کیا کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ایک بار پھر حیران کرسکے گی؟
یہ اس سلسلے کی پانچویں قسط ہے اور اس سے قبل پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی قسط میں بالترتیب ملتان سلطان، کراچی کنگز، لاہور قلندرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیموں کا جائزہ لیا گیا۔
پاکستان سپر لیگ - سیزن 1
سوال: پی ایس ایل کی سب سے کمزور ٹیم کون سی ہے؟
جواب: کوئٹہ گلیڈی ایٹرز
پاکستان سپر لیگ - سیزن 2
پی ایس ایل کی سب سے کمزور ٹیم کون سی ہے؟
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز
جی ہاں، پی ایس ایل کے ابتدائی دونوں ایڈیشنز میں جب شائقین سے اس سوال کا جواب پوچھا گیا تو مجموعی طور پر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم کو ہی سب سے کمزور ٹیم قرار دیا گیا لیکن یہ ٹیم دونوں ایڈیشنز میں فائنل تک پہنچنے میں کامیاب رہی اور پی ایس ایل کے تیسرے سیزن میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں کیونکہ گلیڈی ایٹرز کو ایک مرتبہ پھر سب سے کمزور دستے کی حامل ٹیم تصور کیا جا رہا ہے۔
پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن کا آغاز ہوا تو شائقین و ماہرین کی اکثریت کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم کو کمزور قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتے نظر آئی کہ یہی ٹیم ممکنہ طور پر پی ایس ایل میں سب سے پہلے باہر ہونے والی ٹیم ہوگی لیکن جب ایونٹ کا آغاز ہوا تو جہاں بڑے بڑے برج اُلٹے، وہیں کوئٹہ نے سرفراز احمد کی شاندار قیادت اور ویوین رچرڈز کی جوش و جذبے سے بھرپور تحریک کی بدولت شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے پہلے کوالیفائرز میں جگہ بنائی اور پھر فائنل کا حصہ بننے والی سب سے پہلی ٹیم کا اعزاز اپنے نام کیا البتہ بدقسمتی سے یہ ٹیم فائنل میں ناکامی سے دوچار ہوکر چیمپیئن نہ بن سکی۔
ایونٹ کے دوسرے ایڈیشن کا آغاز ہوا تو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی سابقہ کامیابی کو محض اتفاق قرار دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر شائقین و ماہرین کی اکثریت نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دیگر ٹیموں کو فیورٹ کے منصب پر براجمان کیا، لیکن جوش و جذبے سے بھرپور اس ٹیم نے عمدہ منصوبہ بندی کی بدولت ایک مرتبہ پھر سابقہ ایونٹ کی کارکردگی دہراتے ہوئے تمام ٹیموں کو مات دے کر فائنل میں جگہ بنائی۔
یہ ٹیم ایک بار پھر فائنل جیتنے کے لیے پُرعزم نظر آئی لیکن جہاں لاہور میں فائنل کا انعقاد پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا تاریخی اقدام قرار پایا وہیں سیکیورٹی وجوہات کو بنیاد بنا کر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے تمام اہم غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان آمد سے انکار کردیا۔ یوں فائنل میں اوسط درجے کے غیر ملکی کھلاڑیوں کی حامل گلیڈی ایٹرز کی ٹیم ناکامی سے دوچار ہوکر ایک مرتبہ پھر چیمپیئن بننے کا خواب پورا نہ کرسکی۔
پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم اب تک 16 میں سے 10 میچ جیت کر پشاور زلمی کے ساتھ مشترکہ طور پر ایونٹ کی کامیاب ترین ٹیم رہی ہے، ان دونوں ہی ٹیموں نے اب تک 10، 10 میچوں میں کامیابی حاصل کی جبکہ ان دونوں کے درمیان ایک میچ بے نتیجہ رہا۔
ایونٹ کے تیسرے ایڈیشن میں بھی ایک مرتبہ پھر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو کمزور ترین اسکواڈ سمجھتے ہوئے سب سے کم توقعات وابستہ کی جارہی ہیں۔ اگر ٹیم پر ایک نظر دوڑائی جائے تو بیٹنگ میں کیون پیٹرسن، رلی روسو، سرفراز احمد، شین واٹسن، عمر امین، اسد شفیق اور جیسن رائے جیسے بلے باز ٹیم کو میسر ہوں گے جبکہ باؤلنگ میں ٹیم کا انحصار افغان اسپنر راشد خان، انور علی، جوفرا آرکر اور راحت علی پر ہوگا جن کا ساتھ دینے کے لیے شین واٹسن، محمد نواز اور جان ہیسٹنگز بھی ہوں گے۔
کوئٹہ کو جہاں کیون پیٹرسن، ریلی روسو اور شین واٹسن جیسے غیر ملکی کھلاڑی مکمل سیزن کے لیے دستیاب ہوں گے، وہیں راشد خان اور جوفرا آرکر کی کچھ میچوں کے لیے موجودگی کی وجہ سے باؤلنگ کا شعبہ کچھ کمزور محسوس ہوتا ہے کیونکہ یہ دونوں ہی کھلاڑی پورے ایونٹ کے لیے ٹیم کو دستیاب نہیں ہوں گے اور ان دونوں کے دستیاب متبادل کھلاڑیوں سے کسی خاص کارکردگی کی توقع نہیں رکھی جاسکتی لہٰذا ان دونوں کی غیرموجودگی میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو انور علی، راحت علی، بین لافلن اور محمد نواز کے آپشنز پر اکتفا کرنا ہوگا۔
تاہم اس کمزوری کے ساتھ ساتھ اس ٹیم کی سب سے بڑی خوبی کپتان سرفراز احمد، کوچ معین خان اور مینٹور ویوین رچرڈز کی خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ شاندار گیم پلان بنا کر میدان میں اس پر عملدرآمد کرنا ہے۔
ہم نے پی ایس ایل کے بقیہ دونوں ایڈیشنز میں اس بات کا مشاہدہ کیا کہ بھاری بھرکم اسکواڈ اور بڑے بڑے ناموں سے لیس ٹیمیں گیم پلان اور منصوبہ بندی نہ ہونے کے سبب ناکامی سے دوچار ہوئیں لیکن اس کے برعکس کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے بہترین منصوبہ بندی اور گیم پلان کی مدد سے دونوں ایڈیشنز میں کمال کھیل پیش کیا۔
بلاشبہ کاغذ پر یہ ٹیم ایونٹ میں بظاہر سب سے کمزور نظر آ رہی ہے اور اسے بقیہ ٹیموں کی طرح زیادہ تعداد میں بڑے بڑے ناموں کا ساتھ میسر نہیں لیکن اگر اس ٹیم نے ایک مرتبہ پھر ماضی کی طرح بھرپور جوش و جذبے، بہترین قیادت اور بہترین منصوبہ بندی سے اپنے ہتھیاروں کا استعمال کیا تو یہ ٹیم کسی بھی طور دیگر ٹیموں کے لیے ترنوالہ ثابت نہیں ہوسکے گی۔
تبصرے (1) بند ہیں