یہ گوادر ویسا تو نہیں ہے ۔ ۔ ۔
چاروں طرف بپا خاموشی میں جب دور موجود چند چینی ہنستے کھیلتے دکھائی دیے تو حیرانی ہوئی کہ ایک ایسی جگہ پر جہاں دور تک کوئی دکھائی نہیں دے رہا تو بھلا یہ یہاں کیا کررہے ہیں؟ جب تجسس بڑھا تو معاملے کو قریب سے جاکر دیکھنے کا فیصلہ کیا اور جب اُن کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ چینی یہاں اب کوئی مہمان نہیں، بلکہ مستقل مکین بن چکے ہیں اور مصروفیت سے کچھ وقت نکال کر مچھلیاں پکڑنا ان کا روز کا معمول بن چکا ہے۔
یہ ذکر چین کے کسی شہر کا نہیں، بلکہ گوادر کا ہورہا ہے، جہاں شدید ترین خواہش اور متعدد کوششوں کے باوجود اب تک جانا ممکن نہیں ہوسکا تھا، مگر وہ کہتے ہیں نا کہ اگر کوشش خلوص سے کی جائے تو ایک بار موقع میسر آ ہی جاتا ہے، تو اِس بار جنوری کے اختتام پر یہ موقع ہمیں بھی میسر آہی گیا۔**
ویسے تو جانے کی وجہ گوادر ایکسپو 2018ء تھی، لیکن اِس تحریر کو لکھنے کا مقصد یہ ایکسپو ہرگز نہیں، اگرچہ تحریر میں ایکسپو کا ذکر ضرور کیا جائے گا مگر زیادہ توجہ اپنے دورہ گوادر اور سی پیک کے حوالے سےمقامی لوگوں کے خیالات آپ تک پہنچانے پر ہوگی۔
کراچی سے گوادر روانگی
تو معاملہ یہ ہے ہماری روانگی پیر یعنی 29 جنوری کو کراچی سے براستہ حب ہوئی۔ حب پہنچے تو حیران کن طور پر شدید دھند سے سامنا ہوا۔ دھند اس قدر شدید تھی کہ آگے موجود گاڑی تک نظر نہیں آرہی تھی۔ ابتداء میں تو یہی خیال آیا کہ اگر زیادہ دیر تک اِس موسم کو جھیلنا پڑا تو پہنچنے میں تاخیر ہوجائے گی، مگر خوش قسمتی سے کچھ دیر میں ہی بتدریج دھند میں کمی ہوتی گئی اور سفرِ خیر کا بھرپور اور باقاعدہ آغاز ہوگیا۔
اب چونکہ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کا گوادر کے لیے یہ پہلا سفر تھا لہٰذا راستے میں ہر کچھ دیر بعد گاڑی رکوائی جاتی اور قدرتی حسن کوکیمرے کی آنکھ میں قید کرنے کا سلسلہ جاری رہتا۔
سی پیک پر کام شروع ہونے کی وجہ سے حالات میں بہت بہتری آئی ہے، اسی کی وجہ سے مارکیٹ آباد ہوئی، گوادر کا دکان مالک
اگر یہ کہا جائے کہ کوسٹل ہائی وے جنگل میں منگل ثابت ہوئی تو غلط نہ ہوگا۔ دونوں طرف چٹیل پہاڑوں ، صحرا اور بیابان کے درمیان خوبصورت سڑک نے سفر پُرلطف بنادیا۔
امن و امان کی مخدوش حالات کے بارے میں کراچی والوں سے زیادہ شاید ہی کوئی جانتا ہو، لیکن اِس کے باوجود بلوچستان کے حالات نے ہمیشہ سے ہی خوفزدہ رکھا ہوا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ گوادر پہنچنے تک ایک انجانے سے خوف نے مسلسل گھیرا ہوا تھا، لیکن کراچی تا گوادر تقریباً 650 کلومیٹر طویل سفر انتہائی خیر یت سے گزر گیا۔ راستے میں وقتا فوقتاً رینجرز، کوسٹ گارڈز اور فوجی چوکیوں نے بار بار یہ اطمینان دیا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہاں سب کچھ ٹھیک ہے۔
گوادر پہنچنے کے بعد
بہرحال مختلف جگہوں پر رکنے کے سبب 7 گھنٹے کا سفر ہم نے 9 گھنٹے میں طے کیا اور بالآخر گوادر پہنچ گئے۔ گوادر کے بارے میں میرا ذاتی خیال تھا کہ یہ ایک انتہائی پسماندہ علاقہ ہوگا، جہاں خستہ مکانات اور کچی پکی سڑکیں ہمارا استقبال کریں گی، مگر سچ پوچھیے تو وہاں پہنچ کر پہلا خیال یہ آیا کہ ہم کراچی میں موجود سی ویو کی سڑک پر گھوم رہے ہیں، کیونکہ ایک طرف دور تک پھیلا نیلگوں سمندر تھا اور دوسری طرف بڑے اور خوبصورت مکانات تھے، لیکن سمندر کے صاف اور نیلے پانی نے ہمارے دھوکے کو دور پھینکا کہ اب کراچی کے سمندر کا پانی ایسا نہیں رہا۔
وہاں پہنچے تو میزبان نے ہمارا استقبال کیا اور پھر ہمیں اپنے گھر لے گئے جہاں رہنے کا بہترین انتظام تھا۔ چونکہ جب ہم پہنچے تو دن ڈھل چکا تھا لہٰذا کچھ دیر آرام کرنے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ زیادہ تھکاوٹ کرنے کے بجائے کچھ دیر شہر کو دیکھا جائے اور پھر رات کو آرام کیا جائے کیونکہ اگلے دن ہمیں صبح ہی ایکسپو کے لیے روانہ ہونا تھا۔
بازار کی سیر اور مقامی لوگوں سے بات چیت
رات میں پہلے تو ہم شہر میں موجود ساحل پر گئے جہاں کھلا سمندر خوشگوار احساس دلا رہا تھا۔ وہاں کچھ دیر رکنے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ بازار چلتے ہیں تاکہ کچھ سیر بھی ہوجائے اور مقامی لوگوں سے بات چیت کرنے کا موقع بھی میسر آجائے۔
چونکہ شہر چھوٹا سا ہے تو فوراً ہی ہم بازار پہنچ گئے اور ہم نے سب سے پہلے رُخ کیا وہاں موجود مشہور چپل ہاوس کا، جہاں بلوچستان کے مشہور کھیڑی (سینڈل) تیار کی جاتی ہے۔
چینی خود تو نہیں آتے مگر اپنے پیر کا ناپ لیکر ملازمین کو بھیج دیتے ہیں، محمد وسیم
کچھ ساتھی وہاں موجود چپل دیکھنے میں مصروف ہوئے تو کچھ نے مقامی لوگوں سے گوادر کے حالات اور سی پیک کے اثرات کے حوالے سے بات کرنا ضرور سمجھا۔
ہمارا پہلا ہی سوال یہ تھا کہ گوادر میں کاروبار کی صورتحال کیسی ہے؟ سی پیک کی وجہ سے کاروبار میں اضافہ ہوا یا کمی؟ دکان کے مالک محمد وسیم کا جواب کم از کم میرے لیے انتہائی خوشگوار حیرت کا سبب بنا کیونکہ اُس نے بہت ہی مثبت انداز میں کہا کہ اللہ کا بہت شکر ہے، یہاں کاروبار پہلے سے بہت بہتر ہے اور اس کی وجہ شاید سی پیک ہی ہے۔ ہم نے پوچھا وہ کیوں؟ تو جواب ملا کہ سی پیک پر کام شروع ہونے کی وجہ سے گوادر کے حالات میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے، اور اسی بہتری کی وجہ سے مارکیٹ آباد ہوئی ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا چپل لینے چینی بھی آتے ہیں؟ تو جواب ملا کہ اگرچہ چینی خود تو نہیں آتے مگر اپنے پیر کا ناپ لیکر ملازمین کو بھیج دیتے ہیں اور ہم اُس ناپ کے مطابق 8 سے 10 جوڑی بھیج دیتے ہیں۔
آئے روز سیکیورٹی کی وجہ سے دکانوں کو بند کروادیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کاروبار بہت حد تک متاثر ہوا ہے، دکاندار
یہ ساری باتیں سن کر تو بس یہی لگ رہا تھا کہ ہم جو باتیں گوادر یا سی پیک سے متعلق مقامی لوگوں کے تحفظات کے بارے میں سنتے تھے وہ تو سب غلط ہیں، لیکن یہ خیال کچھ ہی دیر میں ہوا میں دھواں کی مانند اُڑ گیا جب چپل ہاوس کے بالکل برابر میں موجود کریانہ اسٹور کے مالک سے بات ہوئی۔ اُس نے ہمیں دیکھ کر اپنے دل کی باتیں یوں شروع کردیں کہ جیسے وہ کئی عرصے تک کچھ کہنا چاہتا ہو مگر کہہ نہ پارہا ہو۔
کریانہ اسٹور کے مالک عبدالوحید نے ہمیں بتایا کہ سی پیک اور اُس کی وجہ سے بڑھتی سیکیورٹی نے انہیں بہت پریشان کررکھا ہے۔ یہاں آئے روز سیکیورٹی کی وجہ سے دکانوں کو بند کروادیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کاروبار بہت حد تک متاثر ہوا ہے۔
پانی، بجلی اورٹیکنالوجی کی عدم موجودگی
اگر ان دکانداروں سے ہٹ کر دیگر مقامیوں کی بات کی جائے تو وہ 2 حوالوں سے سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ پہلی وجہ پانی اور دوسری بجلی۔ گوادر میں آپ کسی سے بھی پوچھ لیں کہ سب سے زیادہ پریشانی انہیں کس بات کی ہے تو وہ انہی 2 بنیادی ضروریات کا ذکر کرے گا۔ اِس حوالے سے دعوے تو بہت کیے جارہے ہیں کہ مقامی لوگوں کی ضرورت کے لیے نا صرف پانی کی لائنیں بچھائی جارہی ہیں بلکہ شہر کے لیے اپنی بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے پاور پلانٹ پر بھی کام کیا جارہا ہے، اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ 2020ء تک مقامی لوگون کے درپیش یہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ لیکن یہ دعویٰ حقیقت کب بنتے ہیں اس حوالے سے انتظار کے سوا کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن مقامی لوگوں کے برخلاف سیاحت کی غرض سے آنے والے یا کاروباری حضرات کو سب سے بڑی مشکل جو گوادر میں درپیش ہورہی ہے وہ پانی اور بجلی نہیں بلکہ موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کی فراہمی سے متعلق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر علاقوں سے آنے والے سیّاح اور کاروباری حضرات یا تو ہوٹل میں قیام کرتے ہیں یا پھر کسی میزبان کے یہاں ٹھہرتے ہیں، تو دونوں ہی جگہ پانی اور بجلی کی سہولت کسی نہ کسی طرح میسر آجاتی ہے، مگر موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کی سروس نہ ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ایسا ہونا بھی چاہیے کہ یہ بات تو مسلسل کہی جاتی ہے کہ گوادر مستقبل کا دبئی ہے، لیکن سمجھ سے باہر ہے کہ یہ کیسا دبئی ہے جہاں پانی، بجلی اور موبائل سنگلز اور انٹرنیٹ کی سروس تک موجود نہیں ہے۔
خیر، یہ سوال لیے ہم واپس گھر کو روانہ ہوئے کہ اگلی صبح ایکسپو کے لیے روانہ ہونا ہے۔
ایکسپو کے لیے روانگی
صبح جب روانگی ہوئی اور ایکسپو کی جانب جانے والی سڑک پر نظر پڑی تو تمام ہی ساتھی حیران ہوئے کہ وہاں جانے والی سڑک پر موجود مارکیٹ مکمل طور پر بند تھی، اور ہر گلی میں سیکیورٹی اہلکار مستعدی کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ چونکہ ہم چئیرمین گوادر پورٹ دوستین خان جمال دینی کے پاس جارہے تھے اس لیے سوچ لیا تھا کہ اِس بندش کی وجہ ضرور معلوم کی جائے گی، کیونکہ یہ بندش کریانہ اسٹور والے عبدالوحید کی بات کی تصدیق کررہی تھی کہ سی پیک کی وجہ سے کاروبار بہت زیادہ متاثر ہورہا ہے۔
جب ہماری چئیرمین سے ہماری گفتگو شروع ہوئی تو خوش قسمتی سے ہم سے ملنے وہاں وفاقی وزیر برائے بندرگاہ اور جہاز رانی میر حاصل بزنجو بھی پہنچ گئے۔ ان سے گوادر پورٹ، گوادر کی افادیت اور سی پیک کے مستقل کے حوالے طویل گفتگو ہوئی اور انہوں نے ہر سوال کا بہت تفصیل سے جواب دیا۔
میر حاصل خان بزنجو سے گفتگو
سی پیک کے حوالے سے انہوں نے کچھ بہت اہم باتیں کی جو قارئین تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں۔ جیسے، جب اُن سے سی پیک کے مستقبل کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر کام میں یا تو سازش ڈھونڈنے کے ماہر ہیں یا پھر کسی کے خلاف کوئی ردِعمل۔ انہوں نے کہا کہ بھارت معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے اگلے 20 سال کی تیاری کررہا ہے اور ایران کے ساتھ چاہ بہار میں ہونے والا منصوبہ اسی کا حصہ ہے، لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی وضاحت کردی کہ گوادر کو حاصل خصوصیات کا چاہ بہار سے کوئی مقابلہ ہی نہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اِس نعمت کو اس کی اصل صلاحیت کے مطابق استعمال کریں۔ اسی طرح انہوں نے مزید کہا کہ صرف بھارت اور ایران ہی نہیں، بلکہ پڑوس میں موجود مسقط بھی مزید پورٹس پر کام کررہا ہے،اور یہ ساری تبدیلیاں بتارہی ہیں کہ دنیا بھر میں معیشت کا مرکز یہی ’سمندر‘ بننے جارہے ہیں اور اِس حوالے سے پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے۔
آپ سے تو لوگ صرف شکایت کررہے ہیں، ہم سے تو لڑتے ہیں، میر حاصل بزنجو
دیگر سوالوں سے گزرتے ہوئے ہم اصل سوال کی جانب آئے، یعنی یہ کہ جس طرح یہ بات کہی جارہی ہے کہ گوادر پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے، اور اسی لیے گوادر کو مستقبل کا دبئی کہا جارہا ہے، لیکن یہاں ہماری مقامی لوگوں سے بات ہوئی، کچھ لوگ خوش ہیں لیکن کچھ بہت مایوس اور ناامید، اور ہم نے راستے میں خود دیکھا کہ راستے میں کاروبار بند نظر آیا۔ تو کہیں ایسا تو نہیں کہ گوادر اور سی پیک کی مدد سے پاکستانی معیشت تو ترقی کرجائے اور مقامی لوگ خالی ہاتھ تماشہ دیکھتے رہ جائیں؟
اِس سوال کے جواب میں بزنجو نے چیخنے، چنگھاڑنے اور غصہ کرنے کے بجائے اتفاق کیا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ ایکسپو کی وجہ سے مقامی لوگوں کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن چونکہ یہ پہلی ایکسپو تھی، اس لیے مجبوراً بطور احتیاطی تدابیر ہمیں یہ سب کرنا پڑا۔ جہاں تک بات ہے مقامی لوگوں کے مستقبل کی تو ہماری، یعنی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ اس حوالے سے بھرپور کام کیا جائے۔ جیسے، جب بھی یہاں کی پورٹ متحرک ہوگی تو مقامی لوگوں کو خودبخود کام ملنا شروع ہوجائے گا اور یہاں کاروبار بڑھنے کی وجہ سے روزگار میں اضافہ ہوگا۔ آخر میں انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ویسے آپ سے تو لوگ صرف شکایت کررہے ہیں، ہم سے تو لڑتے ہیں۔
صرف بھارت اور ایران ہی نہیں، بلکہ پڑوس میں موجود مسقط بھی مزید پورٹس پر کام کررہا ہے، وفاقی وزیر برائے بندرگاہ اور جہاز رانی
چونکہ وقت زیادہ ہوگیا تھا اس لیے آخری سوال یہ تھا کہ کیا مستقبل کے حالات سے نمٹنے کے لیے مقامی لوگوں کو چینی زبان سیکھانے کے حوالے سے کوئی ترکیب مرتب کی گئی ہے؟ جس کا جواب اثبات میں تھا، بلکہ وہاں موجود چیئرمین دوستین جمال دینی نے کہا کہ یہاں باقاعدہ انسٹیٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں لوگوں کو ہنر سکھایا جارہا ہے۔ بزنجو صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ وہاں کا چکر ضرور لگائیے، مگر وقت کی قلت کی سبب ہم وہ نہیں دیکھ سکے۔
گوادر پورٹ کی سیر اور چینیوں سے ملاقات
اس تفصیلی ملاقات کے بعد اشارہ ملا کہ اب پورٹ کی طرف ہمیں جانا ہے۔ اندھا کیا مانگے، دو آنکھیں۔ بس فوری طور پر پورٹ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر دل تو جیسے باغ باغ ہوگیا۔
یہ ساحل نہیں، بلکہ کم از کم 150 فٹ گہرا پانی ہے
پہلے ہی لمحے جو خیال آیا وہ یہ کہ آخر یہاں آنے میں ہم نے اتنا وقت کیوں لگادیا؟
دور تک پھیلا نیلگوں سمندر جیسے خاموشی سے ہمارا استقبال کررہا ہو۔ میں جب تک وہاں نہیں گیا تھا، تو اِس پورٹ کی افادیت اور اہمیت سمجھ ہی نہیں آئی تھی، لیکن وہاں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اِس کو دنیا کا سب سے گہرا سمندر کہا جاتا ہے۔ جب ہم کنارے تک پہنچے تو ہمیں اطلاع دی گئی کہ احتیاط کیجیے کہ جہاں آپ کھڑے ہیں، یہ ساحل نہیں، بلکہ کم از کم 150 فٹ گہرا پانی ہے، یعنی اگر نیچے گئے تو بس گئے، واپسی کی کوئی گارنٹی نہیں۔
اِس خوف سے فوری طور پر ہم پیچھے ہٹے اور چاروں طرف نظر دوڑائی، تو منظر کی خوبصورتی نے جیسے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔
اسی خاموشی میں کچھ چینی کھلکھلاتے ہوئے نظر آئے۔ اس کھلکھلانے کی وجہ جاننے کے لیے اُن کی طرف رُخ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ مچھلی پکڑنے کی کوشش کررہے ہیں مگر اب تک کوئی خاص کامیابی اُن کو میسر نہیں آئی۔
میں یہ سارا منظر کیمرے کی آنکھ سے ریکارڈ کرنا چاہ رہا تھا اور جیسے ہی ایک چینی کو یہ محسوس ہوا کہ اُس نے مچھلی پکڑلی تو فوری طور پر مجھے اشارہ کیا، مگر افسوس یہ کہ مچھلی تو پکڑ میں آگئی تھی، لیکن ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی مچھلی نے دھوکا دیا اور دوبارہ پانی میں ڈوبکی لگادی۔ لیکن مچھلی پکڑنے والوں نے ہمت کہاں ہارنی تھی، دوبارہ یونہی مقصد کے حصول کے لیے کوشش شروع کردی، لیکن ہمیں آگے جانا تھا اس لیے ہم نے اُن سے رخصت چاہی اور آگے نکل گئے۔
چونکہ گوادر میں ہمارا یہ آخری دن تھا اور اگلی صبح ہم نے واپسی کے لیے روانہ ہونا تھا، لہٰذا ہمارے میزبان نے ہمیں بتایا کہ مغرب سے پہلے وہ ہمیں گوادر کے ٹاپ جسے دیوانِ جاہ کہتے ہیں، وہاں لے جائیں گے جہاں سے سورج غروب ہونے کا منظر ہی نرالہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا شمار اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں دو ٹھہرے ہوئے سمندر ایک ساتھ ملتے ہیں
اس پیشکش پر ہمیں کیا اعتراض ہونا تھا، بس عصر کے بعد ہم دیوانِ چاہ کی جانب روانہ ہوئے اور کچھ آدھے گھنٹے تک پہاڑوں کے درمیان گھومتے گھماتے ہم اُس جگہ پہنچے جہاں کے آگے صرف پانی تھا۔
ان پہاڑیوں کو کوہ باطل کہا جاتا ہے، یہ گوادر کا اختتامی نقطہ ہے، جس کے ایک طرف سمندر کا ایک حصہ جسے ’ایسٹ بے‘ کہتے ہیں، جہاں گوادر کی بندرگاہ بھی موجود ہے، اور دوسری طرف سمندر کا دوسرا حصہ تھا جسے ’ویسٹ بے‘ کہتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا شمار اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں 2 ٹھہرے ہوئے سمندر ایک ساتھ ملتے ہیں۔ وہاں موجود لوگوں نے ہمیں بتایا کہ جس جگہ ہم کھڑے ہیں، یہ پہاڑیاں بھی سمندر کے اوپر ہی بنی ہوئی ہے۔ ایک اور حیران کن بات ہمیں یہ بھی معلوم ہوئی کہ اگر موسم ابر آلود نہ ہو اور منظر واضح ہو تو رات میں مسقط کی روشنیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ ایران کی روشنیاں بھی نظر آتی ہیں مگر اُس کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
کراچی والے ہونے کی وجہ سے خیال تو یہ تھا کہ سمندر ہمیں بہت زیادہ متاثر نہیں کرے گا، لیکن سچ پوچھیے تو اتنا صاف سمندر اب کراچی میں تو کہیں نہیں رہا۔ کیا شاندار منظر تھا۔ میزبان کی طرف سے ہمیں یہ بھی بتایا کہ وہ یہاں رات بھی گزار چکے ہیں اور رات کو ٹھنڈی ٹھنڈی ہواوں میں آگ جلا کر یہاں بیٹھنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ بس اُن کی جانب سے یہ کہنے کی دیر تھی اور خواہش نے فوری طور پر زور سے جھٹکا لیا کہ کاش آج کی رات یہی رک جایا جائے، مگر ایسا ممکن نہیں تھا۔
گوادر کے سمندر کی جہاں معاشی اور دفاعی پوزیشن بہت اہم، وہیں اِس کی خوبصورتی کا نعم البدل شاید ہی کہیں اور ہو۔ اس کی مثال میں یوں دیتا ہوں کہ ہمارے میزبان نے خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی کچھ ہی دن پہلے مالدیپ میں سیر کرکے واپس پہنچے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ دنیا کے خوبصورت ترین سمندر مالدیپ میں ہی ہیں تو غلط نہیں ہوگا، لیکن ہمارے میزبان ہمیں کہتے ہیں کہ تصویروں سے ہٹ کر بات کی جائے تو سچ یہ ہے کہ اُنہیں ذاتی طور پر وہاں کے سمندر اور گوادر کے سمندر میں کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں ہوا۔
یہ ساری باتیں سُن کر جہاں یہ خوشی ہورہی تھی کہ قدرت نے پاکستان کو کس قدر نعمتوں سے نوازا ہے، وہیں اِس بات کا بھی شدت سے افسوس ہورہا تھا کہ ان تمام تر نعمتوں سے ہم نے اب تک فائدہ کیوں نہیں اُٹھایا؟ ان کا ہم نے خیال رکھنے کے بجائے اب تک ضائع کیوں کیے رکھا ہے؟ سیاحوں کی اکثریت یا تو پنجاب کا رُخ کرتی ہے یا پھر پختونخوا کا؟ ہم اب تک ایسے حالات کیوں نہیں بناسکے کہ لوگ بغیر خوف کے بلوچستان کی خوبصورت وادیوں، سمندر، وہاں کے چشموں اور صحراوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہاں کا رُخ کریں۔
گوادر کے یہ سارے مناظر دیکھنے کے بعد میں اس بات پر متفق ہوچکا ہوں کہ اگر یہاں خوبصورت قدرتی مناظر کسی اور ملک میں ہوتے تو وہاں اب ان مقامات پر بہترین پکنک پوائنٹس بن چکے ہوتے۔ اگر ہم بھی یہ کام کرلیتے تو نہ صرف مقامی لوگوں میں روزگار میں اضافے کی وجہ سے غربت اور کسمپرسی کا خاتمہ ہوجاتا، وہیں دنیا کو یہ بتایا جاسکتا تھا کہ پاکستان کی اصل شکل دہشتگردی نہیں بلکہ یہ قدرتی خوبصورتی ہے، جس کا مقابلہ کرنا ہرگز آسان نہیں۔
خیر، رات ہونے کو تھی اور واپسی کا پروانہ مل چکا تھا، اس لیے گھر کی جانب روانگی ہوئی، لیکن ابھی ایک اور منزل باقی تھی۔ یہ منزل ایک قدم نیچے تھی، جہاں گوادر کا مشہورِ زمانہ پی سی ہوٹل بھی تعمیر ہے۔ اسی پی سی ہوٹل کے برابر میں گوادر کا سب سے پرانا ہوٹل ’مرجان ہوٹل‘ موجود ہے۔ یہ وہ جگہ تھی، جہاں سے پورے گوادر کا منظر واضح طور پر نظر آرہا تھا۔ یہاں شام کی چائے پی اور کچھ دیر آرام کے بعد منزل کی طرف روانہ ہوئے۔
دورے کا نچوڑ اور کرنے کے کام
اس 2 دن کے سفر کے بعد جو نتیجہ میں نے نکالا وہ کچھ یہ تھا۔
یہ خوبصورت ترین علاقہ جو اب تک ملک کے 90 فیصد لوگوں سے اوجھل ہے, اُس کی اصل شکل لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
مقامی لوگوں کی شکایت اور تحفظات کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر مقامی لوگ اس پروجیکٹ (سی پیک) سے خوش نہیں ہوں گے تو ریاست اور حکومت کی تمام تر کوشش رائیگاں جانے کا خطرہ ہے۔
مقامی آبادی کو درپیش 2 سب سے بڑے مسائل یعنی پانی اور بجلی کی قلت کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
وہاں آنے والے سیاحوں اور کاروباری حضرات کے لیے بہتر سے بہترین سگنلز اور انٹرنیٹ کنیکشن کا انتظام جتنی جلدی ہوسکے کرلیا جائے، کیونکہ آج کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں ٹیکنالوجی کے بغیر ترقی کا خیال بھی بے وقوفی سے کم نہیں۔
وہاں کاروباری فوائد سے متعلق لوگوں میں آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ صرف پاکستان سے ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر سے لوگ وہاں آکر سرمایہ کاری کرسکیں۔
سیکیورٹی کے حوالے سے لوگوں میں بہت خدشات ہیں، لیکن ذاتی تجربہ کرکے یہ خدشات بہت حد تک دور ہوگئے ہیں، لہٰذا لوگوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے حوالے سے جتنی باتیں کہیں جاتی ہیں، اِس میں حقیقت کم اور فسانہ زیادہ ہے۔
اور آخری بات یہ کہ گوادر پورٹ کو حاصل قدرتی فوائد کو ذاتی استعمال کرنے کے بجائے حکومتوں کو انتہائی مخلصانہ طریقے سے اس کی افادیت کو بڑھانے کے لیے سنجیدہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا اور خصوصاً ہمارے پڑوسی اِس حوالے سے بہت زیادہ کام کررہے ہیں، لہٰذا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنی تمام تر کوشش کرکے گوادر پورٹ کو جلد از جلد متحرک کروائے۔ کیونکہ جب تک وہاں کاروبار کا سلسلہ شروع نہیں کیا جائے گا، تب تک مقامی لوگوں کو اِس سے حاصل ہونے والے روزگار اور فوائد کا بھی اندازہ نہیں ہوسکے گا اور جب وہاں کے لوگوں کو یہ اندازہ ہوگیا کہ اس پروجیکٹ کے ذریعے اُن کو نقصان کے بجائے فائدہ ہورہا ہے، تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی صلاحیت سے بڑھ کر اس مقصد میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
فہیم پٹیل ڈان کے بلاگز ایڈیٹر ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (22) بند ہیں