کرد باغیوں سے روابط پر ترکی کی امریکا پر تنقید
بیروت: ترکی کے وزیر خارجہ میلود چاووش اوغلو نے امریکا پر شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف جنگ میں رکاوٹ بننے اور شام میں کرد ملیشیا کے ساتھ روابط ختم نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
استنبول میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے میلود چاووش اوغلو نے کہا کہ امریکی فورسز داعش میں اپنے ایسے حصے چھوڑے جارہے ہیں جس سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی داعش کے خلاف کردوں کی امداد جاری ہے۔
امریکا کے سیکریٹری اسٹیٹ ریکس ٹلرسن کے دورہ انقرہ سے قبل میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے میلود چاووش اوغلو کا کہنا تھا کہ ترکی اور امریکا کے تعلقات ’بناؤ یا توڑ دو‘ کے مقام پر پہنچ چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: ترک فوج کی کردوں کے خلاف کارروائی: امریکا کو باز رہنے کا انتباہ
انہوں نے واضح کیا کہ واشنگٹن کو انقرہ کا اعتماد دوبارہ بحال کرنے کے لیے ’ٹھوس اقدامات‘ کرنے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایسے موڑ پر ہیں جہاں سے یا تو یہ بہتر ہو جائیں گے یا پھر یہ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔
خیال رہے کہ واشنگٹن کی جانب سے شامی کرد عوامی تحفظ یونٹ یا وائے پی جی کی مدد کی وجہ سے انقرہ میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔
ترکی وائے پی جی کو ’دہشت گرد‘ گروپ قرار دیتا ہے جو کرد باغیوں کے ساتھ مل کر ترک سرزمین پر دہشت گرد کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ترک فوج کی کردوں کےخلاف کارروائی: قطر کا حمایت کا اعلان
ترکی نے شمالی شام میں موجود کرد باغیوں کے اینکلیو ’عفرین‘ کو ختم کرنے کے لیے سرحد پار کارروائی کا بھی آغاز کیا۔
انقرہ کی جانب سے وائے پی جی کے خلاف کارروائی کو عرفین کے مشرقی علاقوں تک بڑھانے کی دھمکی دی ہے جہاں پر پہلے سے ہی امریکی فوج موجود ہے۔
ترک فوج کے مطابق عفرین میں کارروائیاں اس وقت سست روی کا شکار ہیں اور تین ہفتوں سے جاری اس لڑائی میں ترکی اب تک کچھ گاؤں اور کچھ اہم پہاڑوں کی چوٹیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شام میں مشترکہ کارروائی کیلئے ترکی اور امریکا کا اتفاق
ترک فوج کے مطابق شام میں ترکی کی جانب سے تربیت یافتہ اور مسلح کیے گئے تقریباً 10 ہزار افراد بھی اس مہم کا حصہ ہیں، تاہم اس مہم میں اب تک ترکی کے 31 فوجی مارے جاچکے ہیں۔
وائے پی جی کے کمانڈر سپن ہیمو کا کہنا تھا کہ ترکی کے آپریشن کے دوران ان کی ملیشیا کی اہم جگہیں ہاتھ سے جا چکی ہیں، تاہم اسے ترکی کی بڑی پیش قدمی نہیں کہا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا، شام کے شمالی علاقے عفرین میں عسکریت پسندوں کی مدد نہیں کر رہا۔
یہ خبر 13 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی