• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
شائع February 17, 2018 اپ ڈیٹ February 24, 2018

کراچی کنگز کا شیر اس بار دھاڑنے میں کامیاب ہوسکے گا؟

اسامہ افتخار


یہ اس سلسلے کی دوسری قسط ہے اور پہلی قسط میں ہم نے 'ملتان سلطان' کی ٹیم کا جائزہ لیا تھا۔


پاکستان سپر لیگ کے پہلے سیزن کا آغاز ہوا تو اُس وقت لیگ کی سب سے مہنگی ٹیم کراچی کنگز کو فیورٹ قرار دیا گیا تھا لیکن توقعات کے برعکس ٹیم نے انتہائی مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

خراب صورتحال کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بڑے بڑے کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی اور ٹیم میں جاری اختلافات سے پریشان کپتان شعیب ملک نے ٹورنامنٹ کے درمیان ہی قیادت چھوڑنے کا فیصلہ کیا، جس کی وجہ سے معاملات مزید خراب ہوئے اور کراچی کنگز نے ایونٹ کا اختتام 2 ناکام ترین ٹیموں میں سے ایک کی حیثیت سے کیا۔

دوسرے ایڈیشن میں نئے کپتان کمار سنگاکارا کے ساتھ ساتھ کرس گیل اور کیرون پولارڈ کی خدمات حاصل کرنے پر ایک مرتبہ پھر کراچی کنگز کی ٹیم بلند و بانگ دعوؤں اور توقعات کے ساتھ ایونٹ میں شریک ہوئی لیکن اسٹارز کی چکا چوند اور قیادت کی تبدیلی بھی ان کی قسمت نہ بدل سکی اور ٹیم نے ایک مرتبہ پھر بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

کراچی کنگز کا آفیشل لوگو
کراچی کنگز کا آفیشل لوگو

کراچی کنگز کی بدترین کارکردگی کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ لیگ کے دونوں ایڈیشنز میں کھیلے گئے کل 16 میچوں میں سے یہ ٹیم صرف 6 میچ جیتنے میں ہی کامیاب ہوسکی۔

اب ایونٹ کے تیسرے ایڈیشن میں یہ ٹیم ایک مرتبہ پھر نئے کپتان اور نئے کھلاڑیوں کے ساتھ نیا جوش و جذبہ لیے فتح کا خواب سجائے میدان میں اُترنے کو تیار ہے۔ اس بار یہ خواب کچھ ٹھیک بھی لگ رہا ہے کیونکہ ماضی کے 2 ایڈیشن کے مقابلے میں یہ ٹیم نسبتاً متوازن نظر آرہی ہے۔

اگر بیٹنگ کے شعبے پر نظر ڈالی جائے تو کراچی کنگز کو اُبھرتے ہوئے نوجوان اسٹار بلے باز بابر اعظم، لینڈل سمنز، خرم منظور، ایوئن مورگن، کولن انگرام، اوجو ڈینلی، وکٹ کیپر محمد رضوان کے ساتھ ساتھ تجربہ کار شاہد آفریدی کی خدمات بھی حاصل ہیں۔

لیکن کراچی کنگز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ٹیم آل راؤنڈرز کے معاملے میں کافی خود کفیل ثابت ہوئی ہے اور اسے ٹی 20 کرکٹ میں دنیا کے چند بہترین آل راؤنڈرز کی خدمات حاصل ہیں جن میں شاہد آفریدی، کپتان عماد وسیم، روی بوپارہ، ڈیوڈ ویز اور نوجوان حسن محسن شامل ہیں۔

شاہد آفریدی، روی بھوپارہ اور کپتان عماد وسیم —تصویر بشکریہ psl-t20.com
شاہد آفریدی، روی بھوپارہ اور کپتان عماد وسیم —تصویر بشکریہ psl-t20.com

مجموعی طور پر یہ اسکواڈ کافی حد تک متوازن نظر آتا ہے لیکن کولن منرو کی اسکواڈ سے دستبرداری کے سبب ٹیم کی بیٹنگ لائن تھوڑی کمزور ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود کراچی کنگز کی سب سے بڑی کمزوری فاسٹ باؤلنگ آپشنز کی کمی ہے۔

اگر کراچی کنگز کے اسکواڈ پر نظر ڈالی جائے تو فاسٹ باؤلرز کی شکل میں ان کے پاس صرف محمد عامر اور مچل جانسن کی جگہ اسکواڈ کا حصہ بننے والے ٹائمل ملز شامل ہیں۔ بظاہر تو متحدہ عرب امارات کی کنڈیشنز اور موسم کے ساتھ اسکواڈ میں ڈیوڈ ویز اور حسن محسن جیسے فاسٹ باؤلنگ آل راؤنڈرز کی موجودگی میں یہ تعداد مناسب معلوم ہوتی ہے لیکن ان دونوں فاسٹ باؤلرز میں سے اگر کوئی ایک بھی انجری کا شکار ہوجاتا ہے تو یہ ٹیم شدید مشکلات سے دوچار ہوسکتی ہے کیونکہ عثمان شنواری پہلے ہی انجری کا شکار ہیں اور اُن کی ایونٹ میں شرکت کے امکان انتہائی کم نظر آتے ہیں۔

لیکن جہاں اس ٹیم کو فاسٹ باولرز کی کمی کا سامنا ہے وہیں مختصر طرز کی کرکٹ کے لیے بہترین اسپنرز بھی میسر ہیں، خصوصاً متحدہ عرب امارات کی کنڈیشنز میں عماد وسیم اور شاہد آفریدی جیسے آل راؤنڈرز بہت مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ عماد وسیم عموماً ٹی 20 میچوں میں باؤلنگ کا آغاز کرتے ہیں جس سے کراچی کنگز اسپنرز کے لیے سازگار وکٹوں پر ایک اور اسپنر کھلا کر درمیانی اوورز میں حریف ٹیموں کو مشکلات سے دوچار کرسکتی ہے۔

محمد عامر، بابر اعظم اور عثمان خان—تصویر بشکریہ psl-t20.com
محمد عامر، بابر اعظم اور عثمان خان—تصویر بشکریہ psl-t20.com

یہاں اب ذکر کراچی کنگز کی قیادت کا کرتے ہیں، جو جو گزشتہ 2 سیزنز میں شعیب ملک، روی بوپارا اور کمار سنگاکارا سے ہوتے ہوئے اس بار نوجوان عماد وسیم کے پاس آئی ہے، اور ماضی میں جب اتنے تجربے کار کپتان اس ٹیم کو چلانے میں ناکام رہے ہیں، ایسی صورت میں عماد وسیم کے لیے معاملات کو سنبھالنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ یہ بات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ عماد وسیم انٹرنیشنل سطح پر قیادت کا تجربہ نہیں رکھتے جبکہ ڈومیسٹک سطح پر بھی ان کا قیادت کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم پہلی مرتبہ کراچی کا حصہ بننے والے قومی ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر وہ اس کمی کو پورا کرتے ہوئے خود کو ایک کامیاب کپتان ثابت کرسکتے ہیں۔

یہ ایونٹ عماد وسیم سے زیادہ کوچ مکی آرتھر کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ گزشتہ 2 ایونٹس میں ان کی کوچنگ میں ٹیم کچھ خاص کر دکھانے میں ناکام رہی ہے لیکن اس کے باوجود ٹیم انتظامیہ اور مالکان نے ان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو کسی حیران کن فیصلے سے کم نہیں ہے۔

شاید اس موقعے کی وجہ مکی آرتھر کی قومی ٹیم کے ساتھ چیمپیئنز ٹرافی میں فتح اور ٹی 20 میں قومی ٹیم کی شاندار کارکردگی ہو۔ وجہ جو بھی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مکی آرتھر کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ٹیم سے کچھ اچھے نتائج نکلواسکیں، کیونکہ اگر اس بار بھی نتیجہ ماضی کی طرح ہوا تو شاید یہ ان کا پاکستان سپر لیگ میں کراچی کنگز کے ساتھ آخری ایونٹ ثابت ہو۔


اسامہ افتخار

اسامہ افتخار ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔