• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

’قانون سازی کے حتمی اختیار کے معاملے پر پارلیمان میں بحث کرائی جائے‘

شائع February 20, 2018

اسلام آباد: وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کے معاملے کو ایوان میں اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ قانون سازی کے حتمی اختیار کے معاملے پر پارلیمان میں بحث کرائی جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی گروپ کے اجلاس کے بعد قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران وزیر اعظم نے کئی مرتبہ عدالتی عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ ان معاملات سے حکومت کا کام کرنے کا عمل شدید متاثر ہورہا ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے کچھ ججوں کی جانب سے منتخب نمائندوں کے بارے میں ناپسندیدہ ریمارکس دینے پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ’ میں یہ نہیں کہنا چاہتا تھا لیکن یہ ضروری بن گیا کہ میں کہوں کہ 20 کروڑ سے زائد عوام کے منتخب نمائندوں کو چور، ڈاکو اور مافیا کہ کر بلایا جارہا ہے اور کبھی یہ دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ ہم (ججز) قانون سازی کو منسوخ کردیں گے جو آپ ( پارلیمینٹیرین) نے پاس کی ہے‘۔

مزید پڑھیں: ہمارے وزیراعظم نواز شریف ہی ہیں، شاہد خاقان عباسی

انہوں نے کہا کہ ’سرکاری افسران کو عدالتوں میں طلب کیا جاتا ہے اور پھر ان کی بے عزتی کی جاتی ہے اور نکال دیا جاتا ہے، یہ سب کب تک جاری رہے گا؟ آج کل حکومتی ارکان کے لیے آسان طریقہ کام نہ کرنا ہے کیونکہ کام نہ کرنے پر ان سے کوئی سوال نہیں پوچھے گا لیکن اگر آپ کوئی کام کرتے ہیں تو آپ کو تحقیقات کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔

شاہد خاقان عباسی نے ارکان پارلیمان سے کہا کہ ایک مرتبہ اور ہمیشہ کے لیے فیصلہ کریں کہ انہیں قانون سازی کا حق ہے یا وہ اس کے لیے پہلے منظوری حاصل کرنا چاہیں گے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آئین نے تمام اداروں کے اختیارات اور دائرہ کار کے بارے میں بتا دیا ہے اور انہیں اسی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیئے کیونکہ قومی اداروں کے درمیان کسی قسم کا تنازع ملک کے لیے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہا اس تنازع سے بچنے کے لیے ایوان کو ایک بحث کا انعقاد کرنا چاہیے اور یہ بحث کوئی جانبدار اور پارٹی کی بحث نہیں ہو بلکہ یہ ایوان کی بحث ہونی چاہیے۔

ایوان سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ یہ کسی ادارے کے خلاف تنقید نہیں ہے بلکہ میں آپ کے سامنے حقائق پیش کر رہا ہوں‘۔

قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کی تجویز پر اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مثبت ردعمل دکھایا گیا اور سب اس بات پر راضی ہوئے کہ ریاستی اداروں کے کردار اور اختیارات کے معاملے پر پارلیمانی بحث کی ضرورت ہے، تاہم تمام جماعتوں نے اس معاملے پر حکومتی جماعت کے خلوص پر تحفظات کا اظہار کیا اور الزام لگایا کہ ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا اصل مقصد صرف نواز شریف کے سیاسی مستقبل کو بچانے کے لیے ہے۔

وزیر اعظم کے خطاب سے قبل پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ( پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے پوائنٹ آف آرڈر پر خطاب کرتے ہوئے ہر معاملے پر از خود نوٹس لینے پر عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے آئندہ سینیٹ انتخابات میں مبینہ طور پر مسلح افواج اور خفیہ اداروں کے اثر و رسوخ پر توجہ دلاؤ نوٹس دلاتے ہوئے الزام لگایا کہ بلوچستان میں حکومت کی حالیہ تبدیلی میں انٹر سروس انٹیلی (آئی ایس آئی) نے اہم کردار ادا کیا۔

محمود خان اچکزیہ نے کہا کہ چیف جسٹس اور آرمی چیف دونوں دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جمہوری ہیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ چیف جسٹس اور آرمی چیف ان چیزوں سے واقف نہ ہوں۔

انہوں نے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ دونوں اپنے حلف کے وفادار ہیں تو سیاست میں مداخلت ختم کریں، ساتھ ہی انہوں نےا لزام لگایا کہ بلوچستان میں آرمی کے بریگیڈیئر سیاسی معاملات میں مداخلت میں مصروف ہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم کی جانب سے دی گئی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کی بحث بہت پہلے ہوجانی چاہیے تھی، تاہم اس موقع پر انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے سپریم کورٹ کے احکامات پر 20 ویں آئینی ترمیم میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی حمایت نہیں کی تھی۔

خورشید نے مزید یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے بتائے گئے ارکان کی جانب سے ایک سال قبل ہی پاناما پیپز کا معاملہ پارلیمان کے ذریعے حل کرنے کا کہا گیا تھا لیکن اس وقت کسی نے توجہ نہیں دی تھی۔

یہ پڑھیں: جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کو ناکامی ہوگی، شاہد خاقان عباسی

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے کوئی قانون سازی کی جاتی ہے جو ایک فرد کے بجائے ملکی مفادات کے لیے ہو تو اپوزیشن حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے۔

اس موقع پر وزیر اعظم کی جانب سے وزیر داخلہ احسن اقبال کے موقف کی حمایت کی گئی، جس میں انہوں نے حکومتی اقدامات کےخلاف حکم امتناع جاری کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ تھا آج یہ معاملہ ہے کہ ہم کسی محکمے کو نہیں چلا سکتے، یہاں تک کہ ہم ایک چپڑاسی تک کو نہیں نکال سکتے، اگر ہم کسی شخص یا چپڑاسی کو بدعنوانی کے الزام میں نکالتے ہیں تو وہ اگلے دن عدالت سے حکم امتناع لے آتا ہے۔

وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ ضروری ہے کہ تمام ادارے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کریں۔

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024