کال ٹریس کے معاملے پر آئی ایس آئی اور ایم آئی تعاون نہیں کر رہیں، آئی بی
اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے حکام نے عدالت کو بتایا ہے کہ دھرنے کے شرکاء کو پیسے دینے سے متعلق لیک ہونے والی کال کو ٹریس کرنے کے لیے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)، آئی بی کے ساتھ تعاون نہیں کر رہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے سامنے آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل انور علی نے کہا کہ سول ایجنسیز کالر کی شناخت ظاہر کرنے میں اپنی ناکامی ظاہر کر رہی ہیں جبکہ آئی ایس آئی اور ایم آئی ہماری درخواست پر کوئی جواب نہیں دے رہیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا راجا ظفرالحق رپورٹ پرحکومت کو الٹی میٹم
خیال رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد پر تحریک لبیک پاکستان (تحریک لبیک یارسول اللہ) کی جانب سے دھرنا دیا گیا تھا تاہم اسی دوان ایک نامعلوم کال لیک ہوئی تھی، جس میں کال کرنے والا دھرنے کے مختلف پہلووں اور مظاہرین کو ہینڈل کرنے کی حکمت عملی پر بات کر رہا تھا جبکہ اس شخص نے بعض ایسی شخصیات کا نام لیا تھا جو مظاہرین میں پیسے تقسیم کررہے تھے۔
اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریری طور پر جواب جمع کرایا گیا، جس میں آئی بی نے موقف اختیار کیا کہ آئی ایس آئی سے ذمہ دارانہ سطح پر رابطہ کیا تھا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا جبکہ ایم آئی کی صورتحال بھی کچھ اسی طرح کی تھی۔
آئی بی حکام نے بتایا کہ پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی اور نیشنل فارنزک سائنس ایجنسی کے پاس کال ٹریس کرنے کے حوالے سے سہولیات کی کمی ہے جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے بھی اس معاملے میں اپنی ناکامی ظاہر کی تھی۔
عدالت میں سماعت کے دوران ڈیفنس سیکریٹری لیفٹینںٹ جنرل (ر) ضمیر حسین اور ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی پیش ہوئے اور عدالت نے راجا ظفر الحق کمیٹی سے متعلق آگاہ کیا۔
جس پر جسٹس شوکت صدیق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم، وزیر داخلہ، وزیر قانون اور وزیر برائے مذہبی امور کو خبردار کیا کہ اگر حکومت کیس کی اگلی تاریخ تک رپورٹ پیش کرنے میں ناکام رہی تو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت گزشتہ نومبر سے اس رپورٹ کو طلب کررکھا ہے اور ’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عدالتی احکامات کے باوجود کیوں حکومت راجا ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ جمع نہیں کرا رہی‘۔
یہ بھی پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس: راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت برہم
اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر داخلہ احسن اقبال ملک سے باہر تھے، جس کی وجہ سے رپورٹ تیار نہیں کی جاسکی ہے، یہ رپورٹ ابھی تک نامکمل ہے اور اگر عدالت چاہے گی تو اسے چیمبر میں بطور خفیہ دستاویز پیش کردیا جائے گا‘۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ اس رپورٹ کو جمع کرانے کے لیے کم از کم 15 دن کی مہلت دیں لیکن عدالت نے حکم دیا کہ 20 فروری تک رپورٹ جمع کرائیں یا نتائج کے لیے تیار رہیں۔
یہ خبر 13 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی