبردار بھی کیا تھا کہ
بند بنا کر بھول نہ جانا
دریا آخر دریا ہے
لیکن شاعر کی بات پر لوگوں نے کب کان دھرا ہے، وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ قریباً ایک صدی قبل دریائے سندھ نے اپنا رُخ بدلنا شروع کیا اور قدیم شہر ڈیرہ غازی خان اس کٹاؤ کی زد میں آگیا۔ انگریز سرکار نے پُرانے شہر سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر نیا شہر بسانے کی منصوبہ بندی کی تھی تاکہ قدیم شہر کے باسی یہاں آکر آباد ہوں۔ یوں یہ شہرِ جدید آباد ہوا۔
مزید پڑھیے: پاکستان میں صرف شمالی علاقے ہی نہیں، اور بھی بہت کچھ ہے
دریائے سندھ، پاکستان کے شمالی پہاڑوں میں سے بہتا ہوا میدانی علاقوں میں داخل ہوتا ہے اور پنجاب و خیبر کے درمیان حد بندی کرتا ہوا صوبہءِ سندھ کی طرف نکل جاتا ہے۔ لیکن جہاں خیبر ختم ہو کر بلوچستان شروع ہوتا ہے، وہاں دریا اپنی صوبائی حد بندی کا کام چھوڑ کر صرف صوبہءِ پنجاب کی حدود میں بہتا ہوا سندھ کی طرف چلنے لگتا ہے اور اس کی جگہ بلوچستان اور پنجاب کے درمیان حد بندی کا فریضہ سلسلہ کوہِ سلیمان کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ دریائے سندھ اور کوہِ سلیمان جہاں ایک دوسرے کے متوازی آجاتے ہیں وہیں ان دونوں کے درمیانی خطے میں یہ شہر ڈیرہ غازی خان آباد ہے۔
ہمیں ڈیرہ غازی خان میں رُکنا نہیں تھا بلکہ یہاں سے راولپنڈی کی بس پکڑنی تھی۔ بسوں کے اڈے سے باہر نکل کر پہلے تو ہم ایک گرم حمام میں جا گھسے اور دیر تک نہائے۔ تھکن اتری تو بھوک چمک اٹھی۔ ایک ہوٹل پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ویسے تو شہر میں رحیم بخش حلوائی کی دکان بھی تھی، استاد عمر کا دانے دار خوشبودار گرما گرم سوہن حلوہ بھی دستیاب تھا اور محمدی کا فالودہ، داجل کے کھیر پیڑے، مولا بخش کی دال اور بانی کی کھیر بھی دستیاب تھی، لیکن ہمارے پاس ٹائم ہی نہیں تھا۔ مصروف لوگ۔
کھانا کھا کر بس اسٹینڈ واپس پہنچے اور رات 12 بجے راولپنڈی جانے کے لیے کوہستان بس سروس کی ایک کھلی ڈھلی بس میں سوار ہوگئے۔ کھڑکی کا اوپر کی طرف کھسکنے والا شیشہ اوپر ہی کی طرف کھسکا دیا اور ٹھنڈی ہوا کا لُطف لیتے ہوئے راولپنڈی کی طرف فراٹے بھرنے لگے۔
دریائے سندھ کو مشہور غازی گھاٹ پل کے ذریعے عبور کیا، جسے تعمیر ہوئے ابھی چند سال ہی گزرے تھے۔ اس پل کی تعمیر سے پہلے پنجاب کے تمام علاقوں سے ڈیرہ غازی خان ایک طرح سے کٹا ہوا ہی تھا، کیونکہ بذریعہ سڑک ڈیرہ غازی خان آنے کے لیے 80 کلومیٹر دور تونسہ بیراج کے پل پر سے دریا کو عبور کرنا پڑتا تھا اور وہاں سے آنے والی مخدوش سڑک پر یہ سفر طے کرنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے تھے۔
غازی گھاٹ پل کی تعمیر سے یہ راستہ مختصر اور آسان ہوگیا۔ اس پل کی تعمیر سے پہلے غازی گھاٹ پر دریا کو عبور کرنے کے لیے سردیوں میں کشتیوں کا پل بنایا جاتا تھا اور بسیں جب اس پل کے قریب پہنچتیں تو مسافروں کو اتار دیا جاتا تھا۔ خالی بسیں پل پر سے گزر کر دوسری طرف پہنچ جاتیں جبکہ مسافر پیدل ہی پل عبور کرتے تھے۔ دریا کو عبور کرکے وہ پھر بسوں میں سوار ہوجاتے تھے، لیکن یہ سہولت صرف سردیوں کے چند مہینے میسر رہتی۔
گرمیاں شروع ہوتے ہی دریا میں پانی بڑھ جاتا، پاٹ وسیع ہوجاتا اور کشتیوں کا پل بنانا ناممکن ہوجاتا۔ ان دنوں دریا عبور کرنے کے لیے انڈس کوئن نام کی ایک اسٹیم بوٹ چلا کرتی تھی اور مسافروں کو دوسرے کنارے پر آکر دوسری بسوں میں سوار ہونا پڑتا تھا، جبکہ زمینی راستے سے سفر کرنے والے تونسہ بیراج کے پل تک دھکے کھانے کے لیے مجبور ہوجاتے۔ ہم نے غازی گھاٹ کے نئے نویلے پل پر سے دریا کو عبور کیا اور خدا کا شکر ادا کیا۔
بس رات بھر پنجاب کے میدانوں میں دوڑتی رہی، نہ جانے کس لمحے میدانوں کو چھوڑ کر پہاڑوں میں جا گھسی، ہم تو سوتے ہی رہے۔ صبح آنکھ کھلی تو پہاڑی نشیب و فراز میں ٹامک ٹوئیے مار رہے تھے۔ کوہِ مرگلہ کے دامن میں راولپنڈی تک پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی۔
سفر کا پہلا حصہ یہاں پڑھیے
تبصرے (2) بند ہیں