امریکا اور ترکی شام کے معاملے پر باہمی اختلاف ختم کرنے پر متفق
انقرہ: امریکا اور ترکی نے شام میں کردوں کے خلاف ترک فوجیوں کی کارروائیاں پر دونوں نیٹو ملکوں کے درمیان جنم لینے والے شدید اختلافات ختم کرنے کےلیے ’مشترکہ ورکنگ گروپس’ تشکیل دیئے جائیں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا کے وزیرخارجہ ریکس ٹلر سن نے انقرہ میں اپنے ترک ہم منصب مولود چاوشلو سے ملاقات کے بعد کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشدیدگی کو دور کرنے کے لیے طریقہ کار واضع کیا جائے گا۔
یہ پڑھیں: ترک فوج کا شام میں علیحدگی پسند تنظیم کے خلاف کارروائی کا آغاز
ریکس ٹلرسن نے کہا کہ ‘اب ہم الگ الگ کوئی کام نہیں کریں گے ، امریکا ایک سمت میں کام کرے اور ترکی کچھ اور کام کررہا ہو ، ایسا سلسلہ اب نہیں چلے گا’۔
انہوں نے واضح کیا کہ ‘ہم مل کر کام کریں گے ، ہمارے پاس اچھا میکنیزم ہے جس کی بنیاد پر تعلقات میں بہتری آئے گی’۔
ترکی کے وزیرخارجہ مولود چاوشلو کا کہنا تھا کہ ترکی اور امریکا اپنے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ دونوں کے تعلقات ‘انتہائی حساس’ درجے پر تھے تاہم ‘مشترکہ ورکنگ گروپس’ تشکیل دیئے جائیں گے تاکہ مسائل کا سبب بنے والے اسباب کا حل نکلا جائے ۔
یہ بھی پڑھیں: روس، ترکی اور ایران شام کے سیاسی حل کے لیے متحد
واضح رہے کہ ریکس ٹلرسن کا دورہ ترکی کا بنیادی مقصد شام میں امریکی پالیسی پر ترکی کا غصہ کم کرنا تھا جو عراق جنگ 2003 کی وجہ سے دونوںممالک کے تعلقات میں کشیدگی کا سبب بنا ۔
واشنگٹن نے ترکی کو کہا کہ وہ شام کے علاقے عفرین میں کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) ملیشیا کے خلاف فوجی کارروائیاں میں کمی لائے ۔
ریکس ٹلرسن نے زور دیتے ہوئے کہ امریکی اور ترکی ‘شام میں مشترکہ مقاصد ’رکھتے ہیں تاہم انقرہ شام میں ‘عسکری کارروائیوں کو محدود’ کرے ۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ نے ترکی کے صدر طیب اردگان سے 3 گھنٹے کی طویل ملاقات کی تھی ۔
مزید پڑھیں: کرد باغیوں سے روابط پر ترکی کی امریکا پر تنقید
صدارتی ذرائع کے مطابق ترکی نے امریکی وزیر خارجہ کے سامنے ’دوٹوک‘ انداز میں ترکی کی ترجیحات کا ظاہر کیا۔
اس حوالے سے قابل غور بات یہ ہے کہ سفارتی پروٹوکولز کے آداب کو ایک طرف رکھتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ اور ترکی کے صدر کے درمیان ملاقات کے وقت صرف مولود چاوشلو موجود تھے جو تراجم کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔
یہ خبر 17 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی