• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

امریکی سینیٹ میں پاکستان کی ‘امداد’ روکنے کیلئے بل پر بحث کا آغاز

شائع February 7, 2018

واشنگٹن: امریکا کی پارلیمنٹ میں پاکستان کے خلاف قومی دفاعی بل پاس ہونے کے بعد اب یہ بل امریکی سینیٹ میں زیر بحث ہے۔

امریکی ارکان پارلیمنٹ نے سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کی، دوسری جانب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی عسکری امداد معطل کر چکے ہیں۔

واضح رہے کہ چند ماہ قبل امریکی پارلیمنٹ میں قومی دفاعی پالیسی بل 2018 منظور ہوا جس میں امریکی اسٹیٹ ڈپارنمنٹ اور یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈولپمنٹ (یو ایس ایڈ) کی جانب سے پاکستان کی امداد پر پابندی کا تقاضہ کیا گیا ہے، بل کے حق میں 344 اور مخالفت میں 81 ووٹ ڈالے گئے۔

یہ پڑھیں: امریکا نے پاکستان کی سیکیورٹی امداد روک دی

ایوان زیریں میں پیش کیے جانے والے بل میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان کی غیر عسکری امداد بھی بند کی جائے اور وہ تمام رقم امریکا کے ترقیاتی شبعوں میں لگائی جائیں۔

بل پیش کرنے والوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ‘وہ پاکستان کی عسکری امداد پر پابندی کا تقاضہ اس لیے کررہے ہیں کیوںکہ پاکستان دہشت گردوں کو ‘ملٹری امداد اور انٹیلی جنس’ فراہم کرتا ہے مذکورہ الزام کو پاکستان نے قطعی رد کیا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق امریکا، افغانستان میں بڑھتی ہوئی شرپسندی کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے اور اسی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔

بل کانگریسی رہنما مارک سین فورڈ اور تھامس ماسی نے پیش کیا، مارک سین فورڈ نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم سے دہشت گردوں کو نوازا جانے کا سلسلہ بن کیا جائے اور مذکورہ امدادی رقم کو ہائی وے ٹرسٹ فنڈ میں شامل ہونا چاہیے جس سے ترقیاتی کام ہوسکیں’۔

یہ بھی پڑھیں: 'ہم سے ملنے والی امداد کا حق پاکستان کو ثابت کرنا ہو گا'

تھامس ماسی نے کہا کہ قومی دفاعی پالیسی بل 2018 کا مطلب سب سے پہلے امریکا ہے، اس کے ذریعے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ہو گی ناکہ دوسری ریاستوں پر خرچ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ‘جو ممالک امریکیوں کی موت پر خوش ہوتے اور جھنڈے جلاتے ہیں، ان کی مدد کرنے سے ہمارے ملک کا داخلی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہورہا ہے جس کے تحفظ کے لیے ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے’۔


یہ خبر 07 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

Anar Feb 08, 2018 04:21am
Ye hamare bagair akele nahi reh sakte, khoa tum kuch bhi kar lo.

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024