• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

پاکستان سپر لیگ: اونچ، نیچ اور امید کا سفر

2017 کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کو مشکل وقت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ پی ایس ایل 2018 اچھا پیغام لے کر آئے گا۔
شائع February 14, 2018 اپ ڈیٹ February 24, 2018

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی ابتدائی دو سالوں میں ہی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کرکٹ شائقین پورا پورا سال اس کے انتظار میں کیلنڈر کو تکتے نظر آتے ہیں۔ اب ہر سال کی شروعات یہ یاد دہانی کرواتی ہے کہ پاکستان میں کھیلوں کا سب سے بڑا ایونٹ اب قریب ہی ہے۔

ابھی اس کا تیسرا ایڈیشن آنا باقی ہے، مگر پی سی بی کی یہ پراڈکٹ، جو کہ اپنے حریفوں کے مقابلے میں اب بھی کافی کم عمر ہے، شکل و صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ وفادار مداح پیدا ہو چکے ہیں، نئی فرنچائزیں شامل کی جا رہی ہیں، ٹیلنٹ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، اور سب سے اہم بات یہ کہ پیسہ بنایا جا رہا ہے۔

یہاں تک کہ بین الاقوامی کرکٹ کو پاکستان واپس لینے کی ایک ضمنی کاوش بھی کافی حد تک کامیاب ہوئی ہے جیسا کہ ہم نے گزشتہ سال کے پی ایس ایل فائنل، اور پھر ورلڈ الیون اور سری لنکا کے دورہ پاکستان کی صورت میں دیکھا۔

یہ سب ثابت کرتا ہے کہ پی ایس ایل بحیثیت ایک برانڈ موزوں حد تک قدم جما چکی ہے اور کم از کم اس کا بنیادی مکینزم ضرور قائم ہے۔ یہ ابھی تک بالکل پرفیکٹ انداز میں نہ چل رہا ہو مگر یہ اسی راستے پر گامزن ہے۔

مگر پاکستان کی دوسری چیزوں کی طرح اس کی کرکٹ لیگ کا سفر بھی اتنا آسان نہیں رہا ہے۔ اس کی کامیابی ناکامیوں سے خالی نہیں رہی، اور اس کا راستہ گڑھوں سے خالی نہیں رہا۔

قارئین کی یادداشتوں کو جھنجھوڑنے کے لیے ہم نے پہلے دو پی ایس ایل ٹورنامنٹس کا خلاصہ ترتیب دیا ہے۔

تصور سے آغاز تک

کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ بڑے کرکٹ بورڈز میں سے پی سی بی وہ آخری بورڈ تھا جو ٹی 20 لیگ کے منصوبے پر عمل پیرا ہوا۔ مگر اس حقیقت کو نہایت آسانی سے فراموش کر دیا جاتا ہے کہ پی ایس ایل پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے 2004 میں شروع کیے گئے قومی ٹی 20 کپ کا صرف ایک زیادہ چمکدار، ترقی یافتہ اور گلیمر سے بھرپور ورژن ہے۔ اس لیے عمومی خیال کے برعکس پاکستان کے پاس انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے آنے اور دنیائے کرکٹ کا منظرنامہ تبدیل کر دینے سے بھی کہیں پہلے سے ایک ٹی 20 لیگ تھی۔

قومی ٹی 20 کپ، جو کہ حقیقت میں پی ایس ایل کا پیشرو تھا، ایک دہائی تک چلتا رہا یہاں تک کہ پی سی بی نے اس منصوبے کو ختم کر دیے۔ مگر تکنیکی باریکیاں نکالنے والے افراد کہہ سکتے ہیں کہ قومی ٹی 20 کپ اور پی ایس ایل، دو بالکل مختلف ٹورنامنٹس ہیں اور ایک کا دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح دیکھیں تو پی ایس ایل کے تصور نے پہلی بات پی سی بی کے سابق سربراہان ڈاکٹر نسیم اشرف اور ذکاء اشرف کے ادوار کے درمیان لیا۔

سیالکوٹ اسٹیلیئنز 2015 میں سپر 8 ٹی 20 کپ جیتنے کے بعد گروپ فوٹو کھنچوا رہے ہیں۔ — فائل
سیالکوٹ اسٹیلیئنز 2015 میں سپر 8 ٹی 20 کپ جیتنے کے بعد گروپ فوٹو کھنچوا رہے ہیں۔ — فائل

دونوں اشرف چاہے اپنے حریف آئی پی ایل کے مدِمقابل سونے کا انڈہ دینے والی اپنی مرغی کتنی ہی شدت سے چاہتے تھے، مگر ان کے ادوار میں اس پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ یہ نجم سیٹھی کا دور تھا جب ایسا لگنے لگا تھا کہ یہ تصور حقیقت میں بدلنے لگا ہے۔

دو دفعہ منسوخی، ایک دفعہ قطر سے عرب امارات منتقلی، اور کئی شکوک و شبہات کے بعد بالآخر سیٹھی اور ساتھی اس گاڑی کو حرکت دینے میں کامیاب ہوگئے۔ پہلی پانچ فرنچائزیں 9 کروڑ 30 لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئیں، جبکہ ایک مشہور بینک کو ٹائٹل اسپانسر کے طور پر شامل کیا گیا۔ پی ایس ایل کے پہلے ڈرافٹ میں 11 ممالک کے کھلاڑیوں کو چنا گیا۔

پڑھیے: پی ایس ایل تھری کا پہلا میچ دبئی اور فائنل کراچی میں ہوگا

اس دوران علی ظفر نے باجے کی اس خوشگوار اور جانی پہچانی آواز کے ساتھ ایک ایسا زبردست ترانہ تشکیل دیا جو کہ اب پی ایس ایل کا ساؤنڈ بن چکا ہے۔

ابتدائیہ

ریگے گلوکار شان پال نے پی ایس ایل کے پہلے سیزن کی افتتاحی تقریب میں پرفارمنس دے کر ٹورنمانٹ کا آغاز کیا۔ باوجود اس کے کہ یہ پاکستان میں نہیں کھیلا جا رہا تھا، مگر پھر بھی پی ایس ایل کو پاکستانی ٹی وی ناظرین سے بے تحاشہ حمایت ملی، اور پاکستان میں آئی سی سی ورلڈ کپ سے بھی زیادہ لوگوں نے اسے دیکھا۔

کراچی کنگز اور لاہور قلندرز سے کہیں زیادہ کی توقع تھی کیوں کہ وہ پاکستان کے دو سب سے بڑے شہروں کی نمائندہ ٹیمیں تھیں، مگر حیران کن طور پر دونوں کی کارکردگی بھیانک خواب کی طرح رہی۔ کنگز نیچے سے دوسرے نمبر پر آئے، وہ بھی صرف اس لیے کیوں کہ انہی کی طرح مشکلات کے شکار قلندرز آخری نمبر پر تھے۔

کھیل کی سب سے کم قیمت فرنچائزوں پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان پر اپنی اجارہ داری قائم رکھی اور 12 پوائنٹس سے اختتام کیا۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے مصباح الحق پہلے پی ایس ایل میں ایکشن میں دکھائی دے رہے ہیں۔ — فائل
اسلام آباد یونائیٹڈ کے مصباح الحق پہلے پی ایس ایل میں ایکشن میں دکھائی دے رہے ہیں۔ — فائل

جہاں دو سب سے بڑی ٹیموں کا سب سے زیادہ مذاق اڑا، اور دو سب سے چھوٹی ٹیموں نے ساری تعریفیں سمیٹیں، وہیں پانچویں فرنچائز اسلام آباد یونائیٹڈ اس تمام شور شرابے سے دور رہی اور بالآخر تاریخ رقم کرتے ہوئے فائنل میں کوئٹہ کو روند ڈالا۔

یوں پی ایس ایل کے افتتاحی ایڈیشن کا تاج اسلام آباد یونائیٹڈ کے سر پر سجا۔

ڈراؤنا خواب جب حقیقت میں بدلا

پی ایس ایل کا افتتاحی سیزن تمام توقعات سے بھی زیادہ بہتر تھا۔ 20 دن تک پاکستان کے لوگوں نے پی ایس ایل کے ساتھ کھانا کھایا، سانس لیا، دن گزارے اور نیند کی۔ سب کچھ ہوجانے کے بعد نجم سیٹھی نے دعویٰ کیا کہ پی سی بی اس ٹورنامنٹ سے 26 لاکھ ڈالر کا منافع بنانے میں بھی کامیاب رہا۔ اس کامیابی سے حوصلہ افزائی کے بعد اگلے سیزن کے لیے توقعات اور بھی زیادہ ہو گئیں، اور ٹورنامنٹ کا فائنل لاہور میں رکھا گیا۔

اس دفعہ علی ظفر نے پہلے سے بھی اچھا ایک اور ترانہ 'اب کھیل جمے گا' تیار کیا، جبکہ معروف انگلش گلوکار شیگی نے بھی افتتاحی تقریب میں پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ کیا غلط ہوسکتا تھا؟

مزید پڑھیے: پی ایس ایل:پشاور زلمی کی پوری ٹیم پاکستان آنے کو تیار

مگر 10 فروری کو پی ایس ایل 2017 کے لانچ ہونے کے اگلے ہی دن یہ ٹورنامنٹ ٹریجیڈی کا شکار ہوگیا۔ اسپاٹ فکسنگ، معطلی، الزامات کی بوچھاڑ، قربانی کا بکرا بنانا، یہ سب کچھ اس ملک کے لوگوں کے لیے کچھ نیا نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ کھلاڑیوں کی غلطی تھی تو کچھ کے نزدیک اس کا الزام پی سی بی پر عائد ہوتا ہے۔

شرجیل اور لطیف پی ایس ایل کے سب سے بڑے تنازعے کے مرکزی کردار رہے۔ — فائل
شرجیل اور لطیف پی ایس ایل کے سب سے بڑے تنازعے کے مرکزی کردار رہے۔ — فائل

پاکستان کرکٹ کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اس سب سے بچنا نہایت مشکل تھا۔ ایک طویل عرصے سے ایسا کچھ نہیں ہوا تھا، چنانچہ ایک طویل عرصے بعد ایسا کچھ ہوگیا۔ مگر سیٹھی اور ساتھیوں کو مبارکباد دینی چاہیے کہ انہوں نے اس سب کے باوجود ٹورنامنٹ کو پٹڑی سے اترنے نہ دیا۔

کھیل میں واپسی

گروپ میچز غیر معمولی طور پر ایک ٹی 20 لیگ کے لیے بہت کم اسکور والے میچز رہے، مگر اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ کئی میچ ہوئے جس کی وجہ سے لیگ کی انٹرٹینمنٹ میں اضافہ ہوا۔

پوائنٹس ٹیبل پر کچھ تبدیلیاں آئیں مگر وہ اتنی زبردست نہیں تھیں کہ اتھل پتھل مچا سکتیں۔ قلندرز تھوڑے بہتر تھے، مگر پھر بھی اتنے اچھے نہیں رہے کہ آخری درجے سے اوپر آ سکیں، جبکہ زلمی اور گلیڈی ایٹرز پہلے سیزن جتنے بہترین تو نہیں رہے، مگر پھر بھی اوپر کے دو درجوں پر براجمان رہے، بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے پچھلے سال گروپ میچز پر اپنی دھاک بٹھائی ہوئی تھی۔

گلیڈی ایٹرز نے زلمی کو پہلے کوالیفائر میں ایک رن سے ہرا دیا، اور پھر اگلے میچ میں اپنے اسپاٹ فکسرز کی وجہ سے کمزور پڑ چکے دفاعی چیمپیئن اسلام آباد کنگز کے خلاف میچ ہارنے کے بعد ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئے۔ پھر زلمی نے کنگز کو ہرایا اور لاہور میں فائنل میں جگہ بنا لی۔

مگر 13 فروری کو دہشتگرد حملے کا مطلب تھا کہ لاہور میں فائنل کروانا اپنے آپ میں ایک چیلنج تھا۔ مگر سیٹھی نے ہمت نہیں ہاری اور فائنل لاہور میں کر کے دکھایا۔

لاہور میں پی ایس ایل فائنل کے موقع پر شائقین میچ سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ — اے ایف پی۔
لاہور میں پی ایس ایل فائنل کے موقع پر شائقین میچ سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ — اے ایف پی۔

گلیڈی ایٹرز اپنے کئی اسٹار کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہے کیوں کہ انہوں نے پاکستان آ کر کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کی عدم موجودگی کا اثر فائنل میں واضح تھا جہاں زلمی نے اپنے حریفوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا اور باآسانی ٹائٹل حاصل کر لیا۔

اگلی اننگز

اب زلمی کے لیے اگلا ٹاسک یہ ہے کہ اس کامیابی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں پھنسنے سے پہلے ہی ٹائٹل کے دفاع کے لیے اتنے پرجوش نظر نہیں آ رہے تھے۔ زلمی کو اس خامی کو ضرور نظر میں رکھنا چاہیے۔ جیت ایک فرنچائز کو حاکم بنا سکتی ہے مگر یہ پے در پے شکست کا دروازہ بھی کھول سکتی ہے۔

سیمی اور سیموئلز نے 2017 کی پی ایس ایل ٹرافی اٹھا رکھی ہے۔ — فائل
سیمی اور سیموئلز نے 2017 کی پی ایس ایل ٹرافی اٹھا رکھی ہے۔ — فائل

اپنے اعزاز کو برقرار رکھنا زلمی کے لیے اب اور بھی مشکل ہو سکتا ہے کیوں کہ ملتان سلطان کی صورت میں اب چھٹے حریف کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ اس دوران ہمیشہ سے نیچے موجود لاہور اور دیگر نے آف سیزن اپنی صفیں مضبوط کرنے کے لیے بہت کام کیا ہے۔

پاکستان کرکٹ کی تاریخ ہمیشہ اونچ نیچ سے بھرپور رہی ہے۔ 2017 کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کو مشکل وقت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ پی ایس ایل 2018 اچھا پیغام لے کر آئے گا۔

زوہیب احمد مجید
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔