• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

نقیب قتل کیس میں سینئر پولیس افسر اور کانسٹیبل گرفتار

شائع February 20, 2018

نقیب اللہ محسود قتل کیس میں سابق سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کے قریبی ساتھی کو گرفتار کرلیا گیا۔

دو سینیئر پولیس حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ سابق ڈی ایس پی ملیر قمر احمد کو نقیب قتل کیس میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈی ایس پی قمر احمد نے شاہ لطیف ٹاؤن میں 13 جنوری کو ہونے والے نقیب اللہ محسود کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا ہے جبکہ ان کی موبائل فون کی معلومات بھی حاصل کرلی گئی ہیں۔

ڈی ایس پی قمر احمد کے علاوہ ایک اور پولیس کانسٹیبل جسے گڈو کے نام سے جانا جاتا ہے کو بھی نقیب قتل کیس میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔

تحقیقات ٹیم کے سامنے دیے گئے بیان میں پولیس کانسٹیبل نے اعتراف کیا کہ اس نے نقیب اللہ محسود سمیت دیگر 3 افراد کے ماورائے عدالت قتل میں استعمال ہونے والی بندوق کا انتظام کیا تھا۔

مزید پڑھیں: خفیہ ایجنسیوں کو راؤ انوار کو تلاش کرنے کا حکم

سینیئر پولیس حکام کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کے زیر استعمال 3 موبائل فون کے ڈیٹا ریکارڈ سے معلومات ملی ہیں کہ انکاؤنٹر کے دن ڈی ایس پی قمر احمد قتل کیے جانے کے مقام پر موجود تھے۔

افسر کے مطابق کالز کے ڈیٹا سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ راؤ انوار ایک میڈیا نمائندے سے بھی اپنے انکاؤنٹر کو براہ راست نشر کرنے کے لیے رابطے میں تھا۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

واضح رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کے اہل خانہ نے راؤ انوار سے ’سمجھوتے‘ کی تردید کردی

تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔

ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔

نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد ملک بھر میں محسود قبائل کی جانب سے مظاہروں کا آغاز کردیا گیا، جس میں مظاہرین کا کہنا تھا سابق ایس ایس پی کا بیان متنازع ہے کیونکہ نقیب اللہ محسود ماڈل بننے کا خواہشمند تھا اور اس کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ماورائے عدالت قتل ازخود نوٹس: مفرور راؤ انوار کا پیغام میڈیا پر چلانے پر پابندی

19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کا از خود نوٹس لے لیا۔

23 جنوری کو نقیب اللہ محسود کے والد کی مدعیت میں سچل تھانے میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا جس میں راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو نامزد کیا گیا۔

مقدمے میں نقیب کے والد نے موقف اپنایا کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار 8 سے 9 سادہ لباس اہلکاروں کی مدد سے ان کے بیٹے کو لے گئے تھے۔

کراچی میں سہراب گوٹھ پر لگائے گئے احتجاجی کیمپ کے دورے کے موقع پر عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ تفتیشی ٹیم نے 14 گھنٹوں میں ثابت کیا کہ مقابلہ جعلی تھا اور نقیب اللہ بے گناہ تھا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024