راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے عجیب و غریب مشاغل (تیسرا حصہ)
یہ راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے عجیب و غریب مشاغل کا دوسرا حصہ ہے۔ پہلا اور دوسرا حصہ یہاں پڑھیے۔
دیوان سنگھ مفتون ہندوستان کی صحافت کے حوالے سے ایک بہت بڑا نام تھے۔ اُنہوں نے اپنی کتابوں ’ناقابلِ فراموش‘ اور ’سیف و قلم‘ میں ایسے بہت سارے حقائق بیان کیے ہیں جو والیانِ ریاست، نوابوں اور راجاؤں کے حوالے سے ہوش رُبا تھے۔
اس حوالے سے اُن کی دوسری سوانح حیات سیف و قلم تھی، جس کے ابتدائیے میں جوش ملیح آبادی اُن کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں، ’سیرِ چشم، کوتاہ قامت، بُلند حوصلہ، مہمان نواز، شیر دل، دوست پرور، دشمن کانپتے، سلطانِ شکار، گدا نواز، بدترین اور بہترین دوست۔ جب وہ ’ریاست‘ نکالتے تھے تو ہر میجسٹی کے قلعوں اور ہز ہائینسوں کے ایوانوں میں زلزلے ڈالتے تھے۔ والیانِ ریاست کی نیندیں حرام کردی تھیں، اُن کے قلم سے بڑے بڑے فرماں روا کانپتے تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ‘دہلی کا واقعہ ہے، ایک روز شام میں ریاست کے وزیراعظم میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ دیوان سنگھ آگئے۔ انہیں دیکھتے ہی وزیراعظم صاحب کا رنگ فق ہوگیا اور جب گلاس بھر کر میں نے ان کے سامنے رکھا تو انہوں نے دیوان سنگھ کی جانب اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نہیں پیوں گا۔ دیوان سنگھ نے اُن کی طرف دیکھ کر مجھ سے کہا، جوش صاحب! پرائم منسٹر صاحب سے کہہ دیجیے، وہ شوق سے پئیں، ان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھوں گا۔ یہ والئی ملک نہیں ہیں۔ میں تو فقط والیانِ ملک پر حملہ آور ہوتا ہوں، جس کے معنی یہ ہیں کہ میں انسان کا نہیں، سور کا شکار کھیلتا ہوں۔‘
جوش ملیح آبادی کے مطابق ’ریاست‘ کے دور میں انہوں نے بے حد کمایا، لیکن کبھی اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔ کھایا پیا اور کھلایا پلایا۔ اس لیے ان پر تونگری اور مُفلسی کے دورے پڑا کرتے تھے۔ لیکن اگر مفلسی میں کوئی دوست یا مہمان آجاتا تھا تو وہ خفیہ طور پر اپنے گھر کی چیزیں فروخت کرکے اُس کی دعوت کیا کرتے تھے اور جب کوئی ان کی مفلسی کو بھانپ کر ان کو دعوت کرنے سے روکتا تھا تو وہ لڑ پڑتے تھے۔
مجاز (معروف اردو شاعر اسرار الحق مجاز) نے آکر ایک دن مجھ سے کہا کہ کل تو سردار صاحب نے کمال ہی کردیا، میں شام کو اُن کے وہاں پہنچا، انہوں نے ملازم سے کہا، 12 درجن سوڈے کی بوتلیں لے آ۔ محلے میں ان کا بڑا بھرم تھا، تھوڑی دیر میں 12 درجن بوتلیں آگئیں۔ انہوں نے ایک درجن بوتلیں رکھ کر نوکر کو حُکم دیا کہ فلاں دکان پر جاکر ان کو فروخت کردے اور اُن کو فروخت کرکے جو روپیہ ہاتھ آئے اس کی ایک وسکی کی بوتل اور کچھ کھانے کا سامان لے آئے۔ یہ تھا دیوان سنگھ مفتون کا ایک مختصر سا تعارف۔ آئیے اب آگے بڑھتے ہیں۔
ہندوستان کے نوابوں اور سابق والیانِ ریاست کے حوالے سے دیوان سنگھ مفتوں اپنی کتاب سیف و قلم مطبوعہ 2006ء زیرِ اشاعت ساگر پبلشرز ،7-A لوئر مال، داتا دربار روڈ، لاہور، میں صفحہ نمبر 161 سے 164 تک، ’سابق والیانِ ریاست کی خوش فعلیاں‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ، ’مرحوم مہاراجہ نابھ، سال میں 9 ماہ کے قریب تو مسوری یا ڈیرہ دون میں قیام فرماتے کیونکہ اُن مقامات کی آب و ہوا آپ کو بہت پسند تھی اور صرف 3 ماہ کے قریب اپنی ریاست نابھ میں رہتے۔
ایک بار آپ چیمبر آف پرنس کے اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی تشریف لے گئے اور وہاں لیڈیوکیسل روڈ کی ایک کوٹھی میں مقیم تھے کہ آپ کے پاس ڈیرہ دون سے اطلاع پہنچی کہ آپ کا ایک بِلّا جو ایرانی نسل کا تھا، ایک پرندے کو پکڑنے کی کوشش میں درخت پر چڑھ گیا۔ اس کے درخت پر چڑھنے کے بعد پرندہ اُڑ گیا مگر پرندے کو پکڑنے کی کوشش میں یہ درخت سے گِر گیا ہے اور اس کی گردن پر چوٹ آئی ہے۔
اِس اطلاع کے پہنچنے پر مہاراجہ نے ڈیرہ دون اپنے اسسٹنٹ سیکریٹری کو تار بھیجا کہ بلّے کی خیریت کی بذریعہ تار اطلاع دی جائے اور اُس کی حالت کی نہ صرف ہر روز بذریعہ تار اطلاع دی جائے بلکہ اس کے علاج کے لیے سول سرجن کی خدمات بھی حاصل کی جائیں کیونکہ مقامی ویٹرنری ہسپتال کا ڈاکٹر زیادہ اعلیٰ کوالیفائیڈ نہ تھا۔ چنانچہ اس بلّے کے علاج کے لیے 16 ہزار روپیہ روزانہ فیس پر سول سرجن مقرر کیا گیا۔ ہر روز ایکسپریس تار کے ذریعے بلّے کی خیریت اور حالت کے متعلق ڈیرہ دون سے دہلی اطلاع پہنچا کرتی۔ یہ بلّا غالباً ایک ماہ کے قریب بیمار رہا۔
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سول سرجن اور ویٹرنری سرجن کی فیسوں اور ایکسپریس تاروں (کیونکہ ریاستوں سے تار صرف ایکسپریس ہی جایا کرتے، وہاں روپیہ کے مصارف کا کوئی سوال نہ تھا) پر کتنا روپیہ صرف ہوا ہوگا اور اس سلسلہ کا دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ اسٹاف کے لوگ منہ سے تو کچھ کہنے کی جرات نہ کرتے مگر جب تار آتا تو آپس میں مُسکراتے ہوئے مذاقاً صرف یہ کہا کرتے کہ بلّا صاحب پہلے سے اچھے ہیں اور ان کی زندگی خطرے سے محفوظ ہے۔
پنجاب کی ایک رانی صاحبہ ایک بار دہلی تشریف لائیں۔ آپ ’ریاست‘ کو بہت پسند فرمایا کرتیں اور راقم الحروف کی بہت مداح تھیں۔ دہلی پہنچنے کے بعد آپ راقم الحروف کو نیاز حاصل کرنے کا موقع دینے کے لیے دفتر ’ریاست‘ میں بھی تشریف لائیں۔ اُن کے اعزاز میں چائے کا انتظام کیا گیا اور چائے کی میز پر دوسری بہت سی اشیاء کے ساتھ پھل بھی تھے۔
اُن پھلوں کے ساتھ انگور بھی تھے۔ چنانچہ راقم الحروف یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اُن کے پرائیویٹ سکیریٹری صاحب انگوروں کی ڈنڈیاں توڑ کر رانی صاحبہ کو انگور پیش کرتے، یعنی رانی صاحبہ کا انگوروں سے ڈنڈیاں خود توڑ کر انگور کھانا بھی اُن کی ریاستی شان کے خلاف تھا۔
سینٹرل انڈیا کی ریاست کے نواب صاحب نے ایک اچھی نسل کا جوڑا لندن میں خریدا، اور یہ جوڑا آپ اپنے ساتھ ولایت سے لائے۔ ایک برس کے بعد اس جوڑے کے بچے پیدا ہوئے جو بہت خوبصورت تھے۔ مگر نواب صاحب کے حُکم سے ان تمام بچوں کو ابلتے ہوئے پانی میں ڈلوا کر ہلاک کردیا گیا۔ اس ظلم کی وجہ یہ تھی کہ نواب صاحب نہیں چاہتے تھے کہ اس نسل کے بچے کسی دوسرے کے پاس بھی جائیں اور لوگ یہ کہیں کہ اس نسل کے بچے فلاں کے پاس بھی ہیں۔ (مصنف نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ جوڑے کس جانور کے تھے، لیکن گمان ہے کہ یہ بچے بلّی کے ہوں گے کیونکہ کتّوں کے بچوں کو ہم ’پِلّے‘ کہتے ہیں جبکہ بلّی کے بچوں کو ’بچے‘ کہا جاتا ہے۔)
ایک مہا راجہ کو مچھلی کے شکار کا بہت شوق تھا۔ آپ ایڈمنسٹریشن میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ ریاست کا تمام کام آپ نے وزیرِ اعظم ڈاکٹر ڈھینگرہ پر چھوڑ رکھا تھا۔ آپ دن بھر کسی جھیل یا بڑے جوہڑ کے کنارے بیٹھے مچھلیاں پکڑتے اور رات کو ریلوے سیلون میں آرام فرماتے۔ ایک بار آپ کی سیلون کئی روز تک ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر کھڑی رہی۔ یہ اسٹیشن ایک جھیل کے قریب تھا۔
کئی روز تک کھڑے رہنے کے باعث سیلون کی بیٹریاں ختم ہوگئیں، تو سوال پیدا ہوا کہ بیٹریاں کس طرح چارج کی جائیں، کیونکہ اگر گاڑی حرکت میں ہو تو بیٹریاں بھی ساتھ ساتھ چارج ہوتی رہتی ہیں۔ لہٰذا آپ نے حُکم دیا کہ سیلون کو اُس گاڑی کے ساتھ لگا دیا جائے جو ٹرین اُس اسٹیشن سے بٹھنڈہ جا رہی تھی۔ چنانچہ یہ سیلون صرف بیٹریاں چارج کرنے کے لیے معہ مہاراجہ کے اس اسٹیشن سے بٹھنڈہ گئی اور واپس آئی۔ 200 میل سفر کرنے کے بعد بیٹریاں چارج ہوئیں اور مہاراجہ پھر مچھلی کے شکار میں مصروف ہوگئے۔
پنجاب کی ایک مہارانی کا کُتا جس کی قیمت زیادہ سے زیادہ 50 روپے تھی، لاہور میں گم ہوگیا، جبکہ مہارانی اپنے شوہر کے ساتھ وہاں مقیم تھیں۔ مہاراجہ کا تمام اسٹاف کتے کی تلاش میں دن بھر مارا مارا پھرتا رہا، مگر کُتا نہ ملا۔ آخر مہارانی کی طرف سے لاہور کے ایک اخبار ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ اور ’ٹریبون‘ میں اشتہار دیا گیا کہ اس حُلیے کا کُتا گم ہوگیا ہے، جو شخص اس کتے کو لائے گا، اسے 500 روپے انعام دیا جائے گا۔ مگر کتا نہ ملا، کیونکہ وہ شخص شاید انگریزی اخبارات نہیں پڑھتا ہوگا جس نے آوارہ پھرتے اس کتے کو باندھ لیا تھا۔
میر صاحب خیرپور سندھ سے بے اختیار کردیے گئے اور خیرپور میں ایک انگریز پورے اختیارات کے ساتھ بطور وزیراعظم بھیج دیا گیا۔ اس انگریز نے نہ صرف میر صاحب پر بہت پابندیاں عائد کردیں بلکہ اُن کے ذاتی معاملات میں بھی مداخلت شروع کردی۔ میر صاحب جب بہت پریشان ہوئے تو آپ نے اپنا ایک معتمد بھیج کر راقم الحروف کو اپنے پاس بلوایا تاکہ اس انگریز کی زیادتیاں بتاسکیں اور اُن زیادتیوں کو ’ریاست‘ میں بے نقاب کیا جائے۔
مئی کا مہینہ تھا اور سندھ کی گرمی اور لو اپنے جوبن پر تھی۔ راقم الحروف دہلی سے خیرپور پہنچا۔ ریلوے اسٹیشن پر میر صاحب کی کار موجود تھی۔ یہ کار خیرپور سے کئی میل فاصلے پر مجھے وہاں لے گئی، جہاں میر صاحب مقیم تھے۔ اس جگہ نہ کوئی محل تھا، نہ مکان اور میر صاحب ریت کے ایک ٹیلے پر کیمپ لگائے تشریف فرما تھے۔ اس کیمپ کی کیفیت یہ تھی کہ اس کے چاروں طرف قناتیں اور قناتوں کے اندر خس کی ٹٹیاں (بید کی لکڑیوں سے بنی ہوئی چکیں، جن کو کھڑکیوں اور دروازوں پر آویزان کرنے کے بعد جب اُن پر پانی چھڑکا جاتا تھا تو باہر سے آنے والی گرم ہوا بھی ٹھنڈی ہوا میں تبدیل ہوجاتی تھی) لگی تھیں اور چھت کی جگہ سائبان تھا۔
اس کیمپ کے باہر تو آگ برس رہی تھی اور لُو کے باعث کھڑا ہونا مشکل تھا۔ مگر کیمپ کے اندر درجنوں ملازم پانی کی مَشکیں ٹٹیوں پر چھڑک رہے تھے، جس سے اندر کی فضا گرم ہونے کے بجائے ٹھنڈی ہورہی تھی۔ میر صاحب لکڑی کے ایک چبوترے پر تشریف فرما تھے، تمام کیمپ کے اندر قالین بچھے ہوئے تھے۔ راقم الحروف جب کیمپ کے اندر پہنچا تو ایسا معلوم ہوا کہ دوزخ سے بہشت میں آپہنچا ہے۔ دو گھنٹے کے قریب میر صاحب سے باتیں ہوئیں۔
باتیں کرنے کے بعد راقم لحروف جب کیمپ سے باہر آیا تو ایسا محسوس ہوا کہ پھر سے بہشت سے دوزخ میں پہنچ گیا ہے۔ میر صاحب کا سیکریٹری جو باہر چھوڑنے کے لیے آیا، اس سے راقم الحروف نے پوچھا کہ، ’میر صاحب اس گرمی میں بھی اپنے محلات میں کیوں نہیں رہتے اور ریت کے ٹیلے پر کیوں کیمپ لگا رکھا ہے؟‘ تو سیکریٹری نے مسکراتے ہوئے صرف یہی جواب دیا کہ، ’سرکار کھلی ہوا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔‘
اِس جواب کو سُن کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ نواب اور راجے جتنی جلدی بھی ختم ہوجائیں، اچھا ہے، یہ چاہے انگریزوں کے ہاتھوں ختم ہوں یا کمیونزم کے ہاتھوں۔
ریاستوں کے ’خوش خور‘
ہندوستان کی ریاست میں والیانِ ریاست کو خوش کرنے کے لیے مختلف قسم کے لوگ ہوا کرتے تھے جن کو سرکاری خزانے سے تنخواہ ملتی اور جن کا کام کبھی کبھی والیانِ ریاست کو خوش کرنا تھا اور ان میں پہلوان، موسیقار، شاعر اور دوسرے اہلِ فن ہوا کرتے۔
ریاست نابھ میں ایک صاحب کپتان شیو دیو سنگھ تھے جو مہاراجہ کے دُور کے رشتہ دار بھی تھے۔ عہدے کے لحاظ سے آنریری کپتان، تنخواہ 100 روپے ماہوار اور کام صرف یہ کہ کبھی مہاراجہ طلب کریں تو حاضر ہوجائیں۔ کپتان شیو دیو سنگھ بہت شریف، ملنسار، سادہ طبیعت اور ’خوش خوری‘ کے اعتبار سے آپ ’آفتابِ خوش خوری‘ یا ’رستمِ خوش خوری‘ (موسیقار کے خطاب آفتابِ موسیقی اور پہلوانوں کے خطاب رستمِ ہند کی طرح) کے خطاب کے مستحق تھے اور اس فن کے اعتبار سے شاید تمام ہندوستان میں کوئی دوسرا شخص آپ کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا۔
نابھ میں ڈیرہ بابا اجے پال سنگھ کے نام سے ایک تاریخی گوردوارہ ہے جہاں ہر پورن ماشی کو مہاراجہ کی طرف سے اڑھائی سو روپے کا کڑاہ پرشاد (حلوہ) چڑھایا جاتا۔ اس زمانے میں کھانے کی ہر شے مثلاً گھی، کھانڈ اور گندم بہت ارزاں تھی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اڑھائی سو روپے کا کڑاہ پرشاد مقدار میں کتنے من ہوتا ہوگا۔
پورن ماشی کے روز دوپہر کو اس گوردوارے میں چند سو کے قریب سرکاری ملازم، افسر اور دوسرے لوگ آیا کرتے اور چونکہ کڑاہ پرشاد کئی من ہوتا تو وہاں شامل ہونے والے ہر ایک کو اتنا کڑاہ پرشاد دیا جاتا جو دونوں ہاتھوں میں بھی آنا مشکل ہوجاتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ سب میں تقسیم ہوجائے۔ ایک آدمی کے حصے کا کڑاہ پرشاد کھانے کے بعد اس کو کھانے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ چنانچہ ہر پورن ماشی کو کپتان شیو دیو سنگھ بھی آتے تو آپ کے قریب بیٹھے 8 سے 10 سرکاری افسر بالکل تھوڑا سا کڑاہ پرشاد اپنے لیے رکھ کر باقی تمام کپتان صاحب کو دے دیتے اور کپتان صاحب تمام کے حصے کا کڑاہ پرشاد وہاں بیٹھے بیٹھے کھا جاتے جس کی مقدار کسی صورت میں بھی 6 یا 7 سیر سے کم نہ ہوتی۔
مہاراجہ نے ایک بار کپتان صاحب کو طلب فرمایا۔ آموں کا موسم تھا اور بنارس و لکھنؤ سے آموں کے ٹوکرے آئے تھے۔ مہاراجہ نے فرمایا کہ ’کپتان صاحب! اگر آموں کا ایک پورا ٹوکرا بغیر ہاتھ لگائے کھا جاؤ تو آپ کو 200 روپے کا انعام ملے گا۔ کپتان صاحب نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ بغیر ہاتھ لگائے تمام کے تمام آم کھا گئے اور 200 روپے وصول کیے۔
سرکاری شکاری ایک روز جنگل سے ہرن مار لائے، مہاراجہ نے کپتان صاحب کو طلب کیا اور کہا کہ اگر ایک دن میں تمام کا تمام ہرن کھا جاؤ تو 500 روپے کا انعام ملے گا۔ کپتان صاحب نے یہ شرط منظور کرلی۔ ہرن کو صاف کیا گیا، سرکاری باورچی خانے میں پکایا گیا اور کپتان صاحب 12 گھنٹے میں ہرن کے اس تمام گوشت کو کھا گئے۔
مہاراجہ نے ایک بار کپتان صاحب کو طلب کیا اور فرمایا کہ اگر 5 سیر دودھ میں دو سیر جلیبیاں ڈال کر کھا جائیں تو 200 روپے انعام ملے گا۔ چنانچہ 5 سیر دودھ میں دو سیر جلیبیاں ڈالی گئیں اور کپتان صاحب نے کھانا شروع کیا۔ جب آپ دودھ اور جلیبیوں کا مکسچر بہت زیادہ کھا چکے اور تھوڑا سا باقی رہ گیا تو آپ کے معدے نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور آپ کا جی متلانے لگا مگر آپ نے پھر بھی پرواہ نہ کی اور متلی پر غالب آتے ہوئے اس مکسچر کو ختم کرگئے اور انعام حاصل کیا۔
ایڈیٹر ’ریاست‘ نے ایک بار 6 یا 7 سرکاری افسروں کی اپنے ہاں دعوت کی۔ جب تمام لوگ آگئے اور کھانا تیار ہوچکا تو فیصلہ ہوا کہ پہلے کپتان شیو دیو سنگھ کو کھانا کھلا دیا جائے اور بعد میں دوسرے لوگ کھانا کھائیں۔ چنانچہ کپتان صاحب نے کھانا شروع کیا اور آپ 6، 7 آدمیوں کے لیے پکے ہوئے پراٹھے، پلاؤ، مختلف قسم کے سالن اور پڈنگ وغیرہ سب ختم کرگئے اور اس کے بعد باورچی کو نئے سرے سے آٹا گوند کر روٹیاں پکانی پڑیں اور وقت تنگ ہونے کے باعث مہمانوں کو صرف انڈے تل کر کھانا کھلایا گیا۔
ریاستوں کے ختم ہونے کا اثر پہلوانوں، موسیقاروں، شعراء اور دوسرے اہل فن لوگوں کے علاوہ کپتان شیو دیو سنگھ جیسے خوش خوروں پر بھی پڑا جس کا بہت حد تک افسوس ہوا۔
لیری کولنس، دامنک لیپئر اپنی کتاب آزادیِ نیم شب (فریڈم ایٹ مڈ نائٹ)، جس کا ترجمہ سعید سہروردی نے کیا ہے، میں لکھتے ہیں کہ بعض راجہ اپنے محل کی وسعت اور شان و شوکت بڑھانے کی فکر میں رہتے تھے۔ مہاراجہ کپور تھلہ فرانس گئے جہاں انہوں نے ورسلیز کا شاندار محل دیکھا۔ اچانک انہوں نے محسوس کیا کہ وہ کسی پچھلے جنم میں فرانس کے بادشاہ، لوئی چہاردہم تھے۔
بس پھر کیا تھا انہوں نے ٹھان لیا کہ وہ اس محل کے طرز پر اپنی ریاست میں ایک محل تعمیر کریں گے تاکہ لوگوں کو چہاردہم لوئی کی یاد آجائے۔ اس محل کی تعمیر کے لیے فرانس سے کاریگر بلائے گئے اور محل کی سجاوٹ فرانس کے ورسلیز محل کے نمونے پر کی گئی۔ دربار کی زبان فرانسیسی رکھی گئی۔ دربار کے سکھ افسر پاؤڈر لگے وِگ پہن کر لوئی چہاردہم کی پوشاک پہن کر تعینات ہوئے۔
محل کے علاوہ راجاؤں کو اپنے تخت کی شان و شوکت کی فکر ہوتی تھی۔ میسور کے مہاراجہ کا تخت ایک ٹن ٹھوس سونے کا بنا ہوا تھا۔ اس پر چڑھنے کے لیے نو سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ ہندوؤں کی ایک مذہبی روایت کے مطابق وشنو بھگوان نے 9 قدموں میں ساری دنیا کو ناپ لیا تھا۔ تخت کی 9 سیڑھیاں ان کے 9 قدموں کی علامت تھیں۔
اُڑیسہ کے ایک راجہ کا تخت پلنگ کی طرح تھا۔ وہ اس پلنگ کی ہوبہو نقل تھا جس پر ملکہ وکٹوریہ نے شادی کے بعد آرام کیا تھا۔ راجہ نے اسے لندن کی ایک دکان سے خریدا تھا۔ اسے تخت کی شکل دینے کے لیے راجہ نے اس پر متعدد ہیرے موتی جڑوائے۔
رامپور کے نواب کا تخت ایک بہت بڑے ہال میں رکھا ہوا تھا۔ اس ہال کے ستون سنگِ مرمر کے تھے۔ جو ستون تخت کے چاروں طرف تھے ان پر برہنہ حسیناؤں کی مورتیاں بنی ہوئی تھیں۔ تخت میں ایسا انتظام کیا گیا تھا جسے لوئی چہاردہم کے دماغ کی ایجاد کہتے ہیں۔ سونے کی کشیدہ کاری کی اس گدی میں ایک خاص جگہ سوراخ کردیا گیا تھا۔ اس سوراخ کے نیچے ایک برتن رکھا رہتا تھا۔ ضرورت پڑنے پر نواب صاحب تخت پر بیٹھے ہی بیٹھے اپنے آپ کو ہلکا کر لیتے تھے۔
1947ء میں ہندوستان میں شیروں کی تعداد 20 ہزار کے آس پاس تھی۔ راجہ، مہاراجہ اُن کا شکار بڑے شوق سے کرتے تھے۔ مہاراجہ بھرت پور جب صرف 8 سال کے تھے اس وقت اپنا پہلا شیر مار چکے تھے۔ 35 برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے اتنے شیر مار لیے تھے کہ ان کی کھالیں ان کے مہمان خانوں میں بطور قالین بچھی ہوئی تھیں۔
گوالیار کے مہاراجہ نے اپنی زندگی میں 1400 شیر مارے اور اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی۔ بات یہ تھی کہ راجاؤں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اپنا وقت کس طرح گزاریں؟ شکار وقت گزارنے کا اچھا ذریعہ ہے۔ خوبصورت لڑکیوں کا شکار بھی وقت گزارنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ ان دونوں میدانوں میں پٹیالہ کے ساتویں مہاراجہ سر بھوپندر سنگھ نے جو نام کمایا اُس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ ایک وقت ایسا تھا جب سر بھوپندر سنگھ کے حرم میں 35 حسینائیں تھیں۔
معروف محقق مجاہد حسین اپنی کتاب بہاولپور ڈویزن کے صفحے نمبر 177 اور 178 پر رقم طراز ہیں کہ، 1939ء میں جب آزادی کے متوالوں اور جمہوریت کے دیوانوں نے تحریک چلائی تو ریاست بہاولپور کے طول و عرض میں عوامی مظاہروں کا ایک زبردست سیلاب اُمڈ آیا۔ بہاولپور شہر میں لوگ روزانہ زبردست جلوس نکال کر بہاولپور کے متشدد مزاج سندھی وزیرِ اعظم خان بہادر نبی بخش محمد حسین کی کوٹھی کی جانب روانہ ہوتے۔ پولیس انہیں فرید گیٹ پر روکتی۔ لاٹھی چارج ضرور ہوتے لیکن آنسو گیس یا گولی کی نوبت کبھی نہیں آئی۔
اس صورتِ حال سے گھبرا کر انتظامیہ نے عوامی تحریک کو دبانے کے لیے لیڈروں کے خلاف 124 الف کے تحت بغاوت کا مقدمہ درج کرکے رات کی تاریکی میں انہیں گرفتار کرلیا۔ پولیس کی عام روایت اور عادت کے مطابق بہاولپور کی پولیس نے اس جھوٹے مقدمے کو کامیاب بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اس تحریک میں چونکہ مسلمان پیش پیش تھے اس لیے پولیس نے بیشتر گواہ ہندو طبقے سے پیش کیے۔
ان جھوٹے گواہوں میں بستہ الف کا ہندو بدمعاش اور پولیس ٹاؤٹ مولا بھگت بھی تھا۔ حکومت کی طرف سے ملک عبدالحمید (ریٹائرڈ جج ہائی کورٹ مغربی پاکستان) بطور پبلک پراسیکیوٹر پیش ہوئے۔ مولا بھگت نے رٹی رٹائی کہانی عدالت کو سنادی تو اس کے بعد پبلک پراسیکیوٹر نے پوچھا۔ ’اس کے بعد کیا ہوا؟‘ مولا بھگت نے کہا، ’بس حضور مجھے پولیس نے اتنا ہی سمجھایا تھا‘ پھر تھانے دار کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوگیا اور کہا، ’حضور میں کوئی بات بھول تو نہیں گیا؟‘
مولابھگت یہ بیان جیل خانے کے ہیبت ناک ماحول میں دے رہا تھا۔ اس کے بعد اس بیان پر عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ اس پر پبلک پراسیکیوٹر (ریٹائرڈ جج ملک عبدالحمید) نے گھبرا کر عدالت سے کہا، ’میں اس گواہ کو ترک کرتا ہوں۔‘
صاحبزادہ قمرالزمان عباسی کی تحریر کردہ کتاب، ’بغداد سے بہاولپور‘ میں نواب بہاولپور سر صادق خان عباسی کے بارے میں بہت سے قصے مرقوم ہیں۔ اس کتاب کے صفحے نمبر390 میں مذکور ہے کہ ’نواب صاحب بہاولپور نے ریاست کا اقتدار سنبھالنے کے بعد جیلوں کے دورے کا پروگرام بنایا اور آغاز بہاولپور جیل سے کیا۔
مہربان طبیعت کے نواب صاحب مختلف بیرکوں میں جاتے، قیدیوں سے ان کے جرم کی تفصیل پوچھتے اور اُنہیں معمولی قرار دے کر رہائی کا حکم صادر فرماتے۔ ایک قیدی کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ اس جیل کا سب سے پُرانا قیدی ہے جسے اپنا جرم بھی اب معلوم نہیں تو نواب صاحب نے اسے بلایا اور تفصیل معلوم کی۔ ضعیف العمر قیدی نے ہاتھ باندھ کر کہا، ’سائیں! مجھے اعلیٰ حضرت خلد آشیانی نے سزائے قید سنائی تھی اور آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ میر ا قصور کیا تھا؟'
نواب صاحب نے برجستہ کہا، ’پھر تو تم بابا سائیں کی نشانی ہو جیل میں ہی رہو۔‘
تبصرے (2) بند ہیں